اسٹیٹ بینک کی آزادی کی آڑ میں قومی خود مختاری پر وار
موجودہ بین الاقوامی مالیاتی فنڈ (آئی ایم ایف) پروگرام کے تسلسل پر کئی سوالیہ نشان ہیں اور اس کی بحالی کے لیے، پی ٹی آئی حکومت نے پارلیمنٹ سے کچھ غیر آئینی ترامیم کی منظوری کی شرط کو تسلیم کر لیا ہے۔ بدقسمتی سے، پی ٹی آئی حکومت کے ڈرپوک مذاکرات کاروں کی طرف سے آئی ایم ایف کے ’’ڈو مور‘‘ کے منتر کی حوصلہ افزائی کی گئی ہے۔ اس سے قطع نظر کہ یہ فائدہ مند ہے یا نہیں، مختلف پی ٹی آئی کے وزرائے خزانہ اور اس کی اقتصادی ٹیم کی جانب سے آئی ایم ایف کے تمام مطالبات کو یکے بعد دیگرے تسلیم کیا جا رہا ہے۔ اس نااہل حکومت کے آئی ایم ایف کے آگے بِچھ جانے والے رویے نے آئی ایم ایف کو مزید حوصلہ دیا ہے اور انہوں نے اسٹیٹ بینک آف پاکستان ایکٹ 1956 (”ایس بی پی ایکٹ”) میں 17 دسمبر 2021 تک “پیشگی اقدامات” کے طور پر بڑے پیمانے پر ترامیم کا مطالبہ کر دیا ہے۔ اسٹیٹ بینک آف پاکستان (SBP) کے گورنر کی کرسی پر “اپنا آدمی” بٹھانے سے بھی آئی ایم ایف خوش نہیں اور اب IMF ایسی ترامیم پر زور دے رہا ہے جس سے اسٹیٹ بینک یعنی ہمارا مرکزی بینک، ریاست کے دیگر اداروں کے چیک اینڈ بیلنس سے مکمل طور پر آزاد ہو جائے گا، اور اسے عملی طور پر پاکستان میں آئی ایم ایف کی ایک چوکی میں تبدیل کر دیا جائے گا۔
ایس بی پی ایکٹ کی تمہید میں کہا گیا ہے کہ بینک کو “پاکستان کے مانیٹری اور کریڈٹ سسٹم کو ریگولیٹ کرنے اور اس کی ترقی کو فروغ دینے” کے لیے تشکیل دیا گیا ہے۔ مجوزہ ترامیم کی وجہ سے، اسٹیٹ بینک کے “ترقی/گروتھ” کے حوالے سے کردار کو مقاصد کی فہرست میں نیچے دھکیل کر مکمل طور پر زائل کر دیا گیا ہے۔ مزید برآں، SBP کے “نیم مالی” افعال بند کیے جا رہے ہیں۔
اس پروویژن کا مقصد “گورنمنٹ پیپر” کی نیلامی کے وقت کمرشل بینکوں کی ملی بھگت سے حکومت کا تحفظ کرنا تھا۔ تاہم، اس شق کو واپس لینے سے وزارت خزانہ کمرشل بینکوں کے رحم و کرم پر آجائے گی۔ ہوسکتا ہے کہ ماضی میں اس شق پر سختی سے عمل نہ کیا گیا ہو، لیکن یہ وجہ یقینی طور پر اسے مکمل طور پر حذف کرنے کا اہل نہیں بناتا۔ اس کے بجائے جس چیز کی ضرورت ہے وہ یہ یقینی بنانا کہ حکومت سہ ماہی کے اختتام پر صفر نیٹ قرضے کے اصول کی پابندی کرے۔ یہ اسٹیٹ بینک کو حکومت کے اکاؤنٹ نمبر 1 میں ہر سہ ماہی کے آخر میں ایڈجسٹمنٹ کرنے کا اختیار دے کر حاصل کیا جا سکتا ہے۔
SBP بِل میں تجویز کیا گیا ہے کہ گورنر، ایک بار مقرر ہونے کے بعد، صرف “سنگین بدانتظامی کی وجہ سے، جس کا تعین عدالت نے کیا ہو” ہٹایا جا سکتا ہے۔ اسی بل میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ کوئی بھی اتھارٹی بورڈ آف ڈائریکٹرز کی منظوری کے بغیر انکوائری ہی شروع نہیں کر سکتی۔ گورنر بورڈ کا سربراہ ہوتا ہے، اس طرح تو عدالت کی جانب سے سنگین بد انتظامی کا مرتکب ٹھہرانا تو دور کی بات، گورنر کسی بھی قسم کی کارروائی کے آغاز سے ہی مکمل طور پر مستثنیٰ ہو جائے گا۔ آئی ایم ایف کے بڑھتے ہوئے اثر و رسوخ کی روشنی میں، اس طرح SBP گورنر پاکستان کے قوانین سے بالاتر ہو کر ایک مقدس گائے کی مانند ہو جائےگا جو پاکستانی عوام کے مفادات پر نظر رکھنے والے ایک ریاستی کارکن کے بجائے آئی ایم ایف کے نمائندے کے طور پر خدمات انجام دے گا۔
10) گورنرز، ڈپٹی گورنر اور دیگر کو ہٹانا:
قانون سازی کا اختیار صرف پارلیمنٹ کو حاصل ہے اور نہ ہی آئین اور نہ ہی کوئی قانون اسٹیٹ بینک سے متعلق کسی بھی قانون سازی کی منظوری سے پہلے پارلیمنٹ کی اسٹیٹ بینک سے براہِ راست مشاورت کے لئیے کوئی گنجائش رکھتا ہے۔ اگر اسٹیٹ بینک کوئی اِن پُٹ دینا چاہتا ہے تو وہ صرف وزارت خزانہ کے ذریعے ایسا کر سکتا ہے۔
اسٹیٹ بینک ترمیمی بِل اسٹیٹ بینک کے حکام کو انسداد بدعنوانی ایجنسیوں کی مجرمانہ تحقیقات کے خلاف تحفظ فراہم کر رہا ہے۔
Subscribe
0 Comments