لندن\اسلام آباد (تھرسڈے ٹائمز) — برطانوی اخبار ”دی ٹیلی گراف“ میں پاکستان کے نگران وزیراعظم انوار الحق کاکڑ کا آرٹیکل شائع کیا گیا ہے جس میں انہوں نے دعویٰ کیا ہے کہ پاکستان پر تارکینِ وطن کا بوجھ برطانیہ کی نسبت کہیں زیادہ ہے اور پاکستان اس بوجھ کو اتارنے کیلئے ہر ممکن کوشش کرنے کا پورا حق رکھتا ہے۔
نگران وزیراعظم انوار الحق کاکڑ نے لکھا ہے کہ پوری دنیا میں حکومتیں تنازعات، موسمیاتی تبدیلی اور اقتصادی موقع پرستی سے منسلک بڑے پیمانے کی نقل مکانی سے نمٹنے کیلئے ایک نئے دور کا آغاز کر رہی ہیں، غیر دستاویزی غیر ملکیوں سے متعلق اقدامات میں دنیا مغرب کے تکلیف دہ فیصلوں سے ناواقف نہیں ہے، برطانوی حکومت کا غیر قانونی تارکینِ وطن کو روانڈا بھیجنے کا منصوبہ بھی اسی دباؤ کی علامت ہے، ان تجاویز کے گرد منڈلاتی گرما گرم بحث اور اس سکیم کو پٹڑی سے اتارنے کی بہت سی کوششیں پالیسی سازوں کو درپیش چیلنجز کی عکاسی کرتی ہیں کیونکہ وہ انسانی حقوق کو تلخ حقائق کے ساتھ متوازن رکھنا چاہتے ہیں۔
انوار الحق کاکڑ کے شائع ہونے والے آرٹیکل کے مطابق فرانس بھی اس ضمن میں محوِ جدوجہد ہے جبکہ اٹلی نے بھی خدشہ ظاہر کیا ہے کہ وہ یورپ کا مہاجر کیمپ بن سکتا ہے، حالیہ برسوں میں لاکھوں پناہ گزینوں کیلئے اپنے دروازے کھولنے کے بعد اب جرمنی بھی دباؤ محسوس کر رہا ہے اور ملک بدری کے نئے سخت پیمانوں کا اعلان کر رہا ہے جبکہ امریکہ میں بھی صورتحال موزوں نہیں ہے۔
نگران وزیراعظم کے مطابق پاکستان کا مسئلہ یکسر مختلف نوعیت کا ہے، گزشتہ تین سے چار دہائیوں کے دوران چار سے پانچ ملین تارکینِ وطن پاکستان میں داخل ہوئے ہیں جبکہ یہ تعداد آئرلینڈ کی کل آبادی کے قریب ہے حالانکہ وہ یہاں رہنے کا حق نہیں رکھتے، مہاجرین سے متعلق 1951 کنونشن کے غیر دستخطی ہونے (اور اس کے 1967 والے پروٹوکول) کے باوجود ہم نے فراخدلی سے مہاجرین کے سب سے بڑے لوڈ کو ایڈجسٹ کیا ہے، مہمان نوازی پاکستان کے ڈی این اے میں شامل ہے اور ہم اپنی قانونی، اخلاقی اور انسانی ذمہ داریوں کو پورا کرتے رہیں گے۔
انہوں نے لکھا ہے کہ ہم نے طویل عرصہ تک زیادہ سے زیادہ لوگوں کو ایڈجسٹ کرنے کیلئے بہت محنت کی ہے حالانکہ انہیں یہاں رہنے کا کوئی حق نہیں تھا جبکہ انہیں رضاکارانہ طور پر پاکستان چھوڑنے کے کئی مواقع فراہم کیے گئے ہیں لیکن بدقسمتی سے رضاکارانہ طور پر اپنے وطن واپس جانے کے کئی مواقع اور غیر دستاویزی طور پر رہنے والوں کو رجسٹر کرنے کی متعدد حکومتی کوششوں کے باوجود ان کی بہت بڑی تعداد نے اپنی مستقل حیثیت کو باضابطہ طور پر رجسٹر کرانے کی بجائے گمنامی میں رہنے کا انتخاب کیا ہے۔
برطانوی اخبار میں شائع ہونے والے آرٹیکل میں لکھا گیا ہے کہ اگرچہ پاکستان نے بہت سارے محنتی اور قوانین کی پاسداری کرنے والے تارکینِ وطن سے فائدہ اٹھایا ہے لیکن اس قدر بڑی تعداد پر مشتمل تارکینِ وطن کے باعث ہونے والے سماجی، اقتصادی اور سیکیورٹی اخراجات حیران کن ہیں۔ بہت سارے لوگ بلیک مارکیٹ میں کام کرتے ہیں، وہ کوئی ٹیکس ادا نہیں کرتے، جائز طریقوں سے کام کرنے والوں کی مایوس کن اجرت ہے، وہ جرائم کی دنیا میں استحصال کا بھی شکار ہیں جبکہ ان کے خطہ میں سرگرم دہشتگرد تنظیموں سے پریشان کن روابط ہیں۔
نگران وزیراعظم انوار الحق کاکڑ نے ”دی ٹیلی گراف“ میں لکھا ہے کہ اگست 2021 سے کم از کم 16 افغان شہریوں نے پاکستان میں خودکش حملے کیے ہیں اور 65 دہشتگرد سیکیورٹی فورسز کے ساتھ مقابلوں میں (بالخصوص سرحدی علاقوں میں) مارے گئے ہیں جن کی شناخت افغانیوں کے طور پر کی گئی ہے، کوئی بھی ذمہ دار حکومت ایسے معاملات کو نظر انداز نہیں کر سکتی، ہم نے جب بھی یہ معاملہ عبوری افغان حکومت کے سامنے رکھا تو انہوں نے ہمیں اپنے اندر جھانکنے کا مشورہ دیا، بالآخر ہم نے اپنے گھر کو ٹھیک کرنے کیلئے ان کے مشورے پر عمل کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔
انوار الحق نے لکھا ہے کہ ہمارے اِس پروگرام نے ان عناصر کی جانب سے متوقع تنقید کو اپنی جانب متوجہ کیا ہے جو ان مسائل کی پیچیدہ تاریخ کو نہیں سمجھتے اور نہ ہی ان غیر معمولی کوششوں سے واقف ہیں جو زبردستی ملک بدری جیسے اقدام سے بچنے کیلئے کی گئی ہیں، بالخصوص سوشل میڈیا پر غلط معلومات اور بےبنیاد الزامات کی بھرمار ہے جبکہ اِس طرح کے کسی بھی پروگرام میں ہمیشہ ایسے مشکل معاملات قلیل مقدار میں درپیش رہتے ہیں۔ ہم نے ان تمام لوگوں کی بہبود کیلئے ایک گہری ذمہ داری کو محسوس کیا ہے اور ہمیں اس کا احساس رہے گا، یہی وجہ ہے کہ اِس پروگرام میں شامل تمام عہدیداروں کو ڈی پورٹ ہونے والوں کے ساتھ مناسب احترام پر مبنی برتاؤ اور ان کی دیکھ بھال کے سخت احکامات دیئے گئے ہیں۔
نگران وزیراعظم کے مطابق ہمارا زور ان کی ملک بدری کی بجائے ان کی رضاکارانہ، محفوظ اور باوقار وطن واپسی (ان سے متعلق قانونی طور پر حاصل شدہ اثاثوں کے ساتھ) پر ہے، اب تک افغانستان واپس جانے والوں میں سے 93 فیصد نے رضاکارانہ طور پر ایسا کیا ہے جبکہ اہم بات یہ ہے کہ رجسٹریشن کارڈز کے ثبوت کیلئے درخواست دینے والے 1 اعشاریہ 46 ملین افغانیوں میں سے کسی کو بھی انکار نہیں کیا گیا اور نہ ہی ان 8 لاکھ یا اس سے زائد افغانیوں کو جن کے پاس سیٹیزن کارڈز موجود ہیں۔
انہوں نے لکھا ہے کہ ہم نے 79 کے قریب ٹرانزٹ مراکز قائم کیے ہیں جن میں مفت کھانا، پناہ گاہیں اور طبی سہولیات فراہم کی گئی ہیں جبکہ اِس عمل کو آسان بنانے کیلئے پاک افغان سرحد پر اضافی کراسنگ پوائنٹس کھولے گئے ہیں۔ سیکیورٹی اہلکار تارکینِ وطن کو سرحدی گزرگاہوں تک لے جا رہے ہیں جبکہ خواتین اور بچوں کا خاص خیال رکھا جا رہا ہے اور کسی بھی بدسلوکی کی اطلاع کیلئے ایمرجنسی ہیلپ لائنز بھی دستیاب ہیں، واپس جانے والوں کو ظلم و ستم کے خطرات سے بچانے کیلئے بھی بہت کچھ کیا گیا ہے، ہم نے اس معاملہ کو بہت سنجیدگی سے لیا ہے جبکہ کابل اور قندھار کے حکام اور وطن واپس جانے والوں کے درمیان مضبوط قبائلی اور علاقائی روابط کو بھی یقینی بنایا ہے۔
دی ٹیلی گراف میں شائع ہونے والے آرٹیکل میں نگران وزیراعظم نے مؤقف اختیار کیا ہے کہ اگست 2021 میں افغانستان سے مغربی اتحادیوں کے اچانک انخلاء نے پاکستان میں مہاجرین کی ایک بالکل نئی آمد کو جنم دیا، لاکھوں افغانیوں نے یہ کہہ کر سرحد پار کی کہ ان کی جانوں کو خطرہ ہے۔ ہم یہ تسلیم کرتے ہوئے کہ کچھ افراد کو خصوصی تحفظ کی ضرورت ہے، ان کی فلاح و بہبود کو بہت سنجیدگی سے لیتے ہیں۔ ہم صحافیوں، انسانی حقوق کے کارکنان اور موسیقاروں کو ڈی پورٹ نہیں کریں گے کیونکہ انہیں خطرات لاحق ہیں تاہم ہمیں اس معاملہ میں دیگر ممالک کی جانب سے مدد درکار ہے۔ بدقسمتی سے نئے آنے والوں میں سے صرف 59 ہزار 33 افراد ہی پاکستان سے باہر آباد ہوئے ہیں، 42 ہزار 68 افراد مغرب میں انخلاء کے منتظر ہیں جبکہ باقی سب سیاسی پناہ کیلئے کسی کو بھی قائل کرنے میں ناکام رہے ہیں اور غیر قانونی طور پر پاکستان میں قیام پذیر ہیں۔
انوار الحق کاکڑ کے مطابق پاکستان آج تاریخ کے دوراہے پر کھڑا ہے، اتنی بڑی تعداد میں غیر دستاویزی افراد کو جگہ دے کر ہم اپنی قومی سلامتی پر مزید سمجھوتا نہیں کر سکتے، ہمارا حتمی مقصد ایک محفوظ، زیادہ پرامن اور خوشحال پاکستان کی تعمیر ہے جس میں ہمارے اپنے لوگوں کیلئے خطہ اور وسیع تر دنیا سے وابستہ فوائد ہوں۔