مخصوص نشستوں کے کیس میں 8 ججز کا فیصلہ آئینی غلطیوں سے بھرپور ہے، چیف جسٹس

مخصوص نشستوں سے متعلق 8 ججز کا فیصلہ آئینی غلطیوں سے بھرپور ہے، وضاحت کیلئے 8 ججز نے فل کورٹ سے الگ ورچوئل عدالت قائم کی، جسٹس منصور اور جسٹس منیب نے نظرِثانی مقرر نہ کرنے کا مؤقف اپنایا، فیصلے پر عملدرآمد نہ ہونے پر توہینِ عدالت کی کارروائی نہیں ہو سکتی، ججز غلطیوں پر غور اور تصحیح کریں۔

اسلام آباد (تھرسڈے ٹائمز) — چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ اور جسٹس جمال خان مندوخیل نے مخصوص نشستوں سے متعلق کیس میں تفصیلی اختلافی فیصلہ جاری کر دیا، چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کا اختلافی نوٹ بھی شامل۔

چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس قاضی فائز عیسیٰ اور جسٹس جمال خان مندوخیل نے سنی اتحاد کونسل کی مخصوص نشستوں سے متعلق کیس میں اختلافی تفصیلی فیصلہ جاری کر دیا ہے، تفصیلی اختلافی فیصلہ 14 صفحات پر مشتمل ہے جو کہ چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے تحریر کیا ہے جبکہ اس میں چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کا اضافی نوٹ بھی شامل ہے۔

چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے اختلافی نوٹ میں لکھا ہے کہ فیصلے میں آئینی خلاف ورزیوں اور کوتاہیوں کی نشاندہی میرا فرض ہے، توقع ہے کہ اکثریتی ججز اپنی غلطیوں پر غور کر کے ان کی تصحیح کریں گے، پاکستان کا آئین تحریری ہے اور آسان زبان میں ہے، امید ہے کہ ججز اس بات کو یقینی بنائیں گے کہ پاکستان کا نظام آئین کے تحت چلے۔

چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے لکھا ہے کہ بدقسمتی سے اکثریتی مختصر فیصلے کے خلاف نظرِثانی درخواستوں پر سماعت نہیں ہو سکی، پریکٹس اینڈ پروسیجر کمیٹی میں جسٹس منصور علی اور جسٹس منیب اختر میری رائے کے خلاف گئے اور نظرِثانی مقرر نہ کرنے کا مؤقف اپنایا، مخصوص نشستوں کے فیصلے کے خلاف نظرِثانی درخواست تعطیلات کے بعد مقرر کرنے کا کہا گیا۔

چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے اختلافی نوٹ میں لکھا گیا ہے کہ 13 ججز کے مختصر فیصلے میں الیکشن کمیشن آف پاکستان اور پاکستان تحریکِ انصاف کو اس بات کی اجازت دی گئی کہ وہ فیصلے کی وضاحت کیلئے اکثریتی ججز کے سامنے درخواست دائر کر سکتے ہیں، یہ ایک انوکھا طریقہ کار وضع کیا گیا جس کی عدالتی تاریخ میں کوئی مثال نہیں ملتی، وضاحت کے معاملے پر 8 ججز نے خود کو 13 رکنی فل کورٹ سے جدا کر لیا۔

سپریم کورٹ آف پاکستان کے چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے لکھا ہے کہ 8 ججز نے یہ فیصلہ کیا کہ الیکشن کمیشن اور پی ٹی آئی کی درخواستیں وہ صرف اپنے چیمبرز میں بیٹھ کر سنیں گے، اس طرح سے انہوں نے خود سے ایک نیا قانون اختراع کیا کیونکہ اس عمل کی نہ تو آئین اجازت دیتا ہے اور نہ ہی قانون میں ایسا کوئی تصور ہے، ان آٹھ ججز کا 12 جولائی والا مختصر اور 23 ستمبر والا تفصیلی فیصلہ غلطیوں سے بھرپور ہے جبکہ ان اکثریتی ججز کی 14 ستمبر اور 18 اکتوبر کی وضاحتوں میں بھی آئینی غلطیاں ہیں۔

عدالتِ عظمٰی کے منصفِ اعظم نے اپنے اختلافی نوٹ میں لکھا ہے کہ 8 ججز نے 13 ججز سے الگ اپنی ورچوئل عدالت قائم کی اور مخصوص نشستوں کے کیس میں اپیلوں کا حتمی فیصلہ ہوا ہی نہیں، نہ صرف یہ کہ قانون کے خلاف درخواستیں دائر کرنے کی اجازت دی بلکہ آئین کو ہی بدل دیا، مخصوص نشستوں کے کیس میں اپیلز کا حتمی فیصلہ ہوا ہی نہیں اور اکثریتی ججز نے وضاحتی درخواستوں کی گنجائش باقی رکھی، چونکہ کیس کا حتمی فیصلہ ہی نہیں ہوا اس پر عملدرآمد بائنڈنگ نہیں، فیصلے پر عملدرآمد نہ ہونے پر توہینِ عدالت کی کارروائی بھی نہیں ہو سکتی۔

چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے لکھا ہے کہ آئینِ پاکستان کی دفعات بہت واضح اور غیر مبہم ہیں لہٰذا بہتر یہی ہے کہ آئین میں وہ مطالب و معانی تلاش نہ کیے جائیں جو اس میں موجود ہی نہیں ہیں، اکثریتی ججز نے اپنے وضاحتی فیصلے میں پاکستان تحریکِ انصاف کی ایک درخواست کا ذکر کیا ہے جس پر نہ تو پی ٹی آئی اور نہ ہی اس کے چیئرمین گوہر خان کے دستخط ہیں۔

خبریں

The latest stories from The Thursday Times, straight to your inbox.

Thursday PULSE™

More from The Thursday Times

error: