گاؤں کے بیچوں بیچ ایک کنواں تھا جس کو ’’انصاف کا کنواں‘‘ کہا جاتا تھا، کتابوں میں لکھا تھا کہ اِس کا پانی مقدس ہے، بزرگ کہتے تھے پانی برکت والا ہے جبکہ پنچایت نے بھی حکم دے رکھا تھا کہ اِس کے بارے میں سوال اٹھانا تہذیب، تربیت اور تاریخی روایات کے خلاف ہے۔
کنویں کا پانی پینے سے گاؤں والے مستقل طور پر کھانسی کے مریض رہنے لگے، بچوں کے چہرے زرد پڑنے لگے تھے، پیٹ کی بیماریاں بڑھتی جا رہی تھیں، مگر ہر بار سوال کرنے پر ایک ہی جواب ملتا کہ ’’یہ تمہاری کمزوری ہے، کنویں کا قصور نہیں‘‘
اچانک ایک دن کسی اللّٰہ والے نے، جو حافظِ قرآن تھے، تاریخی روایات سے بغاوت کر دی اور ڈول لٹکانے سے پہلے کنویں میں جھانک لیا، بس نگاہ ڈالنے کی دیر تھی کہ حافظ صاحب حیرت کے مارے چیخ اٹھے
’’پانی کے اندر تو تین بڑی بڑی اُود بِلاو تیر رہی ہیں‘‘
پنچایت کے بزرگ پہلے تو غصہ سے لال پیلے ہوئے، پھر بولے؛ ’’یہ اداروں پر حملہ ہے، ڈھنگ سے بات کرو‘‘
مگر پھر حافظ صاحب کی بات پر تحقیق کی غرض سے چند اور سَر پِھروں نے بھی کنویں میں جھانکا تو واقعی تیں بھاری بھرکم اجسام پانی میں تیرتے ہوئے نظر آئے، جیسے برسوں سے یہی اُن کا مسکن ہو۔
گاؤں میں کھلبلی مچ گئی، اہم ملاقاتیں اور خفیہ انداز میں طرح طرح کی باتیں ہونے لگیں۔ بالآخر فیصلہ ہوا کہ تینوں اُود بِلاو کو رسّی کے ذریعہ باعزت طریقہ سے باہر نکال لیا جائے اور انہیں یہ اعلان کرنے کا موقع فراہم کیا جائے کہ ہم اصولی اختلافات کی وجہ سے جا رہے ہیں
مگر تینوں اُود بِلاو نے نکلنے سے انکار کر دیا۔
پھر گاؤں کے لوگوں نے پہلی بار رجسٹر کھولا، معلوم ہوا کہ کنویں کی چابی تو برسوں سے انھی تین اُود بِلاو اور اِن کے قریبی ساتھیوں کے پاس تھی۔ کس بستی کو کتنا پانی ملے گا اور کہاں تک صفائی کا قصہ پہنچے گا، کس کے حصہ میں گدلا پانی آئے گا اور کس کو صاف پانی کا راستہ دکھایا جائے گا، سب کچھ انھی کی منڈیر پر طے ہوتا تھا۔
ایک اور راز سے بھی پردہ چاک ہوا جو کہ سب سے زیادہ دلچسپ تھا؛ جب کنویں کی دیواروں پر جمی میل کو کھرچنا شروع کیا گیا تو کئی جگہ پنجوں کے نشانات ملے جو صاف بتا رہے تھے کہ کچھ معزز اُود بِلاو کناروں پر بیٹھ کر اپنے حصہ کا ’’فضلہ‘‘ کنویں میں پھینکتی رہی تھیں۔
اب گاؤں میں یہ حقیقت تسلیم کرنے والوں کی تعداد بڑھنے لگی کہ تینوں اُود بِلاو صرف خود ہی نہیں تیرتی تھیں بلکہ دوسروں کو بھی تیرنا سکھاتی تھیں جبکہ تینوں گندگی کے نظام کا حصہ بھی تھیں، شاید رسمی طور پر یا شاید دِلی لگاؤ کے ساتھ۔
پھر حافظ صاحب نے پانی میں ایک خاص قسم کا چھڑکاؤ کیا
چھڑکاؤ ہونے کی دیر تھی کہ شہر سے خبر آئی؛ بڑی عمارت میں بیٹھے دو بڑے منصب دار ’’اصولوں‘‘ کے نام پر اپنی کرسیاں خالی کر رہے ہیں جبکہ تیسرا منصب دار خاموشی کے ساتھ کسی کونے میں بیٹھ گیا ہے۔
کنویں کے پاس بیٹھے اللّٰہ والے حافظ صاحب نے مسکراتے ہوئے کہا؛ چلو اچھا ہے، صفائی کا عمل شروع تو ہوا
لیکن پانی کے اندر ایک کونے میں بیٹھ جانے والی تیسری خاموش اُود بِلاو اور کئی سالوں تک منڈیر پر بیٹھ کر پانی کو گدلا کرنے والی اُود بِلاو کا رجسٹر بھی کسی روز کھلے گا یا پھر اُن کی خدمت میں خوشبو کے گلدستے ہی رکھے جائیں گے؟
شہر میں گہری روشنائی سے دو دستخط تاریخ کے اوراق میں درج کر دیئے گئے
اور گاؤں میں کنویں کے پاس ایک نیا بورڈ لگا دیا گیا؛
اطلاعِ عام
دو وزنی وجود کی حامل اُود بِلاو نکل گئی ہیں، تیسری تیرنا چھوڑ کر ایک کونے میں خاموشی سے بیٹھ گئی ہے، پانی کسی حد تک صاف ہوا ہے مگر کنواں ابھی مکمل طور پر پاک نہیں ہوا۔
دیواروں پر پنجوں کے کئی نشانات ابھی موجود ہیں، چند اور چہرے بھی نکلیں گے۔
لیکن مکمل صفائی تبھی ہو گی
جب اُن پنجے مارنے والوں کا بھی حساب ہو گا جو برسوں تک کنویں کی دیواروں سے چمٹے رہے ہیں۔
کنواں گاؤں والوں کا ہے
منڈیر والوں کا نہیں








