وقت آ گیا ہے کہ عمران خان کی افغان پالیسی کو اسی نام سے پکارا جائے جو اُس کی حقیقت ہے؛ اخلاقی روایات کے لبادہ میں لپٹی تباہ کُن خود پسندی، ایک جذباتی تھیٹر جس میں قربت کو طاقت سمجھ لیا گیا اور پھر پاکستان کو انھی قوتوں کے سامنے برہنہ کر دیا گیا جن کے خلاف وہ خود کو مزاحمت کا علمبردار ظاہر کرتا تھا۔ جو کچھ ہم آج دیکھ رہے ہیں وہ پالیسی میں کوئی معمولی دُرُستی نہیں بلکہ تاخیر کا شکار ایک ریسکیو مشن ہے، یہ طالبان اور اُن کے سائے میں چلنے والے عناصر سے متعلق ایک شخص کی غلط فہمیوں کے ملبہ کے نیچے سے نکلنے کی جدوجہد ہے جبکہ شہباز شریف اور عاصم منیر دونوں نے بیک وقت اِس حقیقت کو سمجھ لیا ہے۔
کابل سے متعلق عمران خان صرف غلط فہمی کا شکار نہیں ہوئے بلکہ انہوں نے اِس کیلئے رومانوی انداز اختیار کر لیا تھا۔ طالبان کی واپسی کو عمران خان نے ایک خیالی بھائی چارے کی تاریخی توثیق کے طور پر دیکھا؛ گویا مشترکہ زبان یہاں جغرافیہ، تاریخ اور پاکستانی شہداء کے خون کے نشانات کو مٹا سکتی ہے۔ اسی گمراہی میں وہ کردار جو مستقل طور پر پسِ دیوار رکھے جانے کے مستحق تھے دوبارہ ریاستی معاملات اور سیاست کا حصہ بنا دیئے گئے بلکہ بعض اوقات انہیں ذاتی طور پر بھی شمولیت کی اجازت دی گئی۔ جو کبھی معمولی سی وقعت رکھتے تھے انہیں اچانک مرکز کی قربت حاصل ہونے لگی۔
صرف تصوریت نہیں بلکہ غیر محتاط رویہ بھی اُس دور کا ناقابلِ معافی جرم ہے؛ سخت گیر قیدیوں کو پاکستانی جیلوں سے رہا کر دیا گیا، وہ افراد جن کے واضح طور پر شدت پسند نیٹ ورکس سے تعلقات تھے انہیں رابطہ کار اور ثالث بنا کر پیش کیا گیا، مفاہمت کے نام پر افغانستان سے ایسے چہرے پاکستان لائے گئے جن کی وفاداری کبھی پاکستانی ریاست کے ساتھ تھی ہی نہیں۔ اسے حکمتِ عملی کی باریک بینی کہا گیا مگر عملی طور پر ایسے اقدامات نے ریاست کے اپنے دفاعی نظام کو کھوکھلا کر کے رکھ دیا۔
آج کا پاکستان انھی غلط فیصلوں کے نتائج بھگت رہا ہے۔ تحریکِ طالبان پاکستان، بلوچ عسکریت پسند سیلز اور اُن سے جڑے تشدد پسند نیٹ ورکس ایک ایسے ماحول میں کام کر رہے ہیں جو جزوی طور پر نرمی اور گنجائش سے ہی پیدا ہوا ہے۔ کوئی بھی سنجیدہ تجزیہ کار یہ دعویٰ نہیں کرتا کہ عمران خان نے خود دہشتگردی کو جنم دیا ہے مگر جو کچھ عمران خان نے کیا اور جس کا اُن کے حامی سامنا کرنے سے کتراتے ہیں وہ یہ ہے کہ عمران خان نے وہ اخلاقی، قانونی اور نفسیاتی رکاوٹیں کمزور کر دیں جو دشمنوں کی واپسی کی راہ میں حائل تھیں۔ عمران خان نے ریاست کے مخالفین کیلئے دخل اندازی کا راستہ آسان بنایا اور ریاست کیلئے ایک منظم و متحد انداز اختیار کرنا مشکل تر کر دیا۔
جب جنازے اٹھنا معمول بن جائے تو پھر نظریاتی وضاحتوں کی اہمیت جاتی رہتی ہے۔ خیبرپختونخوا کا سپاہی ہو یا بلوچستان کا فوجی، کسی مسجد کا نمازی ہو یا بازار میں خریداری کرنے والا کوئی عام شہری، یہ سب کسی مبہم نظریہ سازی کی قیمت ادا نہیں کر رہے بلکہ اُن فیصلوں کے نتائج بھگت رہے ہیں جن میں فیصلہ سازوں کو یقین تھا کہ پاکستان اُن عناصر کو سنبھال لے گا جنہوں نے کبھی سیاست میں مکمل طور پر تشدد کو ترک نہیں کیا۔ ایسے فیصلوں کو موجودہ حالات کا ذمہ دار نہ سمجھنا سانس لینے والوں سے بھی ناانصافی ہے اور مر جانے والوں کی بھی توہین ہے۔
اِس تناظر میں آج اختیار کیا گیا ریاستی رویہ ہر گز طاقت کی ہوس نہیں ہے بلکہ یہ ادارہ جاتی پالیسی میں ایک سنجیدہ تبدیلی ہے۔ فیلڈ مارشل عاصم منیر کی قیادت میں ہماری افغان پالیسی کو شخصی تھیٹر سے نکال کر اُس کیلئے قواعد و ضوابط کے تحت حدود کا تعین کیا گیا ہے۔ وہ افغان شہری جنہوں نے پاکستانی قوانین کی خلاف ورزی کی اُن کے خلاف قانونی کارروائیاں کی جا رہی ہیں اور انہیں واپس اُن کے وطن بھیجا جا رہا ہے۔ افغان مہاجرین کو کسی علامت کے طور پر بلند نہیں کیا جا رہا نہ انہیں فوٹو سیشن کیلئے استعمال کیا جا رہا ہے بلکہ ایک قانونی مسئلہ سمجھ کر اسی کے مطابق عمل کیا جا رہا ہے۔ طریقہ کار اور حفاظتی اقدامات کے حوالہ سے اختلاف ہو سکتا ہے مگر بنیادی طور پر ریاستی مؤقف غلط ہے نہ بدنیتی پر مبنی ہے۔ یہ سرحدوں کی وہ زبان ہے جس کی جانب بالآخر ریاست کو پلٹنا ہی پڑتا ہے۔
قابلِ پیش گوئی بات ہے کہ جو لوگ کبھی علامتی اشاروں پر تالیاں بجاتے تھے وہ اب ملک بدری کو ظلم قرار دے رہے ہیں۔ سیاسی طیش میں اِس حقیقت کو فراموش کر دیا جاتا ہے کہ پاکستان نے جنگی حالات میں بھاگنے والے افغانوں کی کئی دہائیوں تک میزبانی کی۔ یہ حقیقت سمجھنے کی ضرورت ہے کہ مہمان نوازی کے تاریخی ریکارڈ میں کوئی تبدیلی نہیں آئی بلکہ استحصال پر کیے جانے والے صبر کا پیمانہ لبریز ہو چکا ہے۔ وہ ریاست جو نہتے کمزوروں اور مسلح عناصر میں فرق سے انکار کر دے یا پھر پناہ مانگنے والوں اور پناہ کو ڈھال بنا لینے والوں کو ایک ہی صف میں کھڑا کر دے، درحقیقت وہ مہربان نہیں بلکہ اپنی بقاء کے معاملہ میں لاپرواہ اور عاقبت نااندیش ہے۔
پاکستان اب اپنا مؤقف ببانگِ دہل بیان کر رہا ہے۔ دوحہ، انقرہ اور دیگر علاقائی فورمز پر حکام اب زیادہ کھل کر دہشتگردی کے نیٹ ورکس، اُن کی محفوظ پناہ گاہوں اور نرمی اختیار کرنے کے علاقائی نتائج پر بات کر رہے ہیں۔ یہ محض ایک تشہیری مہم نہیں بلکہ بین الاقوامی سطح پر بیانیوں کو ملکی حالات کی حقیقت کے ساتھ جوڑنے کی کوشش ہے۔ جہاں کہیں بھی شدت پسند ڈھانچہ برداشت کیا جائے وہ مقامی طور پر بھی مسائل کی وجہ بنتا ہے اور خود کو وسعت بھی دیتا ہے۔
موجودہ دور اور عمران خان دور میں اصل فرق اصولی مؤقف کا ہے؛ اُس وقت ریاست کے ساتھ کیا گیا کھلواڑ شاید اِس خیال پر مبنی تھا کہ خوشامد، قربت اور بیانیہ میں تبدیلی کے ذریعہ سخت گیر کرداروں کو ذمہ دار شراکت دار بنایا جا سکے گا لیکن اب کم از کم یہ بات تو تسلیم کی جا چکی ہے کہ کچھ گروہ ہمارے ناراض رشتہ دار نہیں ہیں بلکہ دانستہ طور پر تخریب کار ہیں اور اُن کیلئے لامتناہی گنجائش کسی قسم کی کوئی نیکی نہیں بلکہ جرم میں شراکت کے مترادف ہے جبکہ اِس حقیقت کو مان لینا سنگ دلی نہیں بلکہ کسی بھی ٹھوس اور مؤثر سیکیورٹی پالیسی کا نقطہِ آغاز ہے۔
اِن تمام باتوں کے باوجود موجودہ سیٹ اپ احتساب سے بری نہیں ہو سکتا کیونکہ یہ لکیریں عملی طور پر دھندلی بھی پڑ سکتی ہیں، سخت اقدامات کی لپیٹ میں بےگناہ بھی آ سکتے ہیں اور ملک بدری کے نظام کا غلط استعمال بھی ممکن ہے۔ بلاشبہ یہ خطرات موجود ہیں اور اِن کو مدِنظر رکھتے ہوئے آزاد نگرانی درکار ہے تاہم اِس کے باوجود حالیہ تاریخ کے فیصلہ کو از سرِ نو تحریر نہیں کیا جا سکتا۔ جہاں دباؤ، وضاحت اور فاصلے کی ضرورت تھی وہاں عمران خان نے پاکستان کے سکیورٹی ڈھانچہ کو کرشمہ اور جذبات کے رحم و کرم پر چھوڑ دیا۔ اب موجودہ حکومت اور عسکری قیادت کا انداز رومانوی نہیں بلکہ اصلاحی ہے۔
برسوں بعد پہلی بار سویلین اور عسکری طاقت کے مراکز ایک سنجیدہ نکتے پر متفق نظر آتے ہیں کہ افغان پالیسی خودنمائی کے سٹیج کے طور پر چل سکتی ہے نہ ٹاک شو کے سکرپٹ کے طور پر بلکہ اسے صاف گوئی کے ساتھ قومی مفاد کیلئے مرتب کرنا ہو گا جس کی اجازت ماضی کی مقبولیت پسند مہمات نے نہیں دی۔ پاکستان کو کابل سمیت خطہ کے ساتھ ایسے ٹھوس مؤقف پر مبنی بات کرنا ہو گی جو پاکستانی جانیں بچانے پر معذرت خواہانہ انداز اختیار کرے نہ اِس فرض کو تماشہ بنائے۔
پاکستان کیلئے آخرکار اِس حقیقت کو زبان پر لانا ہر گز باعثِ ندامت نہیں ہے کیونکہ ایک خودمختار ریاست کو صرف یہ حق ہی حاصل نہیں بلکہ اُس کی ذمہ داری بھی ہے کہ اپنے دروازے اُن عناصر کیلئے بند رکھے جو ریاست کی مشکلات اور نرم رویہ کو اپنا ہتھیار بنا لیتے ہیں۔ مسئلہ یہ نہیں کہ آج سخت لکیریں کھینچی جا رہی ہیں بلکہ افسوس یہ ہے کہ کبھی اِن لکیروں کو اُس سراب کیلئے مٹا دیا گیا تھا جو پاکستان کو ایک آسان اوزار سے زیادہ کچھ سمجھنے کو تیار ہی نہ تھا جبکہ پاکستان آج انھی غلطیوں کا خمیازہ بھگت رہا ہے۔ ہمیں کم از کم اتنا تو یاد رکھنا چاہیے کہ اُن غلطیوں کو دانش مندی قرار دینے پر کون بضد تھا۔




