کہتے ہیں کہ زبان کسی بھی شخصیت کی آئینہ دار ہوتی ہے، یعنی کسی شخص کی گفتگو سے اس کے اخلاق و کردار کا پتہ چل جاتا ہے۔ نیک طبیعت لوگوں کی گفتگو نرم اور اچھے الفاظ پر مشتمل ہوتی ہے اور وہ اپنی گفتگو میں دلیل، منطق اور مثالوں کا استعمال کر کے اپنے ناقدین اور مخالفین کو قائل کرتے ہیں جبکہ اس کے برعکس بدمزاج اور بدکردار لوگوں کی گفتگو کا محور ہمیشہ دوسروں کی برائیاں، عیب جوئی، غیبت، الزامات اور دشنام طرازی ہوتا ہے۔ ایسے لوگ زندگی اپنی اچھائیوں کی بنیاد پر نہیں بلکہ دوسروں کی کمیوں کوتاہیوں پر انگلیاں اٹھا اٹھا کر گزارتے ہیں۔
ان لوگوں سے نیچے ایک اور قسم کے لوگ ہوتے ہیں جو کہ بلاشبہ بدترین لوگ کہلائے جا سکتے ہیں۔ ان کی اپنی تمام تر زندگی برائیوں اور گناہوں سے لتھڑی ہوتی ہے مگر یہ لوگوں میں یہ تاثر پھیلاتے ہیں کہ جیسے یہ دنیا کے سب سے نیک اور پرہیزگار لوگ ہیں۔ یہ لوگ طفیلیے ہوتے ہیں، جن کی اپنی زندگی میں کوئی چیز مثبت نہیں ہوتی اور نہ ان کے پاس کرنے کے لیے کوئی کام ہوتا ہے۔ یہ منافقت کی اتھاہ ترین گہرائیوں میں پائے جانے والے وہ لوگ ہوتے ہیں جن کی گندی اور بدبودار شخصیت کا پردہ ان کی گفتگو چاک کر دیتی ہے۔
ملتان جلسے میں تقریر کرتے ہوئے عمران خان صاحب نے جس طرح مریم نواز کے بارے میں نیچ اور گھٹیا گفتگو کی اس سے مریم نواز کو تو کوئی نقصان نہیں ہوا لیکن عمران خان کا کردار کھل کر سامنے آ گیا اور ان کی تربیت پر بھی کئی سوال کھڑے ہو گئے۔ میں نہیں سمجھتی کہ محترمہ شوکت خانم مرحومہ اور اکرام نیازی صاحب مرحوم نے عمران خان کی اچھی تربیت کرنے میں کوئی کسر چھوڑی ہو گی اور یہ عمران خان کی اپنی فطرت ہی ہے جو ان کو اس قسم کی گفتگو کرنے پر مجبور کرتی ہے۔ یہ کوئی پہلا موقع نہیں کہ عمران خان نے کسی خاتون پر گھٹیا بات کی ہو۔ قارئین کو یاد ہو گا کہ اس سے پہلے بھی کئی بار یہ صاحب ایسی ہرزہ سرائی فرما چکے ہیں۔ مخصوص نشستوں پر اسمبلیوں میں آنے آنے والی خواتین ہوں، ناز بلوچ صاحبہ ہوں یا عائشہ گلالئی صاحبہ ہوں، عمران خان اور ان کے چیلوں کے گھٹیا حملوں، پیغامات اور تبصروں کا نشانہ سب بن چکی ہیں۔ نہ صرف یہ بلکہ عمران خان کی فطرت میں مظلوم کو موردِ الزام بنانے جیسی برائی بھی بدرجہ اتم موجود ہے۔ سیالکوٹ موٹروے پر ریپ کا شکار ہونے والی خاتون پر بھی انہوں نے کچھ ایسا ہی تبصرہ کیا تھا اور حتیٰ کہ محترمہ بینظیر بھٹو صاحبہ کی وطن واپسی پر سانحۂ کارساز پر بھی انہوں نے محترمہ شہید کو ہی ذمہ دار قرار دیا تھا۔
عمران خان جیسے کردار اور بیہودہ گفتگو کرنے والے کبھی بھی ہمارے معاشرتی نظام کی خوبصورتی کو نہیں سمجھ سکتے کیونکہ ان کے اندر کی گندگی کی وجہ سے یہ لوگ رشتوں، تعلقات اور اختلافات کے باوجود باہمی احترام کی خوشبو محسوس کرنے کی صلاحیت سے محروم ہوتے ہیں۔ یہ لوگ اس گھٹیا ذہنیت کے نمائندے ہیں جن کے نزدیک خواتین کا وجود محض ایک جنس سے زیادہ نہیں اور یہ لوگ دورِ جاہلیت کے بدکردار ترین لوگوں کی طرح خواتین کو غلام یا کنیز سے زیادہ اہمیت دینے کو تیار ہی نہیں۔ یہ لوگ نہیں برداشت کر سکتے کہ کوئی خاتون اٹھ کر معاشرتی ناہمواریوں کو چیلنج کر کے اپنی جگہ بنائے اور عوام میں پذیرائی حاصل کرے اور ان فسطائیت زدہ سوچ کو ٹکر دے کر ان کے اپنی عظمت کے تراشے ہوئے بتوں کو پاش پاش کر دے۔ ان کو یہ ہر گز برداشت نہیں کہ کوئی بیٹی اٹھے اور اپنے باپ کا مظبوط ترین سہارا بن جائے، یہ نہیں سہہ سکتے کہ کوئی خاتون قوم کی امنگوں کی ترجمان بن جائے، ان کی کریہہ سوچ اس سچ کا احاطہ نہیں کر سکتی کہ کوئی خاتون ان کے مقابلے میں کھڑی ہو کر ان کے جھوٹوں اور مظالم کے خلاف ان کو للکارے اور ان کے کھوکھلے نعروں اور شخصیت کو عوام کے سامنے آشکار کر دے۔
مریم نواز کی عمران خان سے کوئی ذاتی دشمنی نہیں، مریم نواز کا ”قصور“ محض یہ ہے کہ انہوں نے مشکل ترین حالات کا، جبر کا مقابلہ کیا مگر ظلم کے سامنے سر نہیں جھکایا، انہوں نے جمہور کی ترجمانی کا حق ادا کیا اور پاکستانی عوام نے ان کو پذیرائی بخشی۔مریم نواز کا ”قصور“ محض یہ ہے کہ انہوں نے ظلم کے سامنے سر نہیں جھکایاجوعمران خان جیسے پدرسری معاشرے کےنمائندے کو برداشت نہیں اس محدود سوچ کے حامل کو آسان راستہ یہی نظر آیا کہ بازاروں کےتھڑا باز لچے لفنگوں کی طرح ایک معزز خاتون پر کیچڑ اچھالا جائے لہذٰا ، ان جیسے جیسے محدود سوچ کے حامل شخص کو سب سے آسان راستہ یہی نظر آیا کہ بازاروں کےتھڑا باز لچے لفنگوں کی طرح ایک معزز خاتون پر کیچڑ اچھالا جائے اور ایسا گھٹیا تاثر دیا جائے کہ جس سے خاتون کی عزت کو نقصان پہنچے۔ لیکن وہ شاید یہ بھول گئے تھے کہ پاکستانی ایک غیرت مند قوم ہیں اور وہ خواتین پر ایسے رکیک حملوں کو بالکل بھی برداشت نہیں کرتے اور ایسے گھٹیا کام کرنے والوں کو نشانِ عبرت بنا دیتے ہیں۔ مجھے یہ خوشی ہے کہ جس طرح پوری قوم نے یک آواز ہو کر عمران خان کی مذمت کی، خواتین نے مریم نواز پر اس حملے کو اپنی ذات پر حملہ سمجھا، رائے سازوں اور صحافیوں نے جس طرح عمران خان کو آڑے ہاتھوں لیا، صحافیوں نے برائی کی جڑ کی پہچان کروائی، مصنفین اور شعراء نے قلم کا حق ادا کیا، اس سے ثابت ہوا کہ معاشرتی قدریں ابھی باقی ہیں اور ریاستِ مدینہ کا نام لے کر جہالت کے پیروکار ابھی کامیاب نہیں ہو سکتے۔ اس سے یہ یقین راسخ ہو گیا کہ امید کی شمع ابھی بجھی نہیں، بلاشبہ اندھیرا بہت ہے مگر روشن صبح کا سورج طلوع ہونے کو ہے۔ شب گزیدہ ہونے کے باوجود عوام امیدِ سحر مریم نواز کے ساتھ کھڑے ہیں اور یہی عمران خان صاحب کی بدترین شکست ہے۔