This article originally appeared in WeNews.
نواز شریف کے تیسرے دور حکومت کا آغاز تھا کہ جب چودہ اگست سن دو ہزار چودہ کو عمران خان نے معروف دھرنے کا اعلان کیا۔ پورے ملک میں ہاہا کار مچ گئی۔ بہانہ دھاندلی کا بنایا گیا۔ کبھی پینتیس پنکچر کا شور مچایا گیا، کبھی چار حلقے کھولنے کا تماشا کیا گیا۔ پارلیمنٹ کے سامنے ایک سو چھبیس دن جو کچھ ہوا، سب کے سامنے تھا۔ پارلیمنٹیرینز ایوانوں میں داخل نہیں ہو سکے، ججز عدالتوں میں نہیں جا سکے، طاہر القادری کی شمولیت سے پولیس بے بس ہو گئی۔
ہر رات محفل سجتی، میڈیا اسٹیبلشمنٹ کی انگلیوں پر ناچتا رہا۔ کنٹینر پر لوگ زیادہ اور نیچے لوگ کم ہوتے مگر ٹی وی سکرینوں پر یہ تاثر دیا جاتا تھا کہ انقلاب آ چکا ہے، خلق خدا نکل پڑی ہے، جم غفیر اکٹھا ہو چکا ہے۔ لاکھوں کا مجمع ٹھاٹھیں مار رہا ہے تاہم اصل صورت حال اس سے بہت مختلف تھی۔
ڈی چوک کے سب رستے بند تھے۔ راہگیروں کی زندگی عذاب تھی۔ غلاظت اور تعفن کے ڈھیر لگے ہوئے تھے۔ ایک سو چھبیس دن یہ تماشا رہا۔ نہ حکومت نے استعفیٰ دیا نہ عمران خان کو کوئی کامیابی حاصل ہوئی۔ پھر اے پی ایس کا سانحہ ہوا تو عمران خان کو اپنی ناکامی سمیٹنے کا جواز مل گیا۔ اس ہنگام میں چار ستمبر کو چین کے صدر شی جن پنگ نے پاکستان میں سیکیورٹی خدشات کی بنا پر اپنا دورہ منسوخ کر دیا۔ پاکستان کی ترقی کا ایک رستہ بند ہوا۔ گیم چینجر منصوبہ تمام ہوا۔
دوہزار تیرہ میں ہم نے پہلی بار سی پیک گیم چینجر منصوبہ کی اصطلاح سنی تھی۔ احسن اقبال ہر محفل، پریس کانفرنس میں اس کو اپنی حکومت کا کارنامہ بتاتے تھے۔ نواز شریف بھی اسے خارجہ پالیسی میں ایک نیا موڑ قرار دیتے تھے۔ توقع تھی کہ ہم امریکا تلے دبی خارجہ پالیسی کے استبداد سے نکل کر نئی منزلوں کو تلاش کریں گے۔ امریکی غلامی کرکے ہم بہت کچھ کھو چکے ہیں۔ اب ہم کچھ تعلقات برابری کی سطح پر ملکی معیشت کی خاطر رکھنا چاہتے ہیں۔
سی پیک اسی طرح کا ایک منصوبہ تھا جس سے بہت کچھ بدل جانا تھا۔ سڑکیں بن جانی تھیں، توانائی کا مسئلہ حل ہو جانا تھا، روزگار کے مواقع پیدا ہونے تھے، آمد و رفت کے رستے بننے تھے، ممالک کے درمیان بہتر مواصلاتی رابطے بننے تھے، معیشت بہتر ہونی تھی، خزانہ بھرنا تھا مگر یہ سب کچھ، کچھ امریکہ نوازوں کو راس نہیں آیا۔ انہوں نے ایسے موقع پر عمران خان کو لانچ کیا کہ سارا منصوبہ تہہ و بالا ہو گیا۔ ساری محنت غارت ہو گئی۔ گیم چینجر منصوبے کی پاداش میں کچھ عرصے بعد پاناما جیسے کیس میں اقامے کی بنیاد پر وزیر اعظم ہی چینج کر دیا۔
یہی وجہ تھی کہ نواز شریف جی ٹی روڈ پر پوچھتے پھرتے تھے کہ مجھے کیوں نکالا؟ سچ بات تو یہ ہے کہ نواز شریف فوج سے تعلقات کبھی خراب نہیں کرنا چاہتے تھے۔ وہ اچھے سول ملٹری تعلقات پر یقین رکھتے تھے۔ اس کے ساتھ ساتھ وہ معیشت کی بحالی اور ملکی ترقی کے بھی خواہاں تھی۔ اپنے تئیں وہ سب کچھ ٹھیک کر رہے تھے۔ ہر قدم پھونک پھونک کر رکھ رہے تھے۔ ہر فیصلہ سوچ سمجھ کے کر رہے تھے۔ نہ انہوں نے فوج کے خلاف کوئی علم بغاوت بلند کیا نہ کسی کو دھمکی لگائی نہ کسی کا حق مارا نہ کسی کی روزگار پر لات ماری۔ سب سے بنا کر رکھی اور ساتھ میں ملک کی بہتری کی سبیل بھی کی۔
پھر انہیں کیوں نکالا؟ کسی نے جواب نہیں دیا کیوں کہ غصہ نہ کارکردگی پر تھا نہ کرپشن کا کوئی قضیہ تھا، نہ فوج کے خلاف کوئی بیانیہ تھا نہ کوئی وطن سے غداری کی کوشش تھی۔ قصور صرف گیم چینجر منصوبہ تھا جس نے گیم چینج کر دی۔ پھر کیا ہوا؟ دو ہزار اٹھارہ میں جی بھر کر دھاندلی ہوئی۔ ایک کٹھ پتلی کو وزیر اعظم بنایا گیا۔ سی پیک کو لپیٹ کر رکھ دیا گیا۔ سی پیک منصوبے کا رکھوالا اس کو بنایا گیا جس کا اپنا دامن کرپشن سے داغدار تھا۔ عمران خان کے دور میں ایک ارب درخت کا نعرہ بھی لگا، صحت کے سونامی کی بات بھی ہوئی، تعلیم کے طوفان کا ذکر بھی سنا، غیر جانبدار پولیس کا اعلان بھی کیا گیا لیکن سی پیک کے منصوبے پر مکمل خاموشی اختیار کی گئی۔ نہ کسی نے بات کی نہ کسی نے اس کے حوالے سے کوئی بڑا اعلان کیا۔ ساری ریاست صم بکم ہو کر رہ گئی۔
ابھی صورت حال دیکھ لیجیے ۔ الیکشن کے بعد شہباز شریف کی حکومت آئی ہے۔ دھاندلی کے الزامات زوروں پر ہیں۔ خیبر پختونخوا کی جانب سے اسلام آباد چڑھائی کے منصوبے بنائے جا رہے ہیں۔ حالانکہ مہنگائی میں کمی ہو رہی ہے۔ چند ماہ کی حکومت نے بہت سی چیزوں کی قیمتوں میں کمی کر دی ہے۔ یہی مہنگائی الیکشن سے پہلے سب سے بڑا مسئلہ تھا۔ فوج سے بھی شہباز شریف کے تعلقات کبھی خراب نہیں ہوئے۔ وہ سر جھکا کر چلنے کے عادی ہیں۔ انقلابی جذبوں کے قائل وہ ہیں ہی نہیں۔ آئی ایم ایف سے بھی معاہدہ ہو گیا ہے۔ ان کی بھی ہر بات مانی جا رہی ہے۔ بجٹ سے پہلے پیٹرول کی قیمت میں کمی ہو رہی ہے۔ آٹا سستا ہو گیا ہے۔ موبائل سستے ہو گئے۔ گاڑیاں سستی ہو گئیں، سریا سستا ہوگیا، پراپرٹی کے ریٹ گر گئے، اور اس قوم کو کیا چاہیے۔
شہباز شریف سب کچھ ٹھیک کر رہے ہیں لیکن ایک غلطی ان سے سرزد ہو رہی ہے ۔ وہ چین کے دورے پر جا رہے ہیں۔ دو طرفہ تعلقات کو بہتر کرنا چاہ رہے ہیں۔ سی پیک کی تجدید کرنا چاہ رہے ہیں۔ یہی غلطی نواز شریف نے کی تھی جس کے بعد وہ جی ٹی روڈ پر پوچھتے پھرتے تھے کہ مجھے کیوں نکالا ؟ اس بات کو درست مان لیں تو پھر مان لیں کہ حالات خراب نہیں بلکہ خراب دکھائے جا رہے ہیں۔ تجزیہ کاروں نے ترکش سے تیر نکال لیے ہیں۔ مارشل لاء کی دھمکیاں نکال لی ہیں۔ آخری آپشن اور تیسری قوت کا ذکر بار بار ہونے لگا ہے۔ عدلیہ میں چھپی کالی بھیڑوں نے تیور دکھانے شروع کر دیے ہیں۔ طاقت کے ایوان اگر چین سے بہتر تعلقات چاہیں بھی تو محلاتی سازشوں کی حقیقت سے انکار نہیں کیا جا سکتا۔
ان حالات میں اگر شہباز شریف سی پیک پر مصر رہے تو کہا جا سکتا ہے کہ اب وہ وقت آ گیا کہ جب جلد ہی شہباز شریف جی ٹی روڈ پر سفر کریں گے اور ہر کسی سے پوچھتے پھریں گے مجھے کیوں نکالا ؟