سالانہ بجٹ آج کی دنیا کا ایک ایسا معروف عمل ہے جس سے کوئی بھی نا آشنا نہیں ہوگا۔ حکومتیں ہر سال اپنی آمد وخرچ کا ایک حساب تیار کرتی ہیں اور سال بھر اس کے مطابق آمدن حاصل کرتی اور بجٹ میں مقرر کردہ اہداف کے مطابق خرچ کرتی ہیں۔ موجودہ جمہوری نظام میں چوں کہ حزب اقتدار اور حزب اختلاف کے دائرہ کار متعین ہیں اس لئے یہ تو ناممکن ہے کہ حزب اختلاف، حزب اقتدار کے کسی کام کی تعریف کردے اور بجٹ تو قانونی عمل ہے اگر حکومت اسے منظور کرانے میں ناکام ہو جائے تو حکومت ختم ہو جاتی ہے۔ حزب اختلاف کا کوئی بھی رکن اسمبلی کسی ایک شق کی ستائش کردے تو کردے وگرنہ کوئی بھی حزب اختلاف ہو اس کے نزدیک بجٹ عوام دشمن اور مسائل کا پلندہ ہے۔یہ پسند ناپسند کا عمل تب بھی جاری رہتا ہے جب حزب اختلاف، حزب اقتدار بن جائے اور حزب اقتدار کو حزب اختلاف کا کردار مل جائے۔ اس لئے حزب اختلاف کے بیانات بجٹ کی خوبی اور برائی کا کوئی پیمانہ نہیں ہے۔عوامی رائے اس معاملے میں بہتر پیمانہ ہو سکتی تھی لیکن اب عوام بھی اپنی اپنی پسندیدہ سیاسی جماعتوں کی رائے سے اپنی رائے کی تشکیل کرتے ہیں اس لئے یہ رائے بھی درحقیقت کسی سیاسی جماعت کی رائے ہی ہوگی۔کچھ لوگ شاید کسی بھی سیاسی جماعت سے منسلک نہ ہوں اور ان کی رائے مکمل غیر جانب دارانہ قرار دی جاسکے، لیکن ان آراء کو ریکارڈ کرنے والوں پر بھی بہت کچھ منحصر ہے کہ وہ کس قدر غیر جانب دار ہیں اگر ان کا جھکاؤ کسی سیاسی جماعت کی طرف ہوگا تو وہ چن چن کر ایسے لوگوں کی رائے لیں گے جو ان کی سیاسی جماعت سے ہمدردی رکھتے ہوں۔بہت کیا تو عوامی رائے کو ملا جلا ردِعمل قرار دے دیں گے۔اب یہ عوام کی مرضی ہے کہ وہ کس قدر ملے جلے ردِ عمل کو قبول کرتے ہیں یا اپنی اپنی پسند کی جماعتوں کی رائے سے دل بہلاتے ہیں۔
Also read: تشویشناک معاشی صورتحال اور بدترین مہنگائی
تمام سرکاری محکموں اور ادرغیرسرکاری اداروں میں بھی بجٹ بنائے جاتے ہیں۔ سرکاری محکموں میں کسی ایک یا دو کلرکوں کے ذمہ بجٹ بنانے کا کام لگا دیا جاتا ہے جو پچھلے سال کے بجٹ کو سامنے رکھ کراس میں چند تبدیلیاں کردیتے ہیں اور یوں نیا بجٹ پاس ہو جاتا ہے۔ ایک زمانے میں پنجاب کا بجٹ بھی ایسے ہی تیار ہوتا تھا۔ بجٹ تیار کرنے والا عملہ بجٹ سے پہلے ہی اس کے اہم نقاط کو لیک کردیتا تھا اس سے ذخیرہ اندوزوں اور منافع خوروروں کے وارے نیارے ہوجاتے تھے۔ میاں نواز شریف پنجاب کے وزیر خزانہ بنے تو انھوں نے اس روایت کو ختم کردیا۔ انھوں نے بجٹ کے نقاط طے کئے اور تیاری کرنے والے عملے کو وزارت خزانہ میں روک دیا ان کے کھانے پینے کا وہیں انتظام کردیا اس دور میں موبائل فون تو تھے نہیں ان کا بیرونی دنیا سے رابطہ منقطع کردیا۔ جب یہ بجٹ آیا تو اس نے سب کو ششدر کردیا۔ اس دن نوائے وقت راولپنڈی میں ہمارے بزرگ اور درویش صفت ایڈیٹربخاری صاحب کی اہمیت دو چند ہوگئی جو کان سے ریڈیو لگا کر بجٹ تقریر سننے اسے قلم بند کرنے اور مختلف خبریں اخذکرنے میں خصوصی مہارت رکھتے تھے،چھپا ہؤا بجٹ اخبارات کے دفاتر میں دیر سے پہنچا کرتا تھا۔
بجٹ کسی ملک کی ترقی کا اشاریہ ہوتا ہے اور اس کے اچھا برا ہونے کا انحصار صرف بجٹ پیش کرنے والوں کی اہلیت یا نیک خواہشات پر نہیں ہوسکتا۔ جیسے کوئی شخص وہی کچھ خرچ کر سکتا ہے جو اس کی جیب یا بینک اکاؤنٹ میں ہو، اسی طرح ملک کے بجٹ میں بھی ملکی دولت کی مقدار کو اصل اور بنیادی حیثیت حاصل ہے۔ یہ دولت مختلف ذرائع سے حاصل ہوتی ہے۔ ہمارے ہاں اس کا سارا دارومدار بیرونی ترسیلات زر ہیں۔یہ کوئی پائیدار ذریعہ نہیں نہ ہی اس میں حسب منشا اضافہ کیا جاسکتا ہے۔زرمبادلہ حاصل کرنے کا دوسرا بڑا ذریعہ برامدات ہیں۔برامدات بڑھانے کے لئے حکومتیں کئی طرح کی کوششیں کرتی ہیں۔ لیکن برامدات کا تعلق ملکی پیدوار سے ہے آج کے دور میں صنعتی پیدوار ہی کے لئے نہیں بلکہ زرعی پیدوار کے لئے بھی توانائی کی ضرورت ہے۔جب تک کسی ملک کی صنعتی اور زرعی پیدوار بڑھانے کے لئے توانائی میسر نہیں ہوگی اس کی خوش حالی کا خواب شرمندہ تعبیر نہیں ہو سکتا۔
پاکستان کا اصل مسئلہ توانائی کی کمی ہے۔ پاکستان میں قدرتی گیس، کوئلہ اور کسی قدر پیٹرول کے ذخائر موجود ہیں لیکن ایک تو ہر جگہ اور ہر مقصد کے لئے یہ براہِ راست استعما ل نہین ہوسکتے انھیں استعمال کرنے کے لئے برقی توانائی میں تبدیل کرنا پڑتا ہے۔ برقی توانائی کی پیدوار کے لئے ہمیں دوسروں پر انحصار کرنا پڑتا ہے۔پاکستان میں تیل سے پندرہ فی صد،پانی(پن بجلی)سےچھبیس فی صد،قدرتی گیس (سوئی گیس)سےبارہ فی صد،ایل این جی (مائع قدرتی گیس)سےپچیس فی صد، کوئلہ سے نو فی صد اور جوہری توانائی (نکلئیر پاور) سے آٹھ فی صد بجلی پیدا کی جارہی ہے۔ہوا اور سورج کی روشنی سےصرف پانچ فی صد بجلی پیدا کی جارہی ہے۔اس طرح ہم قریباً چوالیس فی صد بجلی اپنے ذرائع سے پیدا کررہے ہیں۔ کوئلے سے پیدا ہونے والی بجلی کو جلد ہی ہمیں خیرباد کہنا ہوگا، فضائی آلودگی کے خلاف عالمی سطح پر ہا ہاکا ر مچ رہی ہے اور عنقریب پاکستان جیسے ملکوں کو کوئلے سے بجلی پیدا کرنے والے پلانٹ بند کرنے پر مجبور کر دیا جائے گا۔ایل این جی ہمیں برامد کرنا پڑتی ہے، قدرتی گیس اور ایل این جی سے بجلی پیدا کرنا ایک توانائی کو مزید پیسہ لگا کر دوسری توانائی میں تبدیل کرنے کا عمل ہے جوظاہر ہے کہ مہنگا پڑتا ہے۔تیل (فرنس آئل) سے بجلی کی پیدوار ایک الگ مصیبت ہے۔ آئی پی پیز نے پاکستان کے توانائی کے حصول میں مثبت کردار ادا کیا ہے یا منفی یہ ایک توجہ طلب اور طویل تحقیق اورمنصوبی بندی کا متقاضی سوال ہے۔
میں یہاں آئی پی پیز اور بالخصوص تیل سے بجلی پیدا کرنے کے سلسلے میں ایک واقعے کی یاد تازہ کرتا ہوں۔ 1994 میں محترمہ بے نظیر بھٹو واشنگٹن میں تھیں 1990 کی توانائی پالیسی کے تحت انھیں آئی پی پیز کے ساتھ معاہدے کے لئے کچھ اپنوں اور پرایوں نے تیار کر لیا تھا۔ معاہدے پر دستخط ہونے کے بعد ایک دن مجھے ایک کال موصول ہوئی۔(موبائل کی کثرت نہیں تھی اس لئے لینڈ لائن ہی واحد ذریعہ تھا) غیر امریکی لہجے میں مجھ سے سوال کیا گیا کہ کیا میں پاکستان کے کسی جریدے میں لکھتا ہوں؟ میں نے اثبات میں جواب دیا تو دوسرا سوال کیا گیا، کیا تم (پاکستان) سعودی عرب سے بھی زیادہ تیل پیدا کرتے ہو؟ میں اس سوال کا مطلب نہیں سمجھ پایا۔ میں نے کہا، “نہیں لیکن کیا بات ہے؟” فون کال والے نے اپنا کوئی نام (نام اب مجھے یاد نہیں)بتایا اور کہا میں واشنگٹن سے کال کر رہاہوںاور آپ کو یہ بتانا جاہتا ہوں کہ جو پاور پلانٹ آپ خرید رہے ہیں وہ ازکار رفتہ ہیں۔ امریکہ کی کئی ریاستوں میں ان پر پابندی عاید ہو چکی ہے۔ اور ان سے پیدا ہونے والی بجلی بے حد مہنگی پڑتی ہے اتنی مہنگی کہ امریکا اور سعودی عرب بھی اس کے متحمل نہیں ہوسکتے، یاد رکھو ایک توانائی کو دوسری میں تبدیل کرنا ہمیشہ نقصان کا باعث ہوگا اس سے آپ کو کبھی فائدہ نہیں ہوگا۔” میں حیرت زدہ رہ گیا۔فون والا پھر بولا پاکستان (محترمہ بے نظیر بھٹو)نے اس معاہدے پر دستخط پہلے کئے اور اس کے لئے بین الاقوامی ٹینڈر بعد میں طلب کئے۔ اس طرح یہ سودا بغیر کھلے مقابلے کے ہؤا ان آئی پی پیز نے ایندھن کی فراہمی اایندھن کی قیمتوں میں اتار چڑھاؤ (جو ہمیشہ چڑھاؤ ہوگا) اور ساری پیدا کردہ بجلی خریدنے اور کئی دوسری نا روا شرائط عاید کی ہیں، جو مستقبل میں آپ کے لئے مستقل درد سر بن جائیں گی۔ ” اس کے بعد اس نے مجھ سے میرا فیکس نمبر مانگا جو میں نے اسے دے دیا اس نے معاہدے اور بین الاقوامی ٹینڈر کی کاپیا ں فیکس کردیں۔ میں نے اگلے ہفتے ہفت روزہ تکبیر کے لئے ایک تفصیلی رپورٹ لکھی جو ہفت روزہ تکبیر میں ٹائیٹل سٹوری کے طور پر شائع ہوئی۔
ہم آج بھی بجلی کی کمی کا شکار ہیں۔ سوائے پن بجلی ہوا اور سورج سے پیدا کی جانے والی بجلی کے دوسری تمام قسم کی بجلی منافع بخش نہیں ہے۔ ایٹمی توانئی سے سستی بجلی پیدا کی جاسکتی ہے لیکن اس کی راہ میں کئی رکاوٹیں ہیں۔ حکومت نے موجودہ بجٹ میں سولر پاور کے لئے لئے جو سہولیات دی ہیں اگر عوام ان سے فائدہ اٹھائیں تو عوام کو بھی فائدہ ہوگا اور بجلی کی مجموعی طلب کا بوجھ بھی کم ہو جائے گا۔ توانائی کے مسئلے کو ہمیشہ کے لئے حل کرنے کی ضرورت اور اس کے لئے فوری اقدامات کے ساتھ ساتھ طویل المیعاد منصوبہ بندی کے لئے ہمت اور جراءت کی بھی ضرورت ہے۔ جب تک ہم یہ نہین کرسکتے حکومت کوئی بھی ہو بجٹ محض نیک خواہشات کی دستاویز ہوگا۔