spot_img

رائے: نکولاٹیسلا کون تھا؟

spot_img

ایلون مسک ہمارے نوجواں  کے لئے شاید پہلے ہی بالکل اجنبی نہ ہولیکن جبسے اس نے ٹویٹر خریدا ہے ہر چھوٹا بڑا نوجوان بوڑھا اسے پہچاننے لگ گیا ہے۔ یہ بھی سب جانتے ہیں کہ ایلون مسک (جسے انگریزی اہل زبان ای لان مسک بولتے ہیں) ٹیسلا  موٹرز کا مالک ہے۔لیکن یہ ٹیسلا کون ہے یا کون تھا یہ شاید بہت کم لوگوں کو معلوم ہوگا۔ٹیسلا موٹرزکے تعارف میں لکھا ہے کہ ٹیسلا موٹرزکا نام الیکٹریکل انجنیئر ٹیسلا کے نام پر رکھا گیا ہے۔ اگرچہ خود ایلون مسک ایک بہت ہوشیار سرمایہ کار اور کئی  قسم کی نئی ٹیکنالوجی کا بانی اور موجد ہے لیکن ٹیسلا، نکولا ٹیسلا ایک دیو مالائی کردار ہے۔ایلون مسک کو خلائی مہمات سے زیادہ دل چسپی ہے۔وہ ایک الٹرا ہائی بینڈ وڈتھ، نیورا لنک پر کام کررہا ہے اور وہ بورنگ کی ایک جدید ٹیکنیک متعارف کرانے والی کمپنی کا بھی مالک ہے جو سرنگیں کھودنے میں بہت کامیاب ہے اور مسک اس سے خوب پیسہ بنارہا ہے۔الیکٹرک (بیٹری) سے چلنے والی گاڑیوں میں ٹیسلا موٹرز سب سے آگے ہے اس کی مختلف قسم کی بیٹریاں دنیا بھر میں مستعمل اور مقبول ہیں۔

جس عبقری کے نام پر ٹیسلا موٹرز کا نام رکھا گیا ہے وہ آسٹریا  کے زیر قبضہ سربیا (کروشیا) میں پیداہؤا۔ اس کی پیدائش برصغیر کی جنگ آزادی 1857سے ایک سال قبل کی ہے۔کروشیا میں اس نے الیکٹرک انجنئرنگ کی تعلیم حاصل کی لیکن کہا جاتا ہے کہ وہ ڈگری حاصل نہیں کر سکا۔  تاہم اس نے حساب اورطبیعات  کی تعلیم کے ساتھ فلسفہ بھی پڑھا۔ تعلیم اور چھوٹی موٹی نوکریوں کےبعدٹیسلا نے قسمت آزمائی کے لئے فرانس کی راہ لی۔ فرانس میں امریکہ کی مشہور الیکٹرک کمپنی ایڈیسن میں اسے کام  مل گیا۔لیکن وہ زیادہ عرصہ وہاں نہیں ٹھہرا1884 میں وہ امریکا آگیا۔امریکا آکر مین ہیٹن نیویارک میں ایڈیسن الیکٹرک کمپنی کے ہیڈ کوارٹرز میں کام حاصل کرلیا اور امریکی شہریت بھی حاصل کرلی (جو اس دور مین شاید زیادہ مشکل کام نہیں تھا اس وقت بھی خصوصی صلاحیت کے لوگوں کے لئے یہ قدرے آسان ہے۔) یہ کمپنی اب بھی نیو یارک میں بجلی کی تقسیم وترسیل کا کام کرہی ہے اب یہ ”کان ایڈیسن“ کہلاتی ہے۔

ایڈیسن ایک صاحب ثروت شخص تھا جس کی ایڈیسن الیکٹرک کمپنی نے بہت سے اہل ہنر کو اپنے ہاں کام پر لگا رکھا تھا۔ ایڈیسن کے بلب  کے ایجاد کرنے کے بارے میں کہا جا تاہے کہ 999 بار کی ناکامی کے بعدبھی ہمت نہیںبلکجہ اس کا کہنا تھا کجہ ناکامی سے اس نے کچھ سیکھا ہے۔ لیکن اس میں ایڈیسن کا کوئی ذاتی کمال نہیں تھا اس کے لئے کام کرنے والے دن رات اس کے   الیکٹرک ورکس میں کام کر رہے تھے۔اس کے باوجود بلب کی ایجاد کا سہرا ایڈیسن کےسر باندھنا خاصا  مشکل ہے۔ایڈیسن سے پہلے برطانیہ کے سر ہمفرے ڈیوی نے 1802 میں بجلی کا لیمپ تیار کرلیاتھا۔ ڈیوی نے اس بلب میں روشن کرنے لئے کاربن کو استعمال کیا تھاجوا تنا کامیاب ثابت نہیں ہؤا اس کی روشنی بے حد تیز اور تھوڑی دیر تک رہتی تھی بہر حال اس سے بجلی کے ذریعے روشی کےحصول کے خیال کو عملی شکل مل گئی۔ اس کے بعد روشنی پیدا کرنے والی دھات پر تجربات ہوتے رہے تاکہ بہتر اور دیرپا روشنی حاصل کی جاسکے۔بہت سارے تجربات کے بعد بلب کی وہ شکل سانے آئی جسے آج ہم دیکھتے ہیں اور اگر سچ پوچھیں تو اب بھی اس میں بہتری لانے کے لئے کوششیں ہو رہی ہیں۔آج کل کے عام بلب میں 20 فی صد بجلی روشنی پیدا کرنے میں استعمال ہوتی ہے جبکہ باقی حرارت کی صورت میں ضائع ہوجاتی ہے۔

۔(ایل ای ڈی وغیرہ ایسی ہی کوششوں کا نتیجہ ہیں) تاریخ بتاتی ہے کہ ٹامس ایلوا ایڈیسن سے پہلے کوئی بیس لوگ بلب کی ابتائی شکل ایجاد کرچکے تھے۔ ایڈیسن کے پاس اسے مارکیٹ میں لانے کے وسائل تھے اس لئے تجارتی بنیادوں پر بلب کو اس نے لانچ کیا۔ایک اور برطانوی سائنس دان ویرن ڈی لا    رُو نے بلب میں پلاٹینم کی تار لگائی جو دوسری کئی دھاتوں سے زیادہ کامیاب رہی لیکن پلاٹینم مہنگی دھات تھی اس لئے اس کا تجارتی بنیادوں پر تیاری اور استعمال ممکن نہ ہوسکا۔ایک اور برطانوی سائنس دان جوزف سوین نے پلاٹینم کی بجائے کاغذ کو کاربن لگا کر استعمال کیا جو قدرے بہتر تھا نہ پلاٹینم کی طرح مہنگا نہ خالص کاربن کی طرح بہت زیادہ تیز روشنی دینے والا اور کم وقت تک روشن رہنےوالا۔ان تمام تجربات کے لئے ہوا سے خالی کی ہوئی شیشے کی ٹیوب استعمال ہوتی تھی۔1878 میں بہتر مخراج الہوا آلات آگئے جس کے بعد کاغذ کی بجا ئے مسٹر سوین نے روئی کا دھاگا کاربن چڑھا کر استعمال کیا جو کاغذ سے بہتر ثابت ہؤا۔جوزف ولسن سوین نے1879 میں اپنے بلب کو پیٹنٹ کرا لیا اور اس طرح ٹامس ایڈیسن کا حریف بن گیا۔ 1874 میں دو کینیڈینز ہنری وڈورڈ اور میتھیو ایوین نے مختلگ شکلوں اور مختلف سائز کے بلب بنائے جن میں دو الیکٹروڈز کے درمیان کاربن کی راڈ لگتی تھی اور شیشے کے گلوب سے ہوا خارج کرکے نائٹروجن بھر دی گئی تھی۔انھوں نے اپنے بلب کو تجارتی بنیادوں پر چلانے کی کوشش کی لیکن ناکام ہوگئے اور انھوں نے اپنے پیٹنٹ کو ٹھامس ایڈیسن کو بیچ دیا۔1879 میں جب برطانیہ میں مسٹر سوین کا بلب شہرت پارہا تھا تو ایڈیسن جو تاجرانہ ذہنیت کی شخصیت کا حامل تھا اس بات کو بھانپ گیا کہ اس چیز پر خصوصی توجہ لگائی جائے تو بہت تجارتی فائدہ اٹھایا جاسکتا ہے۔ 1879 میں ایڈیسن نے اپنی ایجاد کو پیٹنٹ کرا لیا۔اور ساری توجہ بلب کے اندر رجلنے والی دھات کی دریافت پر لگادی۔ ان دنوں ایڈیسن کے لئے ٹیسلا بھی انہی تجربات میں مصروف تھا۔ معروف امریکی تاریخ دان مارک ٹوئین سے اس کی دوستی تھی وہ اس کے پاس آیا کرتا تھا مارک ٹوئین کی مختلف اشیاء کی روشنی میں تصویر کھینچتے ہوئے ایکس رے ایجاد ہوگئی۔بیس سال بعد بھی بلب میں جوزف سوین کے طریقے پر روئی ،السی کے دھاگے یا لکڑی کی باریک پتی پر کاربن چڑھا کراس سے روشنی حاصل کی جارہی تھی  کچھ عرصے بعد ایڈیسن کی ٹیم بانس کے ریشے پر کاربن چڑھاکر خاصی کامیاب ہوگئی  اس بلب کے جلنےکا وقت بارہ سوگھنٹے ہوگیا۔اور ایڈیسن الیکٹرک کمپنی نے اسے کمرشل بنیادوں پر مارکیٹ میں لانچ کردیا۔ایڈیسن کا بلب سیدھا سیدھا جوزف سوین کی ایجاد کی نقل تھا اس لئے برطانیہ کی عدالت میں جوزف سوین نے ایڈیسن کے خلاف منقدمہ دائر کردیا۔ عدالت نے ایڈیسن کے خلاف فیصلہ دیا اور فیصلے میں کہا کہ ایڈیسن سوین کو اپنا پارٹنر بنالے۔اس طرح مارکیٹ میں ایڈیسوین کمپنی وجود میں آئی اور اس طرح ایڈیسن اینڈسوین کے ناموں کے ساتھ بلب فروخت ہونے لگے۔1883 مین امریکی پیٹنٹ ادارے نے ایڈیسن کے پیٹنٹ کو غیر قانونی قرار دے دیا کیوں کہ اس نے ایک اور امریکی کے کام کی ہوبہونقل کی تھی۔اس کے باوجود آج بھی ایڈیسن کو بلب کا موجد ہی نہین قرار دیا جاتابلکہ اس کی بار بار کی ناکامیوں کے باوجودبار بار کی کوشش کو مثال کے طور پر پیش کیا جا تا ہے۔ بے شک وہ ایک بہت گھاگ تاجر اور چالاک آدمی تھا جب مرا تواس کے نام2332 پیٹنٹ تھے جن میں سے389 صرف بجلی کی ایجادات کے تھے۔ایڈیسن کے بارے میں یہ طویل کہانی اس لئے بیان کرنا پڑی کہ اس سے نکولا ٹیسلا کامعاملہ جڑا ہے۔

جن دنوں ٹیسلا ایڈیسن کے پاس کام کرتا تھا ایڈیسن کو ڈی سی کرنٹ کو اے سی میں تبدیل کرنے کا معاملہ درپیش تھا۔ اس نے ایڈیسن الیکٹرک میں ایک دن کہا جو شخص اے سی موٹر ایجاد کرے گا اسے پچاس ہزار ڈالر دوں گا۔ٹیسلا رات دن اس کام پر جت گیا اور بالآخر اے سی موٹر بنالی یاد رہے اے سی موٹر کی ایجاد کا کریڈٹ آج بھی ٹیسلا کے نام ہے۔ ٹیسلا نے انعام کی رقم کا مطالبہ کیا تو ایڈیسن نے اس کا مذاق اڑاتے ہوئے کہا وہ تو میں نے مذاق کیا تھا تم دراصل امیریکن مذاق کو نہیں سمجھتے۔اس سے ٹیسلا کو بہت مایوسی ہوئی اور اس نے ایڈیسن سے اپنی راہیں جدا کرنے کا فیصلہ کرلیا۔

ایڈیسن نے پھانسی کی سزا کو ظالمانہ اور مجرم کو موت کے علاوہ اذیت دینے والی سزا قرار دے کر اپنی بجلی کی کرسی سزائے موت کے لئےمتعار ف کرائی جو اس کی کمپنی میں بنائی گئی تھی۔ یہ ایک لکڑی کی کرسی تھی جس پر چمڑے کی پٹیاں لگائی گئی تھیں جن سے مجرم کو جکڑ دیا جاتا تھااور اس کے پاؤں اور سر پر الیکٹروڈز لگا کر کرنٹ چھوڑا جاتھا۔بعد میں ثابت ہؤا کہ یہ طریقہ نہایت تکلیف دہ تھا اور مرنے سے پہلے مجرم شدید اذیت سے گذرتا تھا۔متعدد بار ایسا ہؤا کہ مجرم کو بار بار کرنٹ لگانا پڑا۔بعض اوقات مجرم کی کھوپڑی سے ٹکڑے اڑ جاتے تھے سر اور کانوں کے اطراف کی جلد سکڑ جاتی تھی یا جل جاتی تھی۔ ایک دو بار تو بہت خوف ناک مناظر دیکھنے کو ملے ایک بار مجرم کا دماغ پگھل کر ناک کی راہ بہہ نکلا ایک بار مجرم کے پورے جسم کو آگ لگ گئی دراصل اس کرسی میں کس قدر کرنٹ دینا ہے اس کا کوئی طریقہ نہیں تھا۔ اب اس کا استعمال امریکا کی سوائے چند ایک ریاستوں کے ختم کردیا گیا ہے۔سزائے موت کے لئے اب زہر کا انجکشن لگا یاجا تا ہے لیکن اس پر بھی سوالات اٹھنے لگے ہیں بعض ماہرین کا کہنا ہے کہ  مرنے سے پہلےاس زہر سے شدید تکلیف ہوتی ہے اس لئے اس انجکشن سے پہلے مجرم کو بے ہوشی کا انجکشن لگایا جاتا ہے۔بعض ریاستوں میں دواساز کمپنی نے یہ انجکشن فراہم کرنے سے انکار کردیا ہے۔

ایڈیسن کا حریف جارج ویسٹنگ ہاؤس بھی ایک بڑا دولت مند اور موجد تھا اس نے ریلوے کے لئے ائر بریک ایجاد کی تھی جس سے ریلوے کا سفر بہت محفوظ ہوگیا تھا یہ ایک انقلابی ایجاد تھی۔ویسٹنگ ہاؤس نے 1888 میں  ٹیسلا سے اس کی اے سی موٹر کا پیٹنٹ خرید لیا تاکہ اسے تجارتی بنیادوں پر مارکیٹ میں لائے۔ٹیسلا نے اے سی جنریٹر بھی ایجاد کیا اور اس کے حقوق بھی ویسٹینگ ہاؤس کو بیچ دیئے جارج ویسٹنگ ہاؤس نے ٹیسلا کو اپنے ہاں نوکری بھی دے دی۔ٹیسلا ایک ذہین موجد اور محنتی شخص تھا لیکن اپنے پہلے نائیک (مالک) اور اپنے حریف ٹھامس ایڈیسن کی سی قسمت  نہیں پائی تھی اس لئے اپنی محنت اور ذہانت سے اپنے معاشی حالات کو سدھار نہیں پایا۔وہ کچھ عجیب  وغریب شخصیت کا مالک عجیب وغریب خیالات اور نظریات رکھنے والا نابغہ تھا۔اس کی بعض باتیں خیالات تصورات اورمستقبل کی ایجادات کےبارے میں نظریات تب بھی ناقابل فہم تھے اور بعض اب بھی ناقابل فہم ہیں۔ٹیسلا نے ویسٹنگ ہاؤس سے ملنے والی رقم خرچ کردی اور اس کی ٹیسلا الیکٹرک کمپنی ناکام ہوگئی نوبت یہاں تک پہنچ گئی کہ ٹیسلا کو دو ڈالر روزانہ پر گڑھے کھودنے کا کام بھی کرنا پڑ گیا۔اس نے اپنی لیبارٹری بھی بنائی اور اس میں کئی کامیابیاں حاصل کیں لیکن وہ اپنے فلاکت کے دور کومختلف علوم میں اعلیٰ تعلیم کا دور کہہ کر یاد کرتا تھا۔ 1883 مین اسے کچھ سرمایہ کاروں اور کچھ اداروں کی مدد حاصل ہوگئی اور اس نے انڈکشن موٹر جنریٹر اور ٹرانسفارمر بنانا شروع کردئیے۔الیکٹرک کی دنیا میں اس کی ایجادات کی طویل فہرست ہے،ٹیسلا کی ساری کامیابیوں کو مختصر سی تحریر میں سمونا ممکن نہیں،اس کے چند عجیب وغریب خیالات اور اس کے سنکی پن کے بارے میں کچھ بیان کرنا زیادہ مناسب ہوگا۔

ٹیسلا کا خیال تھا کہ ایٹم کی مزید تقسیم کا نظریہ درست نہیں اس کا خیال تھا کہ الیکٹرون کوئی چیز نہیں اگر کچھ ہے تو پھر یہ مادے کی چوتھی قسم ہوسکتی ہے۔وہ قدیم ایتھر کی تھیوری کا قائل تھا،وہ آئین سٹائین کی relativityکی تھیوری کو نہیں مانتا تھا۔1926 میں عورتوں کی برابری کی جدوجہد کے بارے میں اس کا کہنا تھا کہ آئیندہ دنیا میں عورتوں کی بالا دستی ہوگی۔ (ایک روحانی بزرگ شمس الدین عظیمی کا بھی یہی خیال تھاواللہ اعلم) جنگ عظیم اول کے بعد ٹیسلا کا خیال تھا کہ ٹیکنالوجی، ایجادات اور سائنس کی وجہ سے جنگ کا خاتمہ ہوجائے گا۔اس  کو یقین تھا کہ جنگ کے خلاف بنائی گئی عالمی تنطیم ”لیگ آف نیشنز“ (انجمن اقوام) جنگ کو روکنے میں کامیاب نہیں ہوگی۔ علامہ اقبال ؒ نے بھی لیگ آف نیشنز کے بارے میں فرمایا تھا۔

من ازیں بیش ندانم کہ کفن دُزدے چند

بہر تقسیم ِ قبور انجمنے ساختہ اند

۔”میں اس سے زیادہ کچھ نہیں جانتا کہ چند کفن چوروں نے آپس میں قبریں بانٹنے کے لئے انجمن بنا لی ہے“۔

ٹیسلاآرتھوڈیکس عیسائی تھا لیکن بعد میں اس نے  آرتھوڈیکس خیالات ترک کردیئے تھے، اس کا خیال تھا کہ عیسائیت اور بدھ مت اچھے مذہب ہیں۔ اس کے خیال میں روح جسم کی قوت کارکردگی ہے جب جسم قوت کارکردگی کھو دیتا ہے تو روح ختم ہوجاتی ہے۔وہ تین کے عدد سے بھی متاثر تھا وہ اپنے ہاتھ تین بار دھوتا  تھا کسی عمارت میں جانے سے پہلے تین بار اس کے گرد چکر لگایا کرتا تھا اس کے بعد اندر داخل ہوتا تھا۔اس کا کہنا تھا زمین کے نیچے توانائی کا بیش بہا خزانہ ہےاگر زمین کے نیچے کی توانائی حاصل کرلی جائے تو ساری دنیا کو مفت بجلی دی جاسکتی ہے۔وہ کہتا تھا کہ بغیر تاروں کے بجلی کو ایک جگہ سے دوسری جگہ پہنچانا ممکن ہے، اس نے مارکونی سے بہت پہلے ریڈیو لہروں  پر آوازکو بغیر تار کے ایک جگہ سے دوسری جگہ پہنچانے کا مظاہرہ کیا تھا۔

وہ نیو یارک کے کبوتروں سے خصوصی رغبت رکھتا تھا انھیں دانہ ڈالتا تھا۔اس کا کہنا تھا وہ اس سے باتیں کرتے ہیں وہ ان کی باتیں سمجھتا ہے اور وہ اس (ٹیسلا) کی باتیں سمجھتے ہیں۔ اس نے اپنے ہوٹل کے کمرے کی کھڑکیا ں کبھی بند نہیں کی تھیں تاکہ کبوتر آزادی سے آجا سکیں۔ اس کا کہنا تھا اسے ایک سفید کبوتری سے سچی محبت ہو گئی تھی وہ مرنے لگی تھی تو اس نے کمرے میں آکر اپنے مرنے کے بارے میں بتا یا اور مر گئی۔اسے موتیوں سے سخت نفرت تھی اگر کسی عورت نے موتی پہنے ہوتے تو وہ اس سے بات تک نہیں کرتا تھا۔اس نے عمر بھر شادی نہیں کی اور اس کا کہنا تھا کہ مجھے کوئی ایک عظیم الشان ایجاد بتاؤ جو کسی شادی شدہ   شخص نے کی ہو۔معاشی تنگی کی وجہ سےاس کے ذمہ نیویارک ہوٹل کا بہت سا بل واجب الاداتھا۔ ایک صبح وہ اپنے کمرے میں مردہ پایا گیا ۔سازشی تھیوریوں والے اس سے طرح طرح کی ایجادات اورخیالات منسوب کرتے ہیں اور ان کا خیال ہے کہ اگر اسے موقع مل جاتا تو اپنی ایجادات سے انقلاب برپا کردیتا اور یہ جو اجارہ داریاں قائم ہیں یہ ختم ہوجاتیں ۔ اس کی ایجادات سے خوف زدہ لوگوں نے اسے مروا دیا، سازشی تھیوریوں پر یقین رکھنے والےلوگ اس کی موت کو طبعی موت تسلیم نہیں کرتے۔

LEAVE A COMMENT

Please enter your comment!
Please enter your name here
This site is protected by reCAPTCHA and the Google Privacy Policy and Terms of Service apply.

The reCAPTCHA verification period has expired. Please reload the page.

spot_img

خبریں

The latest stories from The Thursday Times, straight to your inbox.

Thursday PULSE™

More from The Thursday Times

error: