پاکستان آج ایک ایسے نازک موڑ پر کھڑا ہے جہاں ریاست کے سامنے دو مختلف مگر یکساں خطرناک چیلنجز موجود ہیں۔ ایک جانب مذہب کے نام پر سیاست اور طاقت حاصل کرنے والی تحریک لبیک پاکستان (ٹی ایل پی) اور دوسری جانب بندوق کے زور پر ریاستی رٹ کو چیلنج کرنے والی تحریک طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی)۔ دونوں کے طریقے مختلف ہیں مگر انجام ایک ہی ہے، پاکستان کی سلامتی کو نقصان پہنچانا۔
ٹی ایل پی نے اپنے قیام کے آغاز میں مذہبی نعروں کے ذریعے عوامی حمایت حاصل کی۔ مگر وقت گزرنے کے ساتھ یہ جماعت مذہبی غیرت کے جذبے سے زیادہ سیاسی طاقت کے حصول کا ذریعہ بن گئی۔ اسلام آباد کی جانب مارچ، لبیک کے نعرے، سڑکوں کی بندش اور پولیس اہلکاروں پر تشدد وہ مناظر ہیں جنہوں نے عوامی ہمدردی کو شک میں بدل دیا ہے۔ دلچسپ اور افسوسناک بات یہ ہے کہ یہی جماعت بھارت میں “آئی لو محمدؐ” مہم کے دوران مودی حکومت کے مظالم پر مکمل خاموش رہی۔ نہ کوئی مظاہرہ، نہ دھرنا، نہ کسی بیان میں مذمت۔ یہ دوہرا معیار واضح کرتا ہے کہ اس تحریک کے احتجاج کا مقصد امت مسلمہ کا دفاع نہیں بلکہ ملکی سیاست میں اثر و رسوخ بڑھانا ہے۔
دوسری طرف ٹی ٹی پی نے ایک بار پھر سر اٹھا لیا ہے۔ خیبر پختونخوا، ڈی آئی خان اور اورکزئی جیسے علاقوں میں حالیہ حملے اس بات کا ثبوت ہیں کہ دہشت گردی کا خطرہ دوبارہ سر اٹھا رہا ہے۔ گزشتہ ہفتے اورکزئی کے آپریشن میں پاک فوج کے جوانوں نے اپنی جانیں قربان کیں اور ریاست نے جوابی کارروائی میں درجنوں شدت پسندوں کو ہلاک کیا۔ مگر یہ ایک وقتی کامیابی ہے، اگر ریاست نے جامع اور مستقل حکمت عملی اختیار نہ کی تو یہی خطرہ دوبارہ ابھر سکتا ہے۔ ٹی ٹی پی کا مقصد واضح ہے، ریاست کو کمزور کرنا، عوام میں خوف پھیلانا اور پاکستان کی سلامتی کو مجروح کرنا۔
گزشتہ شب پاکستان اور افغانستان کی سرحد پر ہونے والی کارروائی میں پاک فوج نے انتہائی پیشہ ورانہ مہارت اور بھرپور عزم کے ساتھ دشمن کے اہداف کو نشانہ بنایا۔ یہ آپریشن ان دہشت گرد عناصر کے خلاف تھا جو افغان سرزمین کو پاکستان میں حملوں کے لیے استعمال کر رہے تھے۔ پاک فوج نے خفیہ اطلاعات کی بنیاد پر فتنہ الخوارج کے متعدد ٹھکانوں کو نشانہ بنایا اور انہیں مکمل طور پر تباہ کر دیا۔ کارروائی کے دوران افغانستان کے اندر موجود کئی عسکری ٹھکانے، اسلحہ کے ذخیرے اور مواصلاتی مراکز بھی تباہ کیے گئے۔
پاکستانی افواج نے سرحدی علاقوں میں بھرپور کنٹرول قائم کرتے ہوئے دشمن کی کسی بھی جوابی کارروائی کو مؤثر طریقے سے ناکام بنایا۔ یہ آپریشن پاکستان کے اس غیر متزلزل عزم کا اظہار ہے کہ وہ اپنی سرزمین پر دہشت گردی کے خاتمے کے لیے کسی بھی قیمت پر سمجھوتہ نہیں کرے گا۔ پاک فوج نے واضح کر دیا ہے کہ پاکستان کی سالمیت اور امن کے خلاف کسی بھی جارحانہ قدم کا جواب فوری اور فیصلہ کن انداز میں دیا جائے گا۔
ریاست پاکستان کے لیے سب سے بڑا امتحان یہی ہے کہ کیا ایک کے لیے قانون اور دوسرے کے لیے رعایت ہو سکتی ہے؟ اگر ٹی ٹی پی کو دہشت گرد قرار دیا گیا ہے تو ٹی ایل پی کے تشدد اور پولیس پر حملے کس زمرے میں آئیں گے؟ قانون کو مذہبی یا سیاسی بنیاد پر تقسیم نہیں کیا جا سکتا۔ ریاست کے لیے اصول ایک ہونا چاہیے، جو بھی ملک کے آئین اور قانون کے خلاف ہتھیار اٹھائے یا سڑکوں پر فساد پھیلائے وہ ریاست دشمن ہے۔
ریاست کو صرف بندوق سے نہیں بلکہ تعلیم، مکالمے اور فکری اصلاح سے بھی انتہا پسندی کا مقابلہ کرنا ہوگا۔ مدرسوں اور مذہبی اداروں میں برداشت، حب الوطنی اور قانون کی بالادستی کا پیغام شامل کرنا وقت کی ضرورت ہے۔ یہ جنگ گولیوں سے نہیں بلکہ سوچ اور شعور کے ذریعے جیتی جا سکتی ہے۔
پاکستان کی بدقسمتی یہ رہی ہے کہ مختلف حکومتوں نے وقتی مفاد کے لیے ایسے گروہوں کو استعمال کیا۔ جب یہی گروہ مخالف حکومت کے خلاف نکلتے ہیں تو انہیں عوامی طاقت کہا جاتا ہے اور جب وہی حکومت کے خلاف آواز اٹھاتے ہیں تو فتنہ قرار پاتے ہیں۔ یہ دوغلا پن ختم کیے بغیر ریاست مضبوط نہیں ہو سکتی۔ ریاست کو فیصلہ کرنا ہوگا کہ اسے جذباتی سیاست کے نعرے درکار ہیں یا قانون کی حکمرانی کے تحت ایک مضبوط پاکستان۔
اب وقت آ چکا ہے کہ ریاست اپنی ترجیحات واضح کرے۔ جو قوت پاکستان کی سالمیت کے خلاف ہے اس کے ساتھ کوئی رعایت نہیں ہونی چاہیے، خواہ وہ سرحد پار سے حملہ کرے یا دارالحکومت کی سڑکوں پر۔ اگر ٹی ٹی پی کے خلاف آپریشن ہو سکتا ہے تو ٹی ایل پی کی قانون شکنی کے خلاف بھی فیصلہ کن کارروائی ضروری ہے۔ پاکستان کے شہیدوں کا خون ایک ہے، ان کی قربانیوں کی قدر تب ہی ممکن ہے جب ریاست کسی ایک گروہ کو دوسرے پر ترجیح نہ دے۔ اب وقت آ گیا ہے کہ “سب سے پہلے پاکستان” کا نعرہ صرف الفاظ نہیں بلکہ ریاستی پالیسی بن جائے۔