کیا تحریکِ انصاف کی حکومت کا خاتمہ اندھے کننویں میں چھلانگ لگانے کی سی حرکتِ مذبوحی تھی؟ ہر گز نہیں پی ڈی ایم کی قیادت بہت عرصے سے اس معاملے کا ہمہ جہتی جائزہ لے رہی تھی اور ہر پہلو سے اس کے نتائج اور عواقب پر غور کر رہی تھی۔جیسا کہ سابق وزیر داخلہ اس کا اعتراف کر چکے ہیں کہ انھیں ”بتا“ دیا گیا تھا کہ آپ کی حکومت جارہی ہے۔ اس سے ایک طرف تویہ بات پا یہ ثبوت کوپہنچ جاتی ہے کہ امریکی سازش والے مراسلے کا اس وقت تک کوئی وجود نہیں تھا ۔ دوسرا یہ کہ عمران کو چلتا کرنے کافیصلہ ہوچکا تھا وگرنہ شیخ کو بتایا یہ جاتا کہ آپ کی حکومت کو چلتا کرنے کی تیاریاں ہو رہی ہیں۔لیکن شیخ جی کو واضح طور بتا دیا گیا کہ آپ کے باس کی سلیکشن کا ٹھیکا ختم ہوچکا ہے اوراب اس میں توسیع کی کوئی گنجائش نہیں۔عمران خان کو بھی پتہ چل گیا تھا کہ ہما ان کے سر سے اڑ گیا ہے اور بہت جلد شہبازشریف کے سر پر بیٹھنے والا ہے۔یہ الگ بات ہے کہ عمران خان کو یقین نہیں آرہا تھا کہ ایسا ہوجائے گا۔ کیوں کہ ان کے خیال میں ان کے سلیکٹروں نے انھیں دس سال کا پٹہ لکھ کر دیا تھا اور اس پر مزید چند سالوں کے لئے وہ منصوبہ بندی کررہے تھے۔ لیکن اکثر ایسا ہوتا ہے کہ، تدبیر کند بندہ تقدیر زند خندہ۔عمران کا سندر سپنا ٹوٹنا تھا اور ٹوٹ کر رہا۔عمران خان کے قریبی ساتھی اب اس حقیقت کو تسلیم کر رہے ہیں کہ اگر ایسٹیبلشمنٹ سے نہ بگڑتی تو ان کو کوئی مائی کا لال ہٹا نہیں سکتا تھا۔ اس طرح گویا وہ اس دیرینہ حقیقت اور بلاول بھٹو زرداری کی اس پھبتی کو صھیح تسلیم کررہے ہیں کہ وہ سلیکٹیڈ تھے الیکٹیڈ ہر گز نہیں تھے۔
پی ڈی ایم اگر تحریکِ عدم اعتماد کے لئے کئی ماہ پہلے تیار ہو چکی تھی تو اس کے نتائج کے لئے بھی تیار تھی البتہ آخری لمحوں میں عمران خان کی تحریکِ عدم اعتماد سے بچ نکلنے کے لئے تڑپنے پھڑکنے کی جوغیر آئینی کوششیں تھیں ن کے بارے میں شاید انھیں اندازہ نہ ہو لیکن انھیں اچھی طرح علم تھا کہ عمران اتنی آسانی سے ،شرافت اور پارلیمانی آداب کی پاسداری کرتے ہوئے اپنی ہار ہر گز نہیں مانے گا۔ اس لئے اگر کوئی یہ سوچتا ہے کہ پی ڈی ایم نے نادانستگی میں کانٹوں کا ہار پہن لیاہے تو یہ درست نہیں۔ ایک محترم صحافی آخر دم تک پی ڈی ایم کو کانٹوں کا یہ تاج اتار پھینکنے پر اکساتے رہے لیکن جو مصیبت خود سوچ سمجھ کر گلے لگائی ہو وہ کسی کے اکسانے یا ڈرانے دھمکانے پر گلے سے نہیں اتاری جاتی۔
پی ڈی ایم بالخصوص مسلم لیگ ن اور پی پی پی کے کارکنوں کو یہ نعرہ دیا کہ ”سیاست قربان کرکے ریاست بچالی“ جانے کس نے دیا۔ کسی رہنما نے ہوسکتا ہے اپنے کارکنوں کی تسلی کے لئےاس سے کوئی ملتی جلتی بات کہی ہو، کارکنوں نے اسے باقاعدہ نعرہ بنا لیا ہو۔ جیسے ذوالفقارعلی بھٹو نے ”ادھر تم ادھر ہم“ نہیں کہا تھا البتہ وہ دو اکثریتی جماعتوں کی بات کرتے تھے اور شاید اس سے ملتی جلتی کوئی بات کہی تھی، لیکن مختصر اور کاٹ دار سرخیاں لگانے والے نیوز ایڈیٹر عباس اطہر مرحوم نے ”ادھرتم ادھر ہم“ بنادیا۔جنھیں اب تک لوگ بھٹو کے الفاظ سمجھتے ہیں۔ میرے خیال میں سیاست اور ریاست کو الگ الگ نہیں کیا جاسکتا ،سیاست ہے تو ریاست ہے اور ریاست ہے تو سیاست بھی ضروری ہے۔
میں پورے یقین کے ساتھ کہہ سکتا ہوں کہ سلیکٹر ریاست کے بارے میں تشویش میں مبتلا تھے ماسوا ان کے جن کے سر میں ہرقیمت پرعمران کو برسرِ اقتداردیکھنے کا سودا سمایا ہؤا تھا۔ ایسے عناصر ریاست کو جان بوجھ کر تباہ کرنے کی کسی سازش کا حصہ تھے اور اب بھی ہیں یا یہ اس قدر احمق ہیں کہ انھیں قومی سودوزیاں کا ذرہ برابر بھی ادراک نہیں۔عمران خان نے پی ڈی ایم کی حکومت کے خلاف لانگ مارچ کے حربوں میں ناکام ہوکر کہا تھا کہ پی ڈی ایم کی حکومت ملک کو دیوالیہ کردے گی اس کی زد فوج پر پڑے گی اور ملک (خدانخواستہ) تین ٹکڑے ہوجائے گا۔یہ کوئی خدشہ نہیں تھا یہ وہ روڈ میپ تھا جس پر عمران رواں دواں تھا۔تجربوں کی دل دادہ ایسٹیبلشمنٹ اس کو ہوتے ہوئے دیکھ رہی تھی۔میں ایک بات پوری ذمہ داری سے کہہ سکتا ہوں کہ خدانخواستہ ( میرے منہ میں خاک) پاکستان نہ رہا تو پاکستانیوں کے جہاں سینگ سمائے چلے جائیں گے اور اسی سر زمین پر غلامی کی زندگی گذار لیں گے سیات دان بھی سیاست چھوڑ کر اپنی جاگیروں جائیدادوں میں مگن ہوجائیں گےلیکن پاک فوج کے نام سے کوئی ادارہ رہے گانہ جرنیل رہیں گے، کیا فوج اتنی نادان ہے کہ اس سادہ سے نکتے کو بھی نہیں سمجھ سکتی؟کیا ہم نےسوویت یونین کو نہیں دیکھا کیا اس کے اسلحہ خانے خالی ہو گئے تھے ؟ کیا اس کے ایٹم بموں کو زنگ لگ گیا تھا یا ان کے اسلحہ چلانے والے ہاتھ شل ہوگئے تھے۔ سوویت یونین تاش کے پتوں سے بنے ہوئےگھر کی طرح بکھرکر رہ گیا، کیوں کہ اس کی معیشت کا بھٹہ بیٹھ گیا تھا اور پاکستان میں ایسا ہی ہونے جارہا تھا۔مجھے ایک دن ایک انڈین نے بظاہر ہمدردی جتاتے ہوئے کہا سری لنکا کے بعد پاکستان کے دیوالیہ ہونے کا بندوبست جاری ہے۔
پی ڈی ایم کو ان تمام حالات کا علم بھی تھا اور اس کی سنگینی کا ادراک بھی تھا۔یہ بھی ایک نامکمل حقیقت ہے کہ مسلم لیگ ن کے قائد تحریک عدم اعتماد کے حق میں نہیں تھے۔ وہ ایک وقت میں اس کی تفصیلات طے کئے بغیر اس کے حق میں نہیں تھے۔وہ تحریکِ عدم اعتماد کے بعد پیدا ہونے والےحالات کا پورا پورا ادراک رکھتے تھے، سابق وزیر خزانہ اسحٰق ڈار روزانہ عمران حکومت کی معاشی بداعمالیوں پر تبصرہ کیا کرتے تھے اس لئے یہ سمجھنا کہ پی ڈی ایم اندھے کنویں میں کود پڑی سراسر غلط ہے۔ اس کا ثبوت یہ بھی ہے کہ پی ڈی ایم کی حکومت جو اقدامات کررہی ہے کہیں ایسا نہیں لگتا کہ وہ حیص بیص کا شکار ہے۔اس بات میں کوئی شک نہیں کہ نمبر گیم کو کامیاب بنانے میں سابق صدر اور پی پی پی کے شریک چئیرمین آصف علی زرداری کی کاوشیں کامیابی کاباعث بنیں ۔جب بہت سے صحافیوں کو یہ بات سمجھ نہیں آتی تھی کہ نمبر گیم میں کامیابی کیسے حاصل ہوگی تو آسف علی زرداری پورے اطمینان کے ساتھ تحریِک عدم اعتماد کی کامیابی پر بھرپور اعتماد کا اظہار کرتے پائے جاتے تھے۔تحریک کی کامیابی کے بارے میں شکوک وشبہات میں الجھے ہوئے لوگ عمران خان کی بڑھکوں سے متائثر تھے یا انھیں یقین نہیں آتا تھا کہ سلیکٹر نیوٹرل ہو جائیں گے اور پارلیمنٹ کے ارکان کو عالم بالا سے ٹیلی فون نہیں آئیں گے۔
ڈھلوان میں لڑھکتی ریاست کو تواسی وقت بریک لگ گئی جب تحریک عدم اعتماد کامیاب ہوئی۔اب جو مشکل فیصلے ہورہے ہیں یہ تو اسے سیدھے راستے پہ ڈال کر اسے پاور فراہم کرنا ہے۔ ایسا محسوس ہو رہا ہے کہ معیشت کی گاڑی کا رخ درست ہوگیا ہے اور اب ذرا سے تیل پانی کے ساتھ چلنے کے قابل بھی ہوجائے گی۔
آئیے اب یہ بھی دیکھ لیں کہ ریاست بچانے والوں نے کیا ریاست بچاکر اپنی سیاست قربان کردی ہے، میرا خیال ہے یہ پورا سچ نہیں ہے اگر سیاست سے مراد وہ سیاست ہےجو مسلم لیگ ن اور پیپلز پارٹی کچھ عرصے پہلے تک کرتی رہی ہیں جس میں ایک دوسرے پر الزامات مقدمات اور ایک دوسرے کا وجودبرداشت نہ کرنے کاعمل زوروں پر تھا تو یقیناً وہ سیاست قربان کردی گئی ہے اور وہ قربان کردینے ہی کے قابل تھی ، اب جو ہے خواہ کامیابی ہے خواہ ناکامی دونوں کی ایک ہے بلکہ پی ڈی ایم کی صورت میں چھوٹی بڑی سب پارٹیوں کو کریڈٹ اور ڈس کریڈٹ جاتا ہے۔فی الوقت تو ایسا لگتا ہے کہ شاید پی ڈی ایم نے غلط پنگا لے لیا اب مہنگائی قابو میں نہیں آرہی عوام چیخ چلارہے ہیں۔ حتٰی کہ خود مسلم لیگ ن کے کارکن اپنی قیادت بالخصوص وزیر اعظم شہباز شریف پر اکثر اپنا غصہ نکالتے رہتے ہیں۔ اگرچہ سیاسی طور پر یہ ایک صحت مند عمل ہے لیکن قیادت کی حوصلہ افزائی بھی ضروری ہے مسلسل حوصلہ شکنی حوصلے توڑ دیتی ہے۔اکثر کارکن چاہتے ہیں کہ ایک دم ساری انتظامیہ کو سیدنا حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے دور میں پہنچا دیا جائے تو ایسا نہیں ہوسکتا۔نوکر شاہی مراعات یافتہ سہی لیک کام کرنا وہی جانتی ہے اگر آج ان سے ساری مراعات چھین لی جائیں تو کاروبارِ حکومت ٹھپ ہوکر رہ جائے گا۔ پاکستان کو افغانستان نہ بنایا جائے تو بہتر ہے۔ارکان پارلیمنٹ اور وزراء نے اپنے پیٹرول کے خرچے کم کئے ہیں دوسری کئی مدوں میں بھی بچت کی جارہی ہے اسے سراہنا چاہیئے چلتے گھوڑے کو چابک نہ ماریں۔
بعض بہت معمولی نظر آنے والی بچتیں بڑے نتائج پیدا کرتی ہیں۔ اگر احسن اقبال نے چائے کم پینے کو کہا ہے تو اس پر سیخ پا ہونے کی ضرورت نہیں ایک تجویز یا مشورہ ہے آپ پرعمل نہیں کر سکتے یا آپ کو ضد ہے کہ اس پر عمل نہیں کریں گے تو آپ کی مرضی، ایک نظر یہ بھی دیکھ لیں کہ ارد گرد کے تمام ممالک سے ہمارا چائے کی درامدکا بل سب سے زیادہ ہے۔ امریکا کی ایک ائر لائینز نے مسافروں کو دئیے جانے والے کھانے میں ایک زیتون کم کردی اور سال کے بعد ملین کی بچت دکھائی۔ امریکی کافی پینے والے جبکہ برطانوی چائے کے شوقین ہیں سارے برطانیہ میں بغیر چینی کی چائے پی جاتی ہے اس لئے کہ جنگ عظیم کے دوران چینی کی کمی واقع ہوگئی تھی تو حکومت نے اپیل کی کہ بچوں اور بوڑھوں کے لئے چینی بچائی جائے دوسرے لوگ چینی کم پئیں ۔ اس کے بعد برطانیہ میں بغیر چینی کی چائے پی جانے لگی اور آج تک برطانیہ میں چائے میں میٹھا نہیں ڈالا جاتا۔
بات میں ریاست کے ساتھ سیاست کے بچ جانے کی کر رہا تھا لیکن بات اور طرف نکل گئی۔ اگر پی ڈی ایم آنے والے حالات کو دیکھ کر یا بعض مہربانوں کے ڈرانے سے ڈر کر پیچھے ہٹ جاتی تو پی ڈی ایم ہی کیا تحریک انصاف کے سوا سب کی سیاست رُل جاتی۔ عمران خان جس طرح اپنے دس سالہ اقتدار کی راہیں ہموار کررہےتھےاس میں کسی اور کی سیاست کی کوئی گنجائش نہیں رہنا تھی۔ انھوں نے آنے والے انتخابات کے لئے مشینی ووٹنگ اور غیر ملکیوں کے ووٹوں کے ذریعے انھوں نے اپنی کامیابی کے انتظامات کرلئے تھے۔ انھوں نے آئندہ پانچ سالوں میں حزب اختلاف کے نام کی کوئی چیز رہنے نہیں دینا تھی۔ عمران نے الیکشن کمشنر اپنا لانا تھا اپنا چیف آف آرمی سٹاف لانا تھا اور عملاً ون پارٹی حکومت کا نظام لاگو کر دینا تھا۔ نیب کو حزب اختلاف کے ہر بولنے والے کے لئے جیل کا چلتا پھرتا پروانہ بنا دینا تھا۔ آئین کی شکل بگاڑ دیناتھی اور ہو سکتا ہے کہ پاکستان کو دیوالیہ کرکے فوج کو بھی اور ایٹمی پروگرام کو بھی ٹھکانے لگا کر اپنے سسرال میں جا بستے۔یہ محض میرے خدشات نہیں عمران جو کچھ دوسروں کے لئے کہتا ہے خود وہ کر چکا ہوتا ہے یا کرنے جارہا ہوتا ہے۔
تواب آپ ہی بتائیں کہ پی ڈی ایم نے سیاست قربان کی ہے یا اپنی سیاست بچا لی ہے۔ اپنا مستقبل بچا لیا ہے۔ اور اس شر سے جو خیر برامدہوئی ہے وہ یہ ہے کہ پاکستان کی دو بڑی سیاسی جماعتوں میں قربتیں بڑھ گئی ہیں۔ اور ایک دوسرے کو برداشت نہ کرنے کی جو روایت تھی وہ ختم کرکے پاکستان اور پاکستان کی ترقی کے لئے متحد ہوگئی ہیں اور لوگوں کو خدشات الحمدللہ غلط ہو گئے کہ یہ وزارتوں کی تقسیم پر متحد نہیں رہ سکیں گی۔ اس میں مسلم لیگ ن کے قائد کے ساتھ ساتھ صدر آصف علی زرداری کی سوجھ بوجھ اور معاملہ فہمی کا بھی بہت زیادہ دخل ہے، مریم نواز شریف اور بلاول بھٹو زرداری نے بھی اپنی عمر سے آگے کی دانش مندی کا مظاہرہ کیا ہے بلکہ اگر میں یہ کہوں کہ لندن میں نوازشریف سے طویل ملاقاتوں کے بعد بلاول بھٹو زرداری نے فاصلے کم کرنے میں اہم کردار ادا کیا ہے۔پی ڈی ایم نے ریاست اور سیاست کو بچا لیاہے اب اس پر پہرہ دینا ہے اسے قائم رکھنا ہےاور اس سے پائیدار نتائج حاصل کرنے ہیں۔