واشنگٹن/ریاض (تھرسڈے ٹائمز) — امریکی اخبار واشنگٹن پوسٹ کے مطابق امریکہ کو فلسطین کے خلاف اسرائیل کی حمایت پر عرب دنیا کے دو طاقتور ترین حکمرانوں کی جانب سے مزاحمت کا سامنا ہے، امریکی وزیرِ خارجہ انٹونی بلنکن نے اتوار کے روز مصر کے صدر عبدالفتاح السیسی اور سعودی عرب کے ولی عہد محمد بن سلمان کو فلسطین اور اسرائیل کی موجودہ صورتحال پر امریکہ کے نقطۂ نظر پر قائل کرنے کی کوشش کی ہے۔
واشنگٹن ڈی سی میں قائم اخبار کے مطابق دونوں ممالک کے عوام میں فلسطینی کاز کیلئے بھرپور ہمدردی پائی جاتی ہے، حماس اور اسرائیل کی جنگ میں اب تک 1300 سے زائد اسرائیلی جبکہ 2600 سے زائد فلسطینی جان کی بازی ہار چکے ہیں، انٹونی بلنکن نے دونوں عرب راہنماؤں سے ملاقات کے بعد صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے بتایا ہے کہ غزہ میں اسرائیلی جارحیت پر عبدالفتاح السیسی اور محمد بن سلمان نے تشویش کا اظہار کیا ہے۔
واشنگٹن پوسٹ کے مطابق اعلٰی امریکی سفارتکار مشرقِ وسطیٰ میں عرب شراکت داروں کو اسرائیل پر حماس کے ہولناک حملوں کی مذمت کرنے اور اسرائیل کی غزہ پر تباہ کن بمباری کے متعلق علاقائی اضطراب کو روکنے پر قائل کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔
ریاض میں سعودی ولی عہد محمد بن سلمان سے شام کے وقت ملاقات کیلئے انٹونی بلنکن کو کئی گھنٹوں تک انتظار کرنا پڑا مگر محمد بن سلمان ملاقات کیلئے اگلی صبح آئے، ملاقات شروع ہونے کے بعد سعودی حکمران نے فلسطین میں اسرائیلی جارحیت کو روکنے پر زور دیا جس کے باعث بےگناہ لوگوں کی جانیں گئی ہیں۔
محمد بن سلمان نے کہا کہ غزہ کا محاصرہ ختم ہونا چاہیے جس میں فلسطینی سرزمین کو پانی، بجلی اور تیل سے محروم کر دیا گیا ہے، سعودی ولی عہد نے اسرائیل کیلئے امریکی حمایت کی پالیسی کی براہِ راست مخالفت کی۔
سعودی عرب اسلام کی جائے پیدائش اور اسلام کے دو مقدس ترین مقامات والا گھر ہے جو فلسطین اسرائیل تنازع کے بارے میں عرب پالیسی کو تشکیل دینے کیلئے ایک مؤثر آواز سمجھا جاتا ہے جبکہ سعودی عرب فلسطینیوں کے محافظ کے طور پر اپنے کردار کو بھی قدر کی نگاہ سے دیکھتا ہے جبکہ وہ حماس کو وسیع تر علاقائی انضمام کیلئے ایک بگاڑ پیدا کرنے والے گروہ کے طور پر دیکھتا ہے۔
واشنگٹن پوسٹ کے مطابق ریاض کو اب تک حماس کے اسرائیل پر حملے کی مذمت پر آمادہ کرنے کی کوششیں ناکام رہی ہیں جبکہ سعودی وزارتِ خارجہ نے غزہ میں اسرائیلی بمباری کی شدید مذمت کرتے ہوئے اس کو اپنا دفاع نہ کر پانے والے بےگناہ شہریوں پر حملہ قرار دیا ہے۔
امریکی اخبار کی جانب سے دعویٰ کیا گیا ہے کہ امریکہ کو مصر کی جانب سے بھی شدید مزاحمت کا سامنا ہے، ہفتے کے روز امریکی حکام نے اعلان کیا کہ وہ اسرائیلی بمباری کے باعث امریکی شہریوں کے انخلاء کیلئے غزہ اور مصر کے درمیان واقع رفح بارڈر کو عارضی طور پر کھولنے کیلئے مصر کے ساتھ ایک معاہدے پر پہنچ چکے ہیں، ایک اندازے کے مطابق 500 سے 600 فلسطینی امریکیوں نے بارڈر کی جانب بھاگنے کی کوشش کی مگر گزرگاہ بند ہونے کے باعث کوئی بھی امریکی مصر میں داخل نہیں ہو سکا۔
رفح ہارڈر کراسنگ خروج کیلئے واحد ایسی گزرگاہ ہے جس پر اسرائیل کا کنٹرول نہیں یے، یہ گزرگاہ فی الحال خوراک، پانی، ایندھن اور ادویات کی سپلائی کیلئے بھی بند ہے جس کو امدادی تنظیمیں اور دوست ممالک مصر کے تعاون سے غزہ بھیجنے کی کوششیں کر رہے ہیں، گزشتہ ہفتے اسرائیلی فضائی حملوں نے کراسنگ کو بھی نقصان پہنچایا جبکہ اسرائیل غزہ میں داخل ہونے والی امدادی گاڑیوں پر حملہ اور نہ ہونے کا عہد کرنے پر بھی تیار نہیں تھا۔
امریکی صدر جوبائیڈن نے اتوار کو امریکہ کی انسانی ہمدردی کی کوششوں کو لیڈ کرنے کیلئے سابق سفیر ڈیوڈ سیٹرفلیڈ کو مقرر کیا جبکہ انٹونی بلنکن کا کہنا ہے کہ سیٹرفلیڈ غزہ میں امدادی نظام کو مربوط کرنے میں مدد کیلئے پیر کو مصر پہنچیں گے۔
واشنگٹن پوسٹ کے مطابق قاہرہ میں اتوار کو صدارتی محل میں ہونے والی ملاقات کے دوران مصری صدر عبدالفتاح السیسی نے امریکی وزیرِ خارجہ انٹونی بلنکن سے کہا کہ اسرائیلی حملے ”حقِ دفاع“ سے تجاوز کر کے جارحیت میں بدل چکے ہیں۔
مصری صدر نے اسرائیل میں بلنکن کے حالیہ ریمارکس پر بھی تبصرہ کیا جس میں امریکی سفارتکار نے یہودی جارحیت کا جواز پیش کرتے ہوئے اپنے یہودی ورثے کا بھی ذکر کیا۔
عبدالفتاح السیسی نے کہا کہ آپ نے اسرائیل میں کہا کہ آپ ایک یہودی ہیں اور میں ایک مصری شخص ہوں جو مصر میں یہودیوں کے ساتھ پلا بڑھا، السیسی نے مزید کہا ”یہودیوں پر کبھی بھی کسی قسم کا جبر یا تشدد نہیں کیا گیا اور ہمارے خطہ میں ایسا کبھی نہیں ہوا کہ یہودیوں کو نشانہ بنایا گیا ہو“۔
واشنگٹن پوسٹ کے مطابق مصری صدر نے جہاں اسرائیل پر حماس کے حملے کی مذمت کی وہیں انہوں نے اسرائیل پر بھی الزام عائد کیا کہ وہ دو ریاستی حل کی جانب پیش رفت نہ ہونے کی وجہ سے فلسطینیوں کو مایوسی کی جانب لے جا رہا ہے، عبدالفتاح السیسی کی اتوار کو قومی سلامتی کونسل سے ملاقات کے بعد ان کے دفتر کی جانب سے ایک بیان جاری کیا گیا جس میں فلسطینی کاز کے مستقبل کا مطالعہ کرنے کیلئے ایک بین الاقوامی سربراہی اجلاس بلانے کا مطالبہ کیا گیا جبکہ امریکی وزیرِ خارجہ نے صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے بتایا کہ انہوں نے اس خیال کی حمایت کی ہے لیکن اس سے پہلے حالیہ بحران سے نکلنا ہو گا۔
مصر وہ واحد ملک ہے جس کے اسرائیل، مغربی کنارے میں فلسطینی اتھارٹی اور غزہ میں حماس کے ساتھ مضبوط روابط ہیں جبکہ مصر ماضی میں بھی پرتشدد حالات میں بات چیت کیلئے کلیدی کردار ادا کرتا رہا ہے، مصر نے مئی 2021 میں بھی اسرائیل اور حماس کے درمیان جنگ بندی کیلئے ثالث کا کردار ادا کیا تھا جبکہ دونوں کے درمیان 11 دن سے جاری جنگ میں 250 سے زائد افراد جانیں گنوا چکے تھے، تجزیہ نگاروں کے مطابق مصر کی جغرافیائی حیثیت اس کو مسئلہ فلسطین کے حل کیلئے ایک ناگزیر کردار بناتی ہے۔
امریکی اخبار کے مطابق مصر کا یہ اثر و رسوخ واشنگٹن میں السیسی حکومت کے انسانی حقوق کے حوالہ سے بدترین ریکارڈ کے باوجود اس کو سالانہ 1.3 بلین ڈالرز امریکی فوجی امداد کی مسلسل فراہمی کیلئے دلائل کی بنیاد ہے، جب 2021 میں جوبائیڈن نے پہلی بار دفتر سنبھالا تو انسانی حقوق کو اپنی خارجہ پالیسی کا مرکز بنانے کا عہد کیا جس کے بعد امریکہ اور مصر کے درمیان تعلقات تعطل کا شکار ہوئے مگر اسی سال مئی میں مصر نے حماس اور اسرائیل کے درمیان جنگ بندی کیلئے ثالث کا کردار ادا کیا تو جوبائیڈن نے مصری صدر کو ایک ہفتے میں دو بار فون کیا۔
واشنگٹن ڈی سی میں قائم اخبار نے دعویٰ کیا ہے کہ مصری عوام فلسطینی کاز کی بھرپور حمایت کرتے ہیں جبکہ مصر اس معاملہ میں دو ریاستی حل پر زور دیتا ہے، اسرائیل غزہ پر بمباری جاری رکھے ہوئے ہے اور دنیا بھر میں فلسطین کے حق میں مظاہرے جاری ہیں جبکہ ان حالات میں مصر نے امن کی آواز بننے کی کوشش کی ہے اور تمام فریقین سے کشیدگی کم کرنے اور انسانی امداد کو غزہ میں داخل ہونے کی اجازت دینے کا مطالبہ کیا ہے۔
عبدالفتاح السیسی نے جمعرات کو ملٹری اکیڈمی سے فارغ التحصیل جوانوں سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ مصر ثالثی کیلئے تمام صلاحیتوں کو بروئے کار لانے اور ہر ممکن کوشش کرنے کیلئے تیار ہے۔
مصری صدر کا کہنا تھا کہ میں تمام فریقین سے مطالبہ کرتا ہوں کہ وہ عقل و دانش کی آواز بلند کریں اور انتہائی تحمل سے کام لیتے ہوئے تمام شہریوں، بچوں اور خواتین کو وحشیانہ انتقام کی زد سے نکالیں اور فوری طور پر مذاکرات کیلئے راستے بحال کریں۔
واشنگٹن پوسٹ کے مطابق مصری حکام نے واضح کیا ہے کہ فلسطینیوں کو اجتماعی طور پر مصر منتقل کرنا کوئی آپشن نہیں ہے کیونکہ ایسا کرنے سے فلسطینی ریاست کا خواب چکنا چور ہو جائے گا۔
اسرائیل نے مصر سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ سیناء میں فلسطینی شہریوں کو قبول کرے مگر مصر کو یہ خدشہ لاحق پے کہ اگر ایسا ہوا تو ایک بار لڑائی بند ہو جانے کے بعد اسرائیل فلسطینیوں کو غزہ واپس جانے کی اجازت نہیں دے گا۔
مصر کے سابق وزیرِ خارجہ اور حکومت سے منسلک مصری خارجہ تعلقات کونسل کے موجودہ سربراہ محمد العرابی کا کہنا ہے کہ اگر بارڈر کراسنگ دوبارہ کھول دی جاتی ہے تو مصر زخمیوں کو وصول کرنے کیلئے تیار ہے، یقیناً ان کا علاج مصر میں ہو گا اور یہ رسائی انسانی ہمدردی کی بنیاد پر ہو گی لیکن ان میں غزہ سے آنے والے مہاجرین شامل نہیں ہوں گے۔