اسلام آباد (تھرسڈے ٹائمز) — سپریم کورٹ کے آئینی بینچ کے رکن جسٹس جمال خان مندوخیل نے کہا ہے کہ وزارتِ دفاع ایگزیکٹیو کا ادارہ ہے، ایگزیکٹیو کے خلاف اگر کوئی جرم ہو تو کیا وہ خود جج بن کر فیصلہ کر سکتا ہے؟ آئین میں اختیارات کی تقسیم بالکل واضح ہے کہ ایگزیکٹیو عدلیہ کا کردار ادا نہیں کر سکتا، آرمی ایکٹ کو صرف مسلح افواج تک محدود کیا گیا ہے، آئین کا آرٹیکل 8 تھری افواجِ پاکستان کے ڈسپلن اور کارکردگی کے حوالہ سے ہے۔
فوجی عدالتوں میں سویلینز کے ٹرائل کے خلاف انٹرا کورٹ اپیلز پر سماعت
سپریم کورٹ آف پاکستان کے 7 رکنی آئینی بینچ نے جسٹس امین الدین خان کی سربراہی میں سویلینز کے فوجی عدالتوں میں ٹرائل کے خلاف انٹرا کورٹ اپیلز پر سماعت کی ہے۔ آئینی بینچ میں جسٹس جمال خان مندوخیل، جسٹس محمد علی مظہر، جسٹس حسن رضوی، جسٹس مسرت ہلالی، جسٹس نعیم اختر افغان اور جسٹس شاہد بلال شامل ہیں۔
فوج کے ماتحت سویلینز کا کورٹ مارشل ہو سکتا ہے۔ خواجہ حارث
سماعت کے آغاز میں وزارتِ دفاع کے وکیل خواجہ حارث روسٹرم پر آئے اور دلائل کا آغاز کرتے ہوئے کہا کہ سپریم کورٹ نے ماضی میں قرار دیا کہ فوج کے ماتحت سویلینز کا کورٹ مارشل ہو سکتا ہے۔
جسٹس جمال خان مندوخیل نے استفسار کیا کہ موجودہ کیس میں متاثرہ فریق اور اپیل دائر کرنے والا کون ہے؟
وکیل خواجہ حارث نے بتایا کہ اپیل وزارتِ دفاع کی جانب سے دائر کی گئی ہے۔
وزارتِ دفاع ایگزیکٹیو کا ادارہ ہے، ایگزیکٹیو کے خود جج بن کر فیصلہ کر سکتا ہے؟ جسٹس جمال مندوخیل
جسٹس جمال خان مندوخیل نے سوال اٹھایا کہ وزارتِ دفاع ایگزیکٹیو کا ادارہ ہے، ایگزیکٹیو کے خلاف اگر کوئی جرم ہو تو کیا وہ خود جج بن کر فیصلہ کر سکتا ہے؟ آئین میں اختیارات کی تقسیم بالکل واضح ہے کہ ایگزیکٹیو عدلیہ کا کردار ادا نہیں کر سکتا۔
وزارتِ دفاع کے وکیل خواجہ حارث نے جواب دیا کہ کوئی اور فورم دستیاب نہ ہو تو ایگزیکٹیو فیصلہ کر سکتا ہے۔
جسٹس جمال خان مندوخیل نے ریمارکس دیئے کہ قانون میں انسدادِ دہشتگردی عدالتوں کا فورم موجود ہے، قانونی فورم کے ہوتے ہوئے ایگزیکٹیو خود کیسے جج بن سکتا ہے؟ آرمی ایکٹ کو صرف مسلح افواج کے ارکان تک محدود کیا گیا ہے۔
وکیل خواجہ حارث نے جواب دیا کہ آرمی ایکٹ صرف آرمڈ فورسز تک محدود نہیں، اس میں مختلف کیٹیگریز ہیں جس کے بارے میں آگے چل کر عدالت کو بتاؤں گا۔
آرمی ایکٹ کو صرف مسلح افواج تک محدود کیا گیا ہے۔ جسٹس جمال خان مندوخیل
جسٹس جمال خان مندوخیل نے کہا کہ آرمی ایکٹ کو صرف مسلح افواج کے ارکان تک محدود کیا گیا ہے، آئین کا آرٹیکل 8 تھری افواج کے ڈسپلن اور کارکردگی کے حوالہ سے ہے، کیا فوجداری معاملہ کو آرٹیکل 8 تھری میں شامل کیا جا سکتا ہے؟ آئین میں سویلینز کا نہیں پاکستان کے شہریوں کا ذکر ہے۔
بنیادی آئینی حقوق کی بنیاد پر آرمی ایکٹ کو چیلنج نہیں کیا جا سکتا۔ خواجہ حارث
وزارتِ دفاع کے وکیل خواجہ حارث نے جواب دیا کہ افواجِ پاکستان کے لوگ بھی اتنے ہی شہری ہیں جتنا کہ دوسرے شہری ہیں۔
جسٹس جمال خان مندوخیل نے کہا کہ یہی تو سوال ہے کہ افواجِ پاکستان کے لوگوں کو بنیادی حقوق سے محروم کیسے کیا جا سکتا ہے؟
خواجہ حارث نے کہا کہ بنیادی آئینی حقوق کی بنیاد پر آرمی ایکٹ کو چیلنج نہیں کیا جا سکتا۔
کوئی شہری فوج کا حصہ بن جائے تو کیا بنیادی حقوق سے ہاتھ دھو بیٹھتا ہے؟ جسٹس جمال مندوخیل
جسٹس جمال مندوخیل نے سوال اٹھایا کہ کوئی شہری فوج کا حصہ بن جائے تو کیا بنیادی حقوق سے ہاتھ دھو بیٹھتا ہے؟ ملٹری کورٹس کا معاملہ آئین کے آرٹیکل 175 سے الگ ہے، کوئی شہری روکنے کے باوجود کسی فوجی چوکی کے پاس جانا چاہے تو کیا ہو گا؟ کیا نہ رکنے کے الزام پر اس کا ملٹری کورٹ میں ٹرائل کیا جائے گا؟
خواجہ حارث نے جواب دیا کہ یہ تو آپ نے ایک صورتحال بتائی ہے، اس پر کچھ نہیں کہہ سکتا۔
جسٹس مسرت ہلالی نے ریمارکس دیئے کہ یہ تو سب سے متعلقہ سوال ہے۔
جسٹس محمد علی مظہر نے کہا کہ اس سوال کا جواب بہت سادہ سا ہے، اگر وہ شہری آرمی ایکٹ میں درج جرم کا مرتکب ہوا تو ٹرائل چلے گا، صرف چوکی کے باہر کھڑے ہونے پر تو کچھ نہیں ہو گا۔
سماعت کل تک ملتوی
بعدازاں سپریم کورٹ می۔ فوجی عدالتوں (ملٹری کورٹس) میں سویلینز کے ٹرائل کے خلاف انٹرا کورٹ اپیلز پر سماعت کل تک ملتوی کر دی گئی جبکہ آئینی بینچ نے کل سماعت کیلئے مقرر دیگر تمام مقدمات منسوخ کر دیئے۔ جسٹس امین الدین خان نے کہا کہ کل بھی صرف فوجی عدالتوں کا کیس ہی سنا جائے گا۔
حفیظ اللّٰہ نیازی
سماعت کے اختتام پر حفیظ اللّٰہ نیازی روسٹرم پر آ گئے۔
جسٹس امین الدین خان نے کہا کہ آپ سیاسی بات کریں گے۔
حفیظ اللّٰہ نیازی نے جواب دیا کہ میں سیاسی بات بالکل نہیں کروں گا، ملزمان کو فیصلوں کے بعد جیلوں میں منتقل کر دیا گیا ہے لیکن انہیں وہ حقوق نہیں دیئے جا رہے جو عام جیلوں میں دیگر قیدیوں کو حاصل ہیں۔
حفیظ اللّٰہ نیازی نے مزید کہا کہ قیدیوں سے جیلوں میں رویہ بھی فوج کی حراست جیسا ہی ہے، جو سزائیں سنائی گئی ہیں ان میں وجوہات بیان نہیں کی گئیں۔
سانحہ 9 مئی کے ملزمان کے ساتھ رویہ سے متعلق رپورٹ طلب
بعدازاں سپریم کورٹ آف پاکستان کے آئینی بینچ نے جیلوں میں 9 مئی ملزمان کے ساتھ رویہ کے حوالے سے ایڈووکیٹ جنرل پنجاب سے رپورٹ طلب کر لی۔