اسلام آباد (تھرسڈے ٹائمز) — سابق پاکستانی سفیر حسین حقانی نے کہا ہے کہ ڈونلڈ ٹرمپ کے آنے کے بعد پی ٹی آئی (پاکستان تحریکِ انصاف) سمجھتی ہے کہ جیسے ٹرمپ کیا آیا ان کا کوئی عزیز رشتہ دار آ گیا جس کی حکومت ان کے حق میں ہو گی لیکن ایسا ہر گز نہیں، امریکی حکومت امریکا کے سٹریٹیجک مفادات کو سامنے رکھ کر فیصلے کرے گی، پاکستان پر ٹرمپ یا ان کی انتظامیہ کی جانب سے کبھی کوئی پابندیاں نہیں لگیں گی، امریکا کو کسی پاکستانی سے محبت نہیں، ریٹائرڈ حضرات کو چاہیے کہ گالف کھیلیں کیونکہ انہیں خارجہ پالیسی کی سمجھ نہیں ہے۔
امریکہ میں پاکستان کے سابق سفیر حسین حقانی نے ایک نجی نیوز چینل پر سینئر جرنلسٹ ابصار عالم کے پروگرام میں گفتگو کرتے ہوئے کہا ہے کہ خارجہ پالیسی کے بڑے بڑے فیصلوں میں آرام اور ٹھنڈے طریقہ سے بات کرنا بہتر ہوتا ہے لیکن ہمارے ہاں غل غپاڑے کے بغیر کوئی کام نہیں ہو سکتا، بھارت نے ایٹمی تجربات کیے تو اس کے بعد پاکستان پر بھی لازم ہو چکا تھا مگر تب اپوزیشن جماعتوں نے شور شرابہ شروع کر دیا۔
حسین حقانی نے کہا کہ اب پاکستان میں تحریکِ انصاف کی شکل میں ایک نیا فرقہ موجود ہے، ڈونلڈ ٹرمپ کے آنے کے بعد پی ٹی آئی سمجھتی ہے کہ جیسے ٹرمپ کیا آیا ان کا کوئی عزیز رشتہ دار آ گیا اور جیسے یہ حکومت ان کے حق میں ہو گی لیکن ایسا ہر گز نہیں ہے، امریکی حکومت امریکا کے سٹریٹیجک مفادات کو سامنے رکھ کر فیصلے کرے گی، امریکا کا مسئلہ چین ہے جس کیلئے امریکا کوشش کرے گا کہ پاکستان اور بھارت کی دوستی کروائے یا پھر پاکستان کو اس طرح ڈیل کرے کہ وہ چین کو کوئی عسکری اڈے فراہم نہ کرے۔
حسین حقانی کا کہنا تھا کہ پاکستان کی اندرونی سیاست کی وجہ سے پاکستان پر پابندیاں لگوانے کی کوششیں کی جا رہی ہیں لیکن پاکستان پر امریکی صدر ٹرمپ یا ان کی انتظامیہ کی جانب سے کبھی کوئی پابندیاں نہیں لگیں گی، یہ سارا شور پانی میں مدھانی ثابت ہو گا اور ایسا کرنے والوں کی ساری کوششیں رائیگاں جائیں گی کیونکہ یہ سب کچھ صرف شخصیت پرستی پر مبنی ہے اور اس میں کوئی پالیسی کا معاملہ نہیں ہے۔
پاکستان کی جانب سے اپریل 2008 سے نومبر 2011 تک امریکہ میں سفیر تعینات رہنے والے حسین حقانی کا کہنا تھا کہ امریکا کو کسی پاکستانی سے محبت نہیں، وہ پاکستان کی اندرونی سیاست کو اپنے سٹریٹیجک مقاصد کیلئے استعمال کرے گا اور وہ ہمیشہ اسے ہی مقدم رکھتا ہے، یہ کہنا کہ ’’امریکا نے نکلوایا تھا وہی واپس لائے گا‘‘ بچوں والی باتیں ہیں، امریکہ میں ایسے شخصیت پرست نوجوان نہیں جیسے پاکستان میں ’’خان نہیں تو پاکستان نہیں‘‘ کے نعرے لگانے والے ہیں، کسی شخصیت کے آنے یا جانے سے فرق نہیں پڑتا۔
حسین حقانی نے کہا کہ ریٹائرڈ حضرات کو چاہیے کہ گالف کھیلیں، اگر ان کو خارجہ پالیسی کی سمجھ ہوتی تو پاکستان کو خارجہ محاذ پر وہ تمام مشکلات نہ پیش آتیں جن کا ہمیں پچھلے چند برس سے سامنا کرنا پڑ رہا ہے، یہ تو کابل فتح کر کے سمجھ رہے تھے کہ وہاں طالبان آئیں گے اور پاکستان کا مستقبل محفوظ ہو جائے گا مگر وہ ہمارے ہی گلے پڑ گئے، جس کا جو شعبہ ہے اسے وہی کام کرنا چاہیے، خارجہ پالیسی کا کام انہی کو کرنے دیں جو اسے سمجھتے ہیں۔
سابق پاکستانی سفیر حسین حقانی نے مزید کہا کہ واٹس ایپ کے ذریعہ تقسیم ہو کر سوشل میڈیا پر آنے والے سازشی نظریات کے ذریعہ بین الاقوامی تعلقات کو سمجھنے کی کوشش کرنا احمقانہ طریقہ ہے۔