spot_img

رائے: ازعرش نازک تر

spot_img

حرم نبوی ﷺ میں جو دل خراش واقعہ پیش آیا اس نے ماسوائے ان لوگوں کے جنھوں نے اس  کے لئے تانے بانے بنے ہر صاحبِ دل کو رنجیدہ کر دیا۔میں ان لوگوں پر تبصرہ کرنا نہیں چاہتا بہت سے لوگ اپنے اپنے انداز میں اس  سانحے کی مذمت کے ساتھ ساتھ سانحہ گروںکا بھی خوب محاسبہ کر رہے ہیں۔ میں چاہتا ہوں کہ جس بارگا اقدس میں بد تمیزی اور بد تہذیبی کا مظاہرہ کیا گیا اس کی عظمت پر اپنے محدود علم وعقل کے مطابق کچھ روشنی ڈالوں، شاید جو لوگ اسے بہت معمولی سمجھ رہیں ان پر کچھ اثر ہوجائے، ہوسکتا ہے کچھ لوگ واقعی میں اس قبیح حرکت کی سنگینی سے کماحقہ آگاہ نہ ہوں۔لیکن  وہ لوگ زیادہ قابل مذمت ہیں جو اس قابل نفریں واقع کو محض عوامی ردعمل قرار دے کر اس واقعے کی سنگینی کو نظر انداز کروانا چاہتے ہیں۔اس بات میں کسی شک وشبہے کی کوئی گنجائش نہیں کہ یہ واقعہ منصوبہ بندی سے سٹیج کیا گیا ،متعدد تصاویر اور وڈیوز اس امر کے ناقابل تردید ثبوت فراہم کرتی ہیں۔

صحیح مسلم کی حدیث کے مطابق جبل عیر اور ثورکے درمان کا سارا علاقہ حرم مدینہ ہے۔ تصاویر اور وڈیوز میں صاف نظر آرہا ہے کہ یہ قبیح حرکت مسجد نبوی ﷺ کے احاطے میں کی گئی ہے۔ سعودی حکومت نے حرم مدینہ حرم نبوی ﷺکی نشان دہی کے لئے 161 برجیاں نصب کر رکھی ہیں جس سےحرم مدینہ کی پہچان کوئی مشکل نہیں۔حرم مکہ اور حرم مدینہ دو نوں حرم ہیں اسی حوالے سے سعودی حکمران خود کو خادم الحرمین کہلاتے ہیں یعنی دو حرم کے خادم (حرمین تثنیہ ہے جو واحد کے بعد دو چیزوں کو ظاہر کرتا ہے اس میں میم پر زبر ہے جب دو سے زائد ہوں تومیم کے نیچے زیر ہوگی اور معنی ہوں گے دو سے زیادہ حرم) اور حرم محمدی ﷺ کے احترام تقدس اور عظمت کے بارے میں امت مسلمہ کے اکابر کے کیا خیالات ہیں کسی تفصیل اور توضیح کے محتاج نہیں۔ علامہ اقبال جدید علوم، سائنس تاریخ اور فلسفہ پر گہری نظر رکھتے تھے شاعری میں ان کا مقام یہ ہے کہ اہل ایران بر صغیر کے کسی شاعر کی فارسی شاعری کو در خور اعتنا نہیں سمجھتے لیکن اقبال لاہوری اہل ایران کے نزدیک مسلمہ فارسی شاعر ہیں۔ شاعری پر ان کی گرفت اور دسترس کو ان کے استاد داغ دہلوی نے بھی تسلیم کیا۔ لیکن کیا عجیب بات ہے کہ ارمغان حجاز کی ابتدا میں انھوں نے عزت بخاری کے شعر کو آغاز کتاب کا درجہ دیا ہے۔ گویا علامہ اقبال نے اعتراف کیا ہے کہ اس شعر کا مضموں اور شعری مرتبہ بہت بلند وبالا ہے۔

ادب گاہ ایست زیر آسماں از عرش نازک تر

نفس گم کردہ می آید جنید و بایزید ایں جا

آسمان کے نیچے (آسمان کے اوپر ہوسکتی ہیں) ایک ایسا مقامِ ادب ہے جو عرش سے بھی نازک ہے اور اس ادب گاہ میں حاضری کے وقت سیدالطائفہ حضرت جنیدٍٍ بغدادی رحمہ اللہ اوربایزید بسطامی جیسے اولیاء کرام دم سادھ کر آتے ہیں۔اگرچہ علامہ اقبال نے خود بھی شان رسولﷺ میں ایسے ایسے اشعار کہے ہیں جوعاشقان نبی ﷺ کے دلوں میں عقیدت و محبت کے پھول کھلاتے رہیں گے۔واعظین کرام حضرت علامہ اقبال کے اشعار کو محراب وممبر پر سناتے  ہیں حاضرین کے دلوں کو گرماتے اور اپنےخطبات کو چار چاند لگاتے ہیں۔ علامہ  شکوہ میں باری تعالیٰ سے تو یہاں تک کہہ دے دیتے ہیں کہ

کبھی ہم سے کبھی غیروں سے شناسائی ہے

بات کہنے کی نہیں تو بھی تو ہرجائی  ہے

لیکن جب ذکر مصطفیٰ ﷺ ہو تو،۔

بمصطفی ٰبرساں خویش راکہ دیں ہمہ اوست (ﷺ)

اگر با اُو نرسیدی تما م بولہبی است

اکابر امت میں ایک شعر بہت معروف  ہےجسے لوگ علامہ اقبال، حافظ شیرازی اور بعض غالب سے منسوب کرتے ہیں لیکن  تحقیق سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ ہمام الدین علاء تبریزی کا شعر ہے، ذات نبی ﷺ کا نام زبان پر لانےکے لئے گویا ایک معیار مقرر کر دیا ہے۔

ہزار بشوئم دہن ز عطر و گلاب

ہنوز نامِ تو گفتن ہزار بے ادبیست

ہزار بار عطر وگلاب سے منہ دھو لینے کے باوجود آپ ﷺ کا نام لینا انتہائی درجے کی بے ادبی ہے۔ اسی نوعیت کا ایک مصرعہ بہت مشہور ہے ”با خدا دیوانہ باش وبا محمد ﷺ ہوشیار۔“ اردو فاسی عربی جاننے والوں کے نزدیک حضرت سعدی شیرازی کی رباعی مختصر اور جامع نعت ہے۔

بلغ العلے بکما لہ

کشف الدجے بجمالہ

حسنت جمیع خصالہ

صلو علیہ و آلہ

اپنے کمال سے بلندیاں پالیں اور اپنے حسن (سیرت وصورت) سے تاریکیوں کو  بھگا دیا، آپ ﷺ کی تمام عادات  بہترین ہیں، آپ ﷺ اورآل پر رحمت ہو۔ اس کے علاوہ حسان بن ثابت کے نعتیہ اشعار عرب شعراء کے قصائدامام شرف الدین بوصیری کا قصیدہ بردہ اور دیگر کئی قصائد محبت و عقیدت سے معطر ہیں۔گویا نبیءِ رحمت سے عقیدت اور والہانہ محبت کا سلسلہ اردو فارسی تک محدود نہیں عربی میں بھی خیرالبشر کی مدح وثنا کے دفتر بھرے پڑے ہیں۔کسی بھی ایک زبان کے تمام ثنا خوانوں کا احاطہ کرنا ناممکن ہے۔مشتے نمونہ از خروارے جن کا سطور بالا میں ذکر کیا ہے معروف ترین لوگ تھے اور ان کے عہد میں یا بعد میں کسی نے ان پر حرف گیری نہیں کی اور یہ دلیل ہے  اس بات کی کہ انھوں نے جو کہا اس پر امت کا اجماع رہا ہے۔

لیکن یہ شاعر تھے تو انسان کیوں نہ خالق کائنات سے رجوع کیا جائے اللہ عز وجل کیا فرماتے ہیں کیوں کہ غالب جیسے نادر روزگار کا کہنا ہے۔

غالب ثنائے خواجہ ﷺ بیزداں گذاشتیم

کآں ذات پاک مرتبہ دانِ محمد ﷺ است

غالب میں نے خواجہ ء کائنات کی تعریف کا مشکل کام اللہ تبارک وتعالی ٰپہ چھوڑ دیا کیوں کہ وہی ذات علا خالق و مالک  ہی محمد ﷺ کے مرتبے کو جاننے والی ہے۔تو آئیے دیکھتے ہیں قران عظیم کیا بتا تا ہے۔ اللہ  تعالیٰ نے فرمایا ، ورفعنا لک ذکرک، میں نے آپ ﷺ کے لئے آپ کا ذکر بلند کر دیا۔ آپ ﷺ کے لئے میں اشارہ ہے آپ کی مرضی کے موافق، اور جس چیز کو اللہ سبحانہ وتعالیٰ بلند فرمادے اس کی بلندی کا کوئی اندازہ ہو سکتا ہے؟ حضرت موسیٰ اللہ تعالیٰ سے عرض کرتے ہیں،  رب الشرح لی صدری۔ یا رب میرا سینہ کھول دے۔ لیکن ختمی مرتبت سے خود اللہ تعالیٰ فرما رہا ہے، کیا میں نے آپ ﷺ کا سینہ کھول نہیں دیا۔ اس سوالیہ انداز میں اثبات کی رنگ آمیزی کرکے ایک انداز محبت کا اظہار سمودیا۔گویا جو موسیٰ نے مانگا آپ ﷺ کوعطا فرما دیا۔

موسیٰ علیہ السلام نے عصا پھینکا تو وہ اژدہا بن گیا  موسیٰ علیہ السلام ڈر گئے۔ اللہ تعالیٰ نے فرما یا ”لا تخف“ ڈر نہیں۔ لیکن جب غار حرا میں نبی کے یار ِ غارحرا کو نبی کریم ﷺ کی فکر لاحق  ہوئی تو اللہ نے ان الفاظ میں تسلی دی ”لا تحزن“ غم نہ کر موسیٰ علیہ السلام کا ڈر تھا نبی کریم ﷺ کے ساتھی کو خوف یا ڈر نہیں تھا غم تھا، دونوں میں بڑا فرق ہے اور اللہ تبارک وتعالیٰ کے الفاظ تسلی میں بڑا فرق ہے۔

سورۃ توبہ کی آخری آیات تو نبی کی نعت ہے جس میں اللہ تعالیٰ احسان جتا رہے ہیں کہ تمہاری طرف اپنارسول ﷺ بھیجا۔ انہی آیات میں اللہ تعالیٰ نے نبی کریم ﷺ کو امت کے لئے رؤف اور رحیم قرار دیا،  بے شک رؤف اور رحیم اللہ تعالی ٰ کی اپنی صفات ہیں۔قران کریم میں جہاں جہاںانبیاء کا ذکر آیا ہے انھیں ان کے ناموں سے پکارا گیا ہے۔ یا آدم یا ابراہیم یا موسیٰ  لیکن خاتم الانبیاء ﷺ کو یا ایھا الرسول یا یھاا لنبی ﷺ کہہ کر پکارا گیا۔ یہی نہیں امت سے بھی کہہ دیا  گیا نبی ﷺ کے دروازے پر جاکر اس طرح آوازیں نہ دو جس تم ایک دوسرے کو بلاتے ہو، اگر اس بلانے میں کوئی خرابی ہوتی تو اس سے یکسر منع کردیا جاتا گویا یہ عربوں کا معمول تھا وہ یا عباس یا زید یا حارث کہہ کر آوازین دیا کرتے تھے لیکن اللہ کو  حضور ختمی مرتبت کے لئے ”یا محمد“ کہہ کر بلانا گوارا نہیں تھا اور اس سے منع کردیا۔ رسولاللہ ﷺ نے خود کبھی نہیں کہا کہ ان کے سامنے آہستہ بات کی جائے اگر کہہ دیتے تو کوئی سوچ سکتا ہے کہ نبی کریم ﷺ کے پسینے پر خون بہانے والے صحابہ اس پر عمل نہ کرتے؟لیکن اللہ تعالیٰ نے آیت اتاری اور فرما دیا ، اپنی آوازیں نبی کی آواز سے اونچی نہ کرو ایسا نہ ہو کہ اس عمل کی وجہ سے تمھارے اعمال ملیامیٹ کر دیئے جائیں اور تمھیں پتہ تک نہ چلے (کہ یہ تمھارے ساتھ کیا ہو گیا ہے)۔ اب دیکھیں جنھیں یہ حکم دیا جا رہا ہے ان میں کون کون ہے کسی کو استثنا نہیں دیا گیا۔ جن اعمال کو ملیا میٹ کردینے کی بات ہو رہی ہے ان میں نبی ﷺ کی معیت میں جہاد بھی ہے، قران کی تعلیم بھی حضور ﷺ کی اقتدا میں پڑھی گئی نمازیں   بھی نبی  ﷺ کے ساتھ قیام اللیل اور روزے، فرائض اور نوافل ادا کرنے والے اعمال جن کا ایک ذرہ اگر ہمیں مل جائے تو ہمیں اپنی بخشش کا یقین ہوجائے۔ لیکن بتا دیا گیا کہ ان تمام اومال کو صرف آپ ﷺ کی پر بلند کرنے کی وجہ سے ملیا میٹ کر دیا جائے گا۔ ایک بات یاد رہے کہ کسی جرم کی سزا جرم کی سنگینی کے مطابق ہوتی ہے۔ یہی آیت حضور ﷺ کے روضہ مبارک پر بھی لکھی ہے اور اس پر اجماع ہے کہ اس کا اطلاق اب بھی اسی طرح ہوتا ہے جیسا نبی کریم ﷺ کی حیات مبارکہ میں ہوتا تھا۔  قران دائمی ہے تو یہ حکم بھی دائمی ہے ورنہ قران کہہ دیتا نبی ﷺ کی زندگی میں آوازیں بلند نہ کرو۔

ایک سوال ۔۔۔۔؟جو بائیڈن پوپ سے ملنے ویٹی کن سٹی جائے تو کیا ٹرمپ کے حامی ویٹی کن میں بائیڈن کے خلاف نعرے لگائیں گے حالانکہ امریکا میں وہ کوئی ایسا موقع جانے نہیں دیتے۔اور وہ ٹرمپ کی محبت میں دارلحکومت پر چڑھ دوڑے تھے لیکن اب تک ان کے خلاف تفتیش جاری ہے جبکہ درجنو ں کو جیل کی سزائیں ہوچکی ہیں کسی نے یہ عذر نہیں تراشا کہ یہ تو ٹرمپ کی ہار پر جذباتی اور بائیڈن کو الیکشن چرانے کے خلاف عوام کا فطری ردعمل تھا۔

LEAVE A COMMENT

Please enter your comment!
Please enter your name here
This site is protected by reCAPTCHA and the Google Privacy Policy and Terms of Service apply.

The reCAPTCHA verification period has expired. Please reload the page.

spot_img

خبریں

The latest stories from The Thursday Times, straight to your inbox.

Thursday PULSE™

More from The Thursday Times

error: