اسلام آباد (دی تھرسڈے ٹائمز) — پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے بانی عمران خان نے سول نافرمانی تحریک کے پہلے مرحلے میں بیرون ملک پاکستانیوں سے ترسیلات زر کے بائیکاٹ کی اپیل کرتے ہوئے کہا کہ یہ اقدام جمہوریت اور عوامی حقوق کی بحالی کے لیے ضروری ہے۔ انہوں نے کہا کہ عوام کو چاہیے کہ وہ موجودہ جبر کے نظام کے خلاف آواز اٹھائیں۔
سوشل میڈیا سائٹ ایکس پر اپنے ایک بیان میں عمران خان نے حکومت سے دو اہم مطالبات پیش کیے ہیں: سیاسی قیدیوں کی فوری رہائی اور 9 مئی و 26 نومبر کے واقعات کی شفاف تحقیقات کے لیے جوڈیشل کمیشن کا قیام۔ انہوں نے اتوار تک کی ڈیڈ لائن دیتے ہوئے کہا کہ اگر ان مطالبات پر عمل نہ ہوا تو سول نافرمانی تحریک کا آغاز کیا جائے گا، جس کا پہلا مرحلہ ترسیلات زر کے بائیکاٹ پر مبنی ہوگا۔
عمران خان کا سول نافرمانی کی تحریک کے حوالے سے اہم ترین پیغام !!
میں نے حکومت سے دو مطالبات کیے تھے
1) انڈر ٹرائل سیاسی قیدیوں کی رہائی
2 ) 9 مئی اور 26 نومبر کے واقعات کی شفاف تحقیقات کے لیے جوڈیشل کمیشن کا قیامیہ دونوں مطالبات جائز ہیں اور اگر حکومت ان پر اتوار کے روز تک…
— Imran Khan (@ImranKhanPTI) December 19, 2024
2014 سول نافرمانی
یہ پہلی بار نہیں کہ عمران خان نے سول نافرمانی تحریک کا اعلان کیا ہو۔ 2014 میں دھرنے کے دوران انہوں نے بجلی اور گیس کے بل نہ دینے کی اپیل کی تھی اور حکومت کی معاشی پالیسیوں کے خلاف سول نافرمانی کی تحریک چلائی۔ تاہم، عوامی حمایت حاصل نہ ہونے اور معاشی دباؤ کے باوجود حکومت پر کوئی خاص اثر نہ پڑنے کے باعث یہ تحریک ناکامی کا شکار ہوئی۔
سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا اس بار حالات مختلف ہیں؟ کیا بیرون ملک مقیم پاکستانی واقعی ترسیلات زر روکنے کی اپیل پر عمل کریں گے، یا یہ تحریک بھی پہلے کی طرح محض علامتی رہ جائے گی؟
کیا یہ تحریک خطرناک ہو سکتی ہے؟
سول نافرمانی تحریک کا براہ راست اثر پاکستان کی معیشت پر پڑ سکتا ہے، جو پہلے ہی کمزور ہے۔ ترسیلات زر کی معطلی سے زر مبادلہ کے ذخائر کم ہو سکتے ہیں، جس سے درآمدات اور بنیادی اشیاء کی قیمتوں میں اضافہ ممکن ہے۔ اس قسم کے اقدامات نہ صرف معیشت کو نقصان پہنچا سکتے ہیں بلکہ عوامی مشکلات میں بھی اضافہ کر سکتے ہیں۔
علاوہ ازیں، سیاسی بے یقینی کے ماحول میں سول نافرمانی جیسا اقدام معاشرتی تقسیم کو مزید گہرا کر سکتا ہے۔ حکومت کی جانب سے سخت ردعمل کی صورت میں یہ تحریک تحریک انصاف کیلئے مزید مشکلات پیدا کر سکتی ہے۔
کیا عمران خان کامیاب ہوں گے؟
موجودہ حالات میں عمران خان کیلئے کامیابی کی راہ آسان دکھائی نہیں دیتی۔ حکومت کے سخت رویے اور سول نافرمانی تحریک کیلئے عوامی حمایت میں کمی تحریک کی کامیابی کے امکانات کو کمزور کر سکتے ہیں۔ سیاسی تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ ترسیلات زر کے بائیکاٹ جیسا قدم عملی طور پر نافذ کرنا مشکل ہوگا، کیونکہ بیرون ملک پاکستانی اپنی فیملیز کی مالی ضروریات کیلئے ترسیلات زر بھیجنے پر مجبور ہیں۔
26 نومبر کے واقعات
عمران خان نے 26 نومبر کو پاکستان کی تاریخ کا سیاہ دن قرار دیتے ہوئے کہا کہ نہتے شہریوں پر سنائپرز کی فائرنگ کی گئی، کئی افراد زخمی ہوئے اور متعدد تاحال لاپتہ ہیں۔ انہوں نے حکومت پر الزام لگایا کہ گمشدہ افراد کو ڈھونڈنا اس کی ذمہ داری ہے لیکن وہ خاموشی اختیار کیے ہوئے ہے۔
مذاکرات کی پیشکش اور اس کے اثرات
عمران خان نے مذاکرات کی پیشکش کو اپنی کمزوری نہ سمجھنے کی بات کرتے ہوئے واضح کیا کہ یہ ملک کے وسیع تر مفاد میں کی گئی تھی۔ تاہم، حکومت کی جانب سے مثبت جواب نہ ملنے پر عمران خان نے سول نافرمانی کی تحریک کا اعلان کیا، جسے سیاسی حلقوں نے ایک دباؤ کی حکمت عملی قرار دیا ہے۔
معیشت کی تباہی کے خدشات
عمران خان نے کہا کہ موجودہ حکومت نے آئی ٹی انڈسٹری اور دیگر شعبوں کو ناقابل تلافی نقصان پہنچایا ہے، جس کے نتیجے میں کاروباری طبقہ اور سرمایہ دار ملک چھوڑنے پر مجبور ہو رہے ہیں۔ معیشت پہلے ہی بحران کا شکار ہے، اور اس تحریک کے بعد عوامی مشکلات میں مزید اضافہ ہو سکتا ہے۔
ماضی کے تجربات سے سیکھنے کی ضرورت
عمران خان کے لیے ضروری ہے کہ وہ 2014 کی ناکامی سے سبق سیکھتے ہوئے اس تحریک کو حقیقت پسندانہ حکمت عملی کے ساتھ آگے بڑھائیں۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ کسی بھی سیاسی تحریک کی کامیابی عوامی حمایت اور عملی منصوبہ بندی پر منحصر ہوتی ہے، جو اس وقت تحریک انصاف کیلئے ایک بڑا چیلنج ہے۔