لندن/لاہور—تحریکِ انصاف کے چیئرمین عمران خان نے برطانیہ کے قومی نشریاتی ادارہ ”بی بی سی“ کو انٹرویو دیتے ہوئے کہا ہے کہ جب مجھے اسلام آباد ہائی کورٹ کے احاطہ سے گرفتار کیا گیا تو اس کا ردعمل آنا ہی تھا، جب میرے حامیوں نے دیکھا کہ مجھے گرفتار کر کے لے جایا جا رہا ہے تو کیا میرے حامی کوئی ردعمل ظاہر نہ کرتے؟
عمران خان کا کہنا تھا کہ میری حکومت سابق آرمی چیف نے گرائی، کہا گیا کہ عمران خان پاکستان کیلئے خطرہ ہے اس لیے ہٹا دیا گیا، مجھے اقتدار سے نکالا گیا تو اسٹیبلشمنٹ سمجھتی تھی کہ میری پارٹی ختم ہو جائے گی اور عموماً ایسا ہی ہوتا ہے کہ اقتدار سے نکل کر مقبولیت کم ہو جاتی ہے لیکن اس کے برعکس میری پارٹی کی مقبولیت میں اضافہ ہوا جو کہ پاکستان میں ایک غیر معمولی بات ہے۔
سابق وزیراعظم نے کہا کہ ضمنی انتخابات ہوئے تو میری جماعت نے کامیابی حاصل کی حالانکہ اسٹیبلشمنٹ وفاقی حکومت کی پشت پناہی کر رہی تھی، یہ مجھے کھیل سے نکالنے میں ناکام ہو گئے تو مجھ پر دو قاتلانہ حملے کروا دیئے، میرے خلاف مقدمات کی تعداد دو سو کے قریب پہنچ چکی ہے اور یہ سب کوششیں مجھے جیل میں ڈالنے اور نااہل کروانے کیلئے ہیں، میرا سارا وقت ایک عدالت سے دوسری عدالت کے چکر کاٹنے میں گزر جاتا ہے لیکن یہ مقدمات جعلی ہیں جن میں سے کچھ بھی نہیں نکلے گا، ملٹری کورٹس کے قیام کا مقصد بھی مجھے سزا دلوانا ہے۔
چیئرمین تحریکِ انصاف کا کہنا تھا کہ 27 سالہ سیاست کے دوران میں نے کبھی بھی کسی کو تشدد پر نہیں اکسایا، احتجاج ہمارا آئینی حق ہے، ہم نے 126 دن کا طویل ترین احتجاج کیا جبکہ اس دوران تشدد کا کوئی ایک واقعہ بھی سامنے نہیں آیا، 9 مئی کے واقعات کی آزادانہ تحقیقات ہونی چاہئیں کیونکہ ہمارے لوگ کسی بھی پرتشدد کارروائی میں شامل نہیں تھے۔
بی بی سی کے نمائندے نے سوال پوچھا کہ سچائی تو یہ ہے کہ آپ فوج کا سہارا لے کر حکومت میں آئے، آپ 2018 انتخابات میں خود اسی ٹائیگر (فوج) کی سواری کر کے اقتدار تک پہنچے، آپ تب فوج کے بہت زیادہ قریب تھے لیکن پھر جیسے ہی آپ حکومت سے باہر نکلے تو آپ نے اچانک فیصلہ کیا کہ آپ فوج کی سیاست میں مداخلت نہیں چاہتے، کیا یہ آپ کی منافقت نہیں ہے؟ فوج کے ترجمان نے بھی کہا کہ عمران خان سب سے بڑا منافق ہے.
سابق کرکٹر عمران خان نے جواب دیا کہ میری جماعت نے زیرو سے آغاز کیا اور 22 سال محنت کی، اگر ہمیں 2018 میں فوج لائی تھی تو اب جبکہ ہم حکومت سے باہر ہیں اور اسٹیبلشمنٹ ہمارے خلاف ہے تو ہم ضمنی انتخابات کیسے جیت گئے؟ یہ بات درست ہے کہ فوج نے 2018 انتخابات میں میری مخالفت نہیں کی لیکن فوج نے 2013 انتخابات میں نواز شریف کی حمایت کی تھی، ہم 2018 انتخابات میں شفاف طریقہ سے جیتے اسی لیے ہم نے خود اپوزیشن سے کہا تھا کہ آپ تمام حلقے کھول لیں۔
میزبان اینکر نے سوال پوچھا کہ کیا یہ سچ نہیں ہے کہ 2022 میں تحریکِ عدم اعتماد میں شکست کے بعد آپ کا ماننا تھا کہ آپ عوامی طاقت سے دوبارہ فوج کو اپنے ساتھ شامل کرنے پر مجبور کر لیں گے؟ مئی 2023 میں آپ کے لوگ پرتشدد واقعات میں شامل تھے اور انہوں نے اہم فوجی تنصیبات کو نشانہ بنایا، درحقیقت آپ نے ریاست کی ریڈ لائن کو کراس کیا اور آپ کے تمام قریبی ساتھی آپ کو ان واقعات کا ذمہ دار قرار دے چکے ہیں، آپ کی حکومت میں اہم عہدوں پر رہنے والے آپ کے قریبی ساتھیوں نے کہا کہ عمران خان ریاست مخالف ایجنڈے پر ہیں؟
چیئرمین تحریکِ انصاف عمران خان نے جواب دیا کہ 9 مئی کو مجھے اسلام آباد ہائی کورٹ کے احاطہ سے گرفتار کیا گیا حالانکہ میرے خلاف کوئی کیس نہیں تھا، مجھ پر پولیس نے نہیں بلکہ کمانڈوز نے حملہ کیا، میرے سیکیورٹی گارڈز پر تشدد کیا گیا، تب میرے سپورٹرز کیا کرتے؟ جب انہوں نے دیکھا کہ مجھے گرفتار کر کے لے جایا جا رہا ہے تو کیا میرے حامی کوئی ردعمل ظاہر نہ کرتے؟ جب پاکستان کی سب سے بڑی پارٹی کا لیڈر اغواء کیا گیا تو اس کا ردعمل آنا ہی تھا، صرف چار جگہوں پر جلاؤ گھیراؤ ہوا اور ہمارے 10 ہزار کارکنان کو گرفتار کر کیا گیا، ہمارے خلاف یہ سب پلان کے تحت کیا گیا۔
بی بی سی کے نمائندے نے کہا کہ آپ 9 مئی کے واقعات کی ذمہ داری قبول نہیں کرنا چاہتے مگر 9 مئی کے بعد آپ کی پارٹی اندر سے ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہو چکی ہے، آپ کے انتہائی قریبی ساتھی بھی آپ کو چھوڑ کر چلے گئے، آپ کی پارٹی کا وجود ہی نظر نہیں آ رہا۔
عمران خان نے جواب دیا کہ اگر میری پارٹی کا وجود نہیں ہے تو حکومت انتخابات کا اعلان کیوں نہیں کرتی؟ وہ انتخابات سے کیوں بھاگ رہے ہیں؟ اگر میری جماعت ختم ہو چکی ہے تو انہیں گھبرانا نہیں چاہیے، انہوں نے تمام حربے استعمال کر لیے ہیں مگر ہماری جماعت موجود ہے، کچھ لوگ دباؤ کے باعث چھوڑ کر چلے گئے ہیں لیکن باقی سب ہمارے ساتھ ہیں اور وہ چھپے ہوئے ہیں، ہم سب لوگ ایک طرح سے گھروں میں نظربند ہیں۔
ایک سوال کے جواب میں چیئرمین تحریکِ انصاف نے کہا کہ پاکستان ایک بڑے بحران کے قریب ہے، ہم تاریک دور کی جانب بڑھ رہے ہیں کیونکہ پاکستان میں غیر اعلانیہ مارشل لاء لگا ہوا ہے، گزشتہ 20 برس میں پاکستان جمہوری نظام کی طرف چل رہا تھا لیکن اب ایسا نہیں رہا، میڈیا آزاد نہیں ہے جبکہ عدلیہ کو بھی قابو کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے، اس کا حل یہ نہیں ہے کہ میں ان لوگوں سے ہاتھ ملا لوں جنہوں نے پاکستان کو 30 برس تک لوٹا، میں طاقتور لوگوں کو قانون کے گھیرے میں لانے کیلئے سیاست میں آیا تھا، میں قانون کی حکمرانی کو تباہ کرنے والوں کے ساتھ نہیں مل سکتا۔