یوں تو ہر دن ہی پاکستان میں سیاسی موسم گرم رہتا ہے مگر 16 اکتوبر کے دن 8 حلقوں میں ہونے والے ضمنی انتخابات نے اس موسم کو مزید گرم کردیا ، جسکی وجہ اپریل میں عدم اعتماد کی قرارداد سے برطرف کی جانے والی تحریک انصاف کی حکومت کے چئیرمین عمران خان جو اس وقت بقول سیاسی تجزیہ کاروں و تھنک ٹینک کہ “سازشی” بیانئے کی بدولت اپنی مقبولیت پر پہنچ چکے ہیں کا قومی اسمبلی کے تمام حلقوں ماسوائے “ملتان” کے حلقے سے خود الیکشن لڑانا بنا۔
شہرت کی بلندیوں پر موجود عمران خان جو ہمیشہ اپنی جارحانہ پالیسز سے حکومت کو ناک آوٹ کرتے رہے 2018 میں اپنی ہی جیتی ہوئی 8 سیٹوں میں سے 2 سیٹوں کو جیتنےمیں ناکام رہے، یہ دونوں ہی سیٹیں۔
ایک ہی جماعت پاکستان پیپلزپارٹی کے امیدواروں نے بڑے مارجن سے باآسانی جیت کر عمران خان کی مقبولیت اور تحریک انصاف کے مستقبل پر سوالیہ نشان کھڑا کردیا ہے۔
دونوں حلقوں کی ہار عمران خان کے بیانئیے کے ناکام ہونے کی پیشگوئی ہے، جہاں کراچی ملیر کے حلقے میں چئیرمین تحریک انصاف عمران خان کو پیپلزپارٹی کے ایک ورکر عبدالحکیم بلوچ سے مار کھانا پڑی تو ملتان میں وائس چئیرمین تحریک انصاف شاہ محمود قریشی کی صاحبزادی مہر بانو کو پیپلزپارٹی کے ہی امیدوار موسی گیلانی نے چت کردیا۔
ملیر میں ورکر عبدالحکیم کی جیت صرف ایک سیٹ پر کامیابی نہیں بلکہ ایک نظرئیے کی جیت ہے جسکی بنیاد ذولفقار علی بھٹو نے غریب پرور اور عوام دوست روایت سے رکھیں جسکا عَلم دختر مشرق شہید بینظیر بھٹو نے اٹھایا، اس نظرئیے کو زندہ رکھنے کیلیے ضیاالحق کیخلاف مصائب سے بھرپور طویل جدوجہد کی اور اس ہی نظرئیے کی حفاظت کیلیے ڈکٹیر مشرف کے ظلم و بربریت کا مقابلہ کرنے یہ جانتے ہوئے بھی کہ یہ نظام اس نظرییے کے ساتھ ان کی جان کے بھی درپر ہے وہ گھبرائے بنا 18 اکتوبر کو اپنے کارکنان اپنے لوگوں اپنے ملک واپس آگئی، 18 اکتوبر کی تاریک رات اس واقعہ کی گواہ ہے جس نےاس نظرئیے کے دشمنوں کے ارادے عیاں کردئیے مگر یہ نظریہ بینظیر شہید اور عوام کی طاقت بن گیا جسے لاکھ دبانے کی کوشش کے باوجود وہ مزید مضبوط ہوکر ابھرتا اور آج کراچی میں عمران خان کی ہار اس بات کا ثبوت ہے کے بھٹو کا غریب دوست نظریہ پہلے سے زیادہ مضبوط ہوچکا ہے۔
ملتان میں اپنی ہی سیٹ کو ہارنا ناصرف تحریک انصاف اور عمران خان کی مقبولیت بلکہ پنجاب حکومت کی کارکردگی پر سوال ہے تو وہیں شاہ محمود قریشی کے سیاسی کرئیر پر کلنک ثابت ہوگی۔
ملتان کے گیلانی اور قریشی فیملیز کیلیے یہ صرف الیکشن نہیں بلکہ سالوں پرانی چلی آرہی سرد جنگ کا میدان کارزار بھی ہوتا ہے، اہم بات یہ کہ یہ دونوں خاندان ہی ملتان کی مشہور و معروف سیاسی شخصیت و گدی نشین بھی ہیں مگر دونوں خاندانوں کی تاریخ و اقدار ایک دوسرے سے یکسر مختلف ہیں، یوسف رضا گیلانی کے والد عملدار حسین جہاں بانیان پاکستان میں سے تھے تو دوسری طرف شاہ محمود قریشی کے آباواجداد ایسٹ انڈیا کمپنی کے وفادار، گیلانی خاندان نے جہاں قیام پاکستان کیلیے جدوجہد کی تو قریشی نے قیام پاکستان کے خلاف ووٹ کیا۔گیلانیوں کے بارے میں عوامی رائے عوام دوست اور خدمت خلق کا جذبہ رکھنے والوں میں ہے، اور یہی وجوہات پنجاب میں عمران خان کے مضبوط پروپیگنڈے و تحریک انصاف کی حکومتی مشینری کے استعمال کے باوجود موسی گیلانی کی جیت کا راز ہے۔
یہ جیت نظرئیے کی جیت ہے، جمہوری اقدار پر عمل پیرا جمہوری قوتوں کی جیت ہے اور غریب پرور حکمرانوں کی جیت ہے جس نے ناصرف عمران خان و تحریک انصاف کی تیزی سے بڑھتی مقبولیت کو فل اسٹاپ لگا کر ریورس کردیا ہے بلکہ پیپلزپارٹی کی بڑھتی ہوئی مقبولیت کو مزید مستحکم کرکے پنجاب اور کراچی میں پیپلزپارٹی کیلیے دروازے کھول دئیے ہیں۔