اسلام آباد (تھرسڈے ٹائمز) — جسٹس جمال مندوخیل نے کہا ہے کہ ملٹری کورٹس کا پورا کیس آرٹیکل 8 کے گرد گھومتا ہے، آئین کے آرٹیکل 8 میں آرمی قوانین کا ذکر ان کے ڈسپلن کے حوالے سے ہے، جو شخص آرمڈ فورسز میں نہیں وہ اس کے ڈسپلن کے نیچے کیسے آ سکتا ہے؟ چھاؤنی کا تصور سب سے پہلے حضرت عمر ابن الخطاب (رضی اللّٰه تعالیٰ عنہ) نے دیا تھا، انہوں نے سخت ڈسپلن کی وجہ سے ہی فوج کو باقی عوام سے الگ رکھا، فوج کا ڈسپلن آج بھی قائم ہے اور اللّٰه اسے قائم ہی رکھے، فوج نے ہی سرحدیں سنبھال کر ملک کا دفاع کرنا ہوتا ہے، فوج کے ڈسپلن میں اگر عام لوگوں کو شامل کیا تو خدانخواستہ یہ تباہ نہ ہو جائے۔
سپریم کورٹ آف پاکستان کے 7 رکنی آئینی بینچ نے جسٹس امین الدین خان کی سربراہی میں ملٹری کورٹس فیصلے کے خلاف انٹرا کورٹ اپیلز پر سماعت کی ہے۔ آئینی بینچ میں جسٹس جمال خان مندوخیل، جسٹس محمد علی مظہر، جسٹس حسن رضوی، جسٹس مسرت ہلالی، جسٹس نعیم اختر افغان اور جسٹس شاہد بلال شامل ہیں۔
ملٹری کورٹس کا پورا کیس آرٹیکل 8 کے گرد گھومتا ہے۔ جسٹس جمال مندوخیل
عدالتِ عظمٰی میں سماعت کے دوران جسٹس مسرت ہلالی نے ریمارکس دیئے کہ ملٹری کورٹ کے زیرِ حراست افراد کی ایف آئی آرز کی نقول نہیں دی گئی ہیں۔
وزارتِ دفاع کے وکیل خواجہ حارث نے عدالت کو بتایا کہ ملٹری کورٹس کیس میں عدالتی فیصلہ 2 حصوں پر مشتمل ہے، ایک حصے میں آرمی ایکٹ دفعات کو کالعدم قرار دیا گیا جبکہ دوسرے حصہ میں ملزمان کی ملٹری کورٹ میں کسٹڈی ہے۔
جسٹس جمال مندوخیل نے کہا کہ ملٹری کورٹس کا پورا کیس آرٹیکل 8 کے گرد گھومتا ہے۔ جسٹس محمد علی مظہر نے استفسار کیا کہ کیا 5 رکنی بینچ نے آرمی ایکٹ دفعات کو آرٹیکل 8 سے متصادم قرار دیا؟ آرمی ایکٹ کی دفعات کو آرٹیکل 8 سے متصادم ہونے کا فیصلے میں کیا جواز پیش کیا گیا؟
جو شخص آرمڈ فورسز میں نہیں وہ اسکے ڈسپلن کے نیچے کیسے آ سکتا ہے؟ جسٹس جمال مندوخیل
جسٹس جمال خان مندوخیل نے سوال کیا کہ جو شخص آرمڈ فورسز میں نہیں وہ اس کے ڈسپلن کے نیچے کیسے آ سکتا ہے؟
وزارتِ دفاع کے وکیل خواجہ حارث نے جواب دیا کہ اگر قانون اجازت دیتا ہے تو ڈسپلن کا اطلاق ہو گا۔
جسٹس جمال خان مندوخیل نے ریمارکس دیئے کہ ایک شخص آرمی میں ہے اس پر ملٹری ڈسپلن کا اطلاق ہو گا، ایک شخص محکمہ زراعت میں ہے اس پر محکمہ زراعت کے ڈسپلن کا اطلاق ہو گا، اگر کوئی شخص کسی محکمہ میں سرے سے ہے ہی نہیں تو اس پر آرمڈ فورسز کے ڈسپلن کا اطلاق کیسے ہو گا؟ کیا غیر متعلقہ شخص کو ڈسپلن کے نیچے لانا آرٹیکل 8 کی خلاف ورزی نہیں ہو گی؟
مخصوص حالات میں سویلینز پر بھی آرمی ایکٹ کا اطلاق ہوتا ہے۔ وکیل خواجہ حارث
وزارتِ دفاع کے وکیل خواجہ حارث نے مؤقف اختیار کیا کہ مخصوص حالات میں سویلینز پر بھی آرمی ایکٹ کا اطلاق ہوتا ہے۔ سپریم کورٹ کے اس نقطہ پر کوئی عدالتی فیصلہ موجود ہے۔
جسٹس محمد علی مظہر نے کہا کہ ایف بی علی اور شیخ ریاض علی کیس میں یہی قرار دیا گیا، فیصلے میں 4 ججز نے آرمی ایکٹ دفعات کو کالعدم کیا۔
وزارتِ دفاع کے وکیل خواجہ حارث نے مؤقف اپنایا کہ عدالت کے پاس آرمی ایکٹ دفعات کو کالعدم کرنے کا اختیار نہیں ہے۔
کیا آرمی ایکٹ نے آئین کے آرٹیکل 8 کے سیکشن 1 کو غیر مؤثر نہیں کر دیا؟ جسٹس جمال مندوخیل
جسٹس جمال خان مندوخیل نے ریمارکس دیئے کہ اس طرح تو اگر کوئی اکسانے کا سوچے تو اس پر بھی آرمی ایکٹ کا اطلاق ہو گا۔ کیا آرمی ایکٹ نے آئین کے آرٹیکل 8 کے سیکشن 1 کو غیر مؤثر نہیں کر دیا؟ کیا سویلین پر آرمی ایکٹ کا اطلاق ہو سکتا ہے؟
وکیل خواجہ حارث نے کہا کہ ملٹری ٹرائل میں بھی فیئر ٹرائل کا آرٹیکل 10 اے موجود ہوتا ہے۔
جسٹس محمد علی مظہر نے کہا کہ ملٹری کورٹ فیصلے کے خلاف انٹرا کورٹ اپیلز کو یہاں سنا جا رہا ہے، عدالتی فیصلے میں سب سے پہلے نقائص کی نشاندہی کریں۔
جسٹس جمال خان مندوخیل نے کہا کہ آئینی بینچ انٹرا کورٹ اپیلز میں بھی آئینی نقطہ کا جائزہ لے سکتا ہے۔
جسٹس محمد علی مظہر نے کہا کہ برادر جج کے آبزرویش سے میرا اختلاف نہیں، فیصلے میں نقائص کی نشاندہی بھی ضروری ہے۔
جسٹس جمال خان مندوخیل نے ریمارکس دیئے کہ پاکستان میں سب سے بڑا عہدہ صدرِ پاکستان کا ہے، اگر پریذیڈنٹ ہاؤس پر حملہ ہو تو ملزم کا ٹرائل انسدادِ دہشتگردی عدالت میں ہو گا، اگر آرمی املاک پر حملہ ہو تو ٹرائل ملٹری کورٹ میں ہو گا۔
وکیل خواجہ حارث نے جواب دیا کہ یہ فیصلہ قانون سازوں نے قانون سازی سے کیا ہے۔
ملٹری کورٹ میں ملزم کو وکیل اور تمام متعلقہ مواد فراہم کیا جاتا ہے۔ وکیل خواجہ حارث
جسٹس مسرت ہلالی نے استفسار کیا کہ کیا ملٹری کورٹ ٹرائل میں وکیل کی اجازت ہوتی ہے؟ کیا ملٹری کورٹ میں ملزم کو تمام مواد فراہم کیا جاتا ہے؟
وکیل خواجہ حارث نے بتایا کہ ملٹری کورٹ میں ملزم کو وکیل اور تمام متعلقہ مواد فراہم کیا جاتا ہے۔
جسٹس جمال خان مندوخیل نے سوال کیا کہ اگر ایک فوجی اپنے افسر کا قتل کر دے تو کیس کہاں چلے گا؟
وکیل خواجہ حادث نے کہا کہ قتل کا کیس عام عدالت میں چلے گا۔
جسٹس جمال خان مندوخیل نے کہا کہ جو شخص آرمی ایکٹ کا سبجیکٹ نہیں اس کو بنیادی حقوق سے کیسے محروم کیا جا سکتا ہے؟
چھاؤنی کا تصور سب سے پہلے حضرت عمرؓ نے دیا تھا۔ جسٹس جمال مندوخیل
جسٹس جمال مندوخیل نے ریمارکس دیئے کہ آئین کے آرٹیکل 8 میں آرمی قوانین کا ذکر ان کے ڈسپلن کے حوالے سے ہے، چھاؤنی کا تصور سب سے پہلے حضرت عمر ابن الخطاب (رضی اللّٰه تعالیٰ عنہ) نے دیا تھا، انہوں نے سخت ڈسپلن کی وجہ سے ہی فوج کو باقی عوام سے الگ رکھا، فوج کا ڈسپلن آج بھی قائم ہے اور اللّٰه اسے قائم ہی رکھے، فوج نے ہی سرحدیں سنبھال کر ملک کا دفاع کرنا ہوتا ہے، فوج کے ڈسپلن میں اگر عام لوگوں کو شامل کیا تو خدانخواستہ یہ تباہ نہ ہو جائے۔
جسٹس جمال خان مندوخیل نے کہا کہ فوجی کو قتل کرنے والے کا مقدمہ عام عدالت میں چلتا ہے، فوجی تنصیبات پر حملہ بھی تو انسدادِ دہشتگردی ایکٹ کے تحت ہی جرم ہے۔
جسٹس مسرت ہلالی نے ریمارکس دیئے کہ ذاتی عناد پر فوجی کا قتل الگ اور بلوچستان و خیبرپختونخوا طرز پر فوج پر حملہ الگ چیزیں ہیں۔
سماعت کل تک ملتوی
بعدازاں عدالت نے وفاقی حکومت سے 9 اور 10 مئی کی ایف آئی آرز اور دیگر تفصیلات طلب کر لیں جبکہ کیس کی سماعت کل (بروز جمعہ) تک ملتوی کر دی گئی ہے۔