واشنگٹن (تھرسڈے ٹائمز) — امریکی جریدہ ’’فارن پالیسی‘‘ کے مطابق پاکستان نے ڈونلڈ ٹرمپ کے دوسرے دورِ صدارت کے آغاز کے بعد واشنگٹن میں ایک مؤثر تزویراتی واپسی کو یقینی بنایا ہے، پاک امریکا تعلقات میں نمایاں بہتری آئی ہے جبکہ اسلام آباد کو واشنگٹن میں وہ اعتماد حاصل ہوا ہے جس سے امریکا کے کئی دیرینہ شراکت دار اور اتحادی بھی محروم رہے ہیں۔
فارن پالیسی نے لکھا ہے کہ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے طرزِ حکمرانی اور مختلف ممالک کے ساتھ تعلقات میں اکثر معاملات غیر متوقع اور سودے بازی پر مبنی ہوتے ہیں جن میں مؤخر الذکر معاملات امریکا کے کئی اتحادیوں، شراکت داروں بلکہ بعض مخالفین کیلئے بھی قابلِ قبول ہوتے ہیں تاہم گزشتہ ایک سال کے دوران واشنگٹن کے کچھ غیر متوقع اقدامات بعض دیرینہ اور قریبی شراکت داروں کو حیران و پریشاں کرتے رہے ہیں۔
امریکا دنیا میں دو بڑے تنازعات میں ثالثی کی کوششیں جاری رکھے ہوئے ہیں جن میں ایک حماس اور اسرائیل کا تنازع ہے جبکہ دوسرا تنازع روس یوکرین جنگ ہے۔ دونوں تنازعات بڑی حد تک اب بھی حل طلب ہیں اور ڈونلڈ ٹرمپ کی غیر متوقع مزاجی کے باعث گزشتہ برس اِن تنازعات پر امریکی صدر کے مؤقف میں اتار چڑھاؤ آتا رہا ہے۔
امریکی جریدے کے مطابق پانچ ممالک ایسے ہیں جنہوں نے ڈونلڈ ٹرمپ کے ساتھ اپنا کھیل زبردست انداز میں کھیلا ہے جبکہ پانچ ممالک ایسے بھی ہیں جو خود کو مشکلات کی دلدل میں پھنسا محسوس کر رہے ہیں۔
اپنی پہلی مدتِ صدارت کے دوران ڈونلڈ ٹرمپ نے پاکستان اور اُس کی قیادت کو جھوٹ اور دھوکہ کے حوالہ سے سخت تنقید کا نشانہ بنایا تھا اور الزام عائد کیا تھا کہ پاکستان افغانستان میں اُن دہشتگردوں کو پناہ دیتا ہے جن کا امریکہ تعاقب کر رہا ہے، امریکی صدر نے الزام عائد کیا کہ پاکستان ایسے معاملات میں بہت کم مدد کرتا ہے۔ اسی تناظر میں ٹرمپ نے پاکستان کیلئے امریکی فوجی امداد کا بڑا حصہ معطل بھی کر دیا تھا۔
لیکن ڈونلڈ ٹرمپ کی بطور امریکی صدر دوسری مدت کے آغاز کے چند ہی ہفتوں میں افغانستان کے اندر ایک دہشتگرد حملے کے ماسٹر مائنڈ کی گرفتاری میں پاکستان کے کردار نے ٹرمپ کو ایک اہم کامیابی دلوائی اور اسلام آباد کو نئے امریکی صدر تک رسائی کا ایک موقع فراہم کر دیا۔ اِس کے بعد مذاکرات، معاہدوں اور حمایت کا ایک سلسلہ شروع ہوا جس میں کرپٹو کرنسی سے لے کر اہم معدنیات اور نوبیل امن انعام تک مختلف معاملات شامل ہیں۔ اِس سلسلہ نے ڈونلڈ ٹرمپ کی پاکستان کے طاقتور فوجی سربراہ عاصم منیر کیلئے ذاتی رغبت کو بھی تقویت دی۔
فارن پالیسی کے مطابق ٹرمپ کی نظر میں پاکستان کا ابھرنا اس لیے بھی زیادہ قابلِ توجہ ہے کہ یہ اسی عرصہ کے دوران ہوا جب پاکستان کے روایتی حریف بھارت کے ساتھ امریکی تعلقات گزشتہ دو دہائیوں میں اپنی کمزور ترین سطح تک جا پہنچے ہیں۔
بھارتی وزیراعظم نریندر مودی، جنہیں ٹرمپ کئی بار عظیم دوست قرار دے چکے ہیں اور اپنی پہلی مدت کے دوران جن کے ساتھ قریبی تعلقات قائم کیے تھے، ٹرمپ کے دوبارہ منتخب ہونے کے بعد واشنگٹن آنے والے اوّلین عالمی راہنماؤں میں شامل تھے اور ایسا لگ رہا تھا کہ دونوں راہنما وہیں سے سلسلہ آگے بڑھائیں گے جہاں پہلے چھوڑا تھا، مگر مئی میں پاک بھارت مسلح جھڑپ کے بعد پاکستان کے ساتھ جنگ بندی میں ٹرمپ کو کریڈٹ دینے سے بھارت کے انکار، بھارت کی تجارتی پالیسیز اور روسی تیل کی خریداری پر مبینہ طور پر ٹرمپ ناراضی کے باعث نئی دہلی کو دنیا کے بلند ترین ’’ٹرمپ ٹیرف‘‘ کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔
اگرچہ دونوں ملکوں کی افواج نے حال ہی میں 10 سالہ دفاعی تعاون کے ایک معاہدے پر دستخط کیے ہیں اور ٹرمپ کی نئی نیشنل سکیورٹی سٹریٹیجی میں واشنگٹن کو یہ ہدایت بھی دی گئی ہے کہ وہ بھارت کے ساتھ تجارتی و دیگر تعلقات کو مزید بہتر بناتا رہے۔
تاہم جب 50 فیصد ٹیرف بدستور نافذ ہے اور تجارتی معاہدہ تاحال طے نہیں ہو سکا تو جو لوگ صرف ظاہری منظرنامہ دیکھتے ہیں وہ یہ تسلیم کیے بغیر نہیں رہ سکتے کہ اِس وقت بھارت کیلئے صورتحال اچھی نہیں لگ رہی جبکہ دوسری جانب امریکا نے پاکستان کو ایک قابلِ اعتماد شراکت دار کے طور پر دیکھنا شروع کیا ہے۔








