بھارت پاکستان میں دہشتگردی کا مرکزی سپانسر ہے۔ ڈی جی آئی ایس پی آر

جعفر ایکسپریس حملہ بھارتی پالیسی کا تسلسل ہے، بھارت پاکستان میں دہشتگردی کا مرکزی سپانسر ہے، بھارتی میڈیا جعلی ویڈیوز کے ذریعہ پروپیگنڈا کرتا رہا اور حملے کو کارنامے کے طور پر پیش کیا، دہشتگرد افغانستان میں اپنے ہینڈلرز سے مسلسل رابطے میں تھے

اسلام آباد (تھرسڈے ٹائمز) — ڈی جی آئی ایس پی آر لیفٹیننٹ جنرل احمد شریف نے کہا ہے کہ جعفر ایکسپریس پر حملہ کرنے والے دہشتگرد افغانستان میں اپنے ہینڈلرز سے مسلسل رابطے میں تھے، دہشتگردوں کے پاس غیر ملکی اسلحہ اور آلات موجود تھے، یہ دہشتگردی کا ایک اور واقعہ ہے جس کے تانے بانے پڑوسی ملک افغانستان سے ملتے ہیں، جعفر ایکسپریس پر حملہ بھارتی پالیسی کا تسلسل ہے، بھارت پاکستان میں دہشتگردی کا مرکزی سپانسر ہے، دہشتگردی کے سوشل و پرنٹ اور الیکٹرونک میڈیا کے ذریعہ پھیلاؤ کو روکا جائے گا، افغانستان میں ہر قسم کی دہشتگردی کو سپیس مل رہی ہے، بھارتی میڈیا جعلی ویڈیوز کے ذریعہ پروپیگنڈا کرتا رہا، بھارتی میڈیا نے ٹرین پر حملے کو کارنامے کے طور پر پیش کیا۔

ڈی جی آئی ایس پی آر کی وزیرِ اعلٰی بلوچستان کے ہمراہ پریس کانفرنس

جعفر ایکسپریس پر دہشتگرد حملہ سے متعلق وفاقی دارالحکومت اسلام آباد میں وزیرِ اعلٰی بلوچستان سرفراز بگٹی کے ہمراہ اہم پریس کانفرنس کرتے ہوئے پاک فوج کے ترجمان لیفٹیننٹ جنرل احمد شریف نے کہا ہے کہ جعفر ایکسپریس پر حملہ میں دہشتگردوں نے منظم انداز میں کارروائی کی، واقعہ انتہائی دشوار گزار علاقہ میں پیش آیا، ٹرین سے پہلے دہشتگردوں کی بڑی تعداد نے ایف سی چیک پوسٹ پر حملہ کیا جہاں 3 جوان شہید ہوئے، دہشتگردوں نے آئی ای ڈی کی مدد سے ریلوے ٹریک کو دھماکے سے اڑایا اور مسافروں کو ٹرین سے اتار کر ٹولیوں میں تقسیم کیا۔

جعفر ایکسپریس پر دہشتگردوں کا حملہ

انٹر سروسز پبلک ریلیشنز کے ڈائریکٹر جنرل (ڈی جی) احمد شریف نے کہا کہ دہشتگردوں نے 11 مارچ کی رات یرغمالیوں کے ایک گروپ کو لسانی بنیاد پر چھوڑا جس کی کچھ لاجسٹک وجوہات تھیں کہ اتنے لوگوں کو قابو نہیں کیا جا سکتا، دوسرا یہ کہ انہیں اپنے بارے میں انسانیت دوست ہونے کا تاثر دینا تھا، دہشتگردوں نے اپنے کچھ ساتھیوں کو ٹرین پر چھوڑا اور ایک بڑی تعداد پہاڑوں میں اپنے ٹھکانوں کی جانب چلی گئی جن کی نگرانی کرنے کے بعد سیکیورٹی فورسز نے انہیں نشانہ بنا کر ختم کیا اور ایسا پہلی مرتبہ ہوا ہے، جب یہ واقعہ پیش آیا تو فزیکل ایکٹیویٹی چل رہی تھی، خودکش بمباروں کی موجودگی کی وجہ سے محتاط انداز میں آپریشن کیا گیا، جو دہشتگرد ٹرین کی سائیڈ پر تھے وہ تمام مارے جا چکے تھے۔

دہشتگرد افغانستان میں اپنے ہینڈلرز سے مسلسل رابطے میں تھے

لیفٹیننٹ جنرل احمد شریف نے بتایا کہ دہشتگردی کی پوری کارروائی کے دوران دہشتگرد افغانستان میں اپنے ہینڈلرز سے مسلسل رابطے میں تھے، ہماری فورسز نے 12 مارچ کی صبح سنائپرز کے ذریعہ دہشتگردوں کو نشانہ بنایا تو یرغمالیوں کا ایک گروپ دہشتگردوں کے چنگل سے بھاگ نکلا جنہیں ایف سی کے جوانوں نے ریسکیو کیا جبکہ دہشتگردوں کی فائرنگ سے کچھ یرغمالی شہید بھی ہوئے، سپیشل سروسز گروپ (ایس ایس جی) کی ضرار کمپنی نے 12 مارچ کی دوپہر آپریشن کی کمان سنبھالی اور یرغمالیوں کے درمیان موجود خودکش بمباروں کو سنائپر کی مدد سے نشانہ بنایا تو یرغمالیوں کو پھر بچ نکلنے کا موقع ملا اور وہ دہشتگردوں کے نرغے سے نکل کر مختلف سمتوں میں بھاگ نکلے۔

ضرار کمپنی کا دہشتگردوں کے خلاف کامیاب آپریشن

ڈی جی آئی ایس پی آر کا کہنا تھا کہ ٹرین کے باہر سے یرغمالی فرار ہونے میں کامیاب ہوئے تو ایس ایس جی کی ضرار کمپنی کے جوان انجن کے راستے ٹرین میں داخل ہوئے اور بوگی بہ بوگی پوری ٹرین کو دہشتگردوں سے پاک کیا اور یرغمال بنائے گئے خواتین اور بچوں کو ریسکیو کیا، آپریشن اس قدر مہارت سے کیا گیا کہ پوری کارروائی کے دوران کسی یرغمالی کی جان نہیں گئی، جو شہادتیں ہوئیں وہ آپریشن شروع کیے جانے سے قبل ہوئیں، دہشتگردوں نے 24 گھنٹوں کے دوران کئی یرغمالیوں کو شہید کیا تاہم آپریشن کے دوران وہ چاہ کر بھی کسی کی جان نہیں لے سکے، دوران آپریشن ضرار کمپنی کی جانب ایک سنائپر کا فائر آیا تھا، بعدازاں مذکورہ دہشتگرد کو بھی نشانہ بنایا گیا۔

دہشتگردوں کے پاس غیر ملکی اسلحہ اور آلات موجود تھے

ڈائریکٹر جنرل (ڈی جی) انٹر سروسز پبلک ریلیشنز نے آپریشن کے مختلف مراحل اور یرغمالیوں کی محفوظ مقام پر منتقلی کی ویڈیوز دکھاتے ہوئے بتایا کہ دہشتگردوں کے پاس غیر ملکی اسلحہ اور آلات موجود تھے، آپریشن میں بازیاب ہونے والے مسافروں کو خوراک مہیا کی گئی اور فورسز کی نگرانی میں محفوظ مقام پر منتقل کیا گیا، تاریخ میں ٹرین کو یرغمال بنانے کے جتنے واقعات ہیں ان میں یہ واقعہ آپریشن کے حوالے سے کامیاب ترین تھا جہاں 36 گھنٹے کے اندر انتہائی دور افتادہ مقام پر خودکش بمباروں کی موجودگی کے باوجود پاک فوج، ایئر فورس اور ایف سی نے پوری منصوبہ بندی کے ساتھ اس آپریشن کو مکمل کیا۔

بھارت پاکستان میں دہشتگردی کا مرکزی سپانسر ہے

لیفٹیننٹ جنرل احمد شریف نے سکرین پر ہلاک دہشتگردوں کی تصاویر دکھاتے ہوئے کہا کہ یہ دہشتگردی کا ایک اور واقعہ ہے جس کے لنکس پڑوسی ملک افغانستان سے ملتے ہیں، یہ جاری عمل کا ایک حصہ ہے کیونکہ یہاں جو تشکیلات آتی ہیں ان میں افغانی حصہ ہوتے ہیں، یہاں جو خودکش بمبار آتے ہیں وہ افغانی ہوتے ہیں، حال ہی میں ہلاک ہونے والا خارجی بدرالدین نائب گورنر صوبہ باغدیس کا بیٹا تھا، خارجی مجیب الرحمٰن افغانستان کی آرمی میں ایک بٹالین کمانڈر تھا اور یہ پاکستان میں دہشتگردی کر رہا تھا، اسی طرح بنوں واقعہ میں بھی افغان دہشتگرد ملوث تھے، ان کے پاس سے جو ہتھیار ملے وہ بھی افغانستان سے لائے گئے تھے لیکن جو بلوچستان میں واقعہ ہوا ہے اور اس سے پہلے جو واقعات ہوئے ہیں، اس کا مرکزی سپانسر مشرقی پڑوسی (بھارت) ہے۔

گرفتار بھارتی جاسوس کلبھوشن یادیو کے اعترافی ویڈیو بیانات

پاک فوج کے ترجمان نے گرفتار بھارتی جاسوس کلبھوشن یادیو کے اعترافی ویڈیو بیانات دکھائے جن میں وہ کہہ رہا ہے کہ ’’را (بھارتی خفیہ ایجنسی) کا ہدف اور مقصد بلوچستان میں دہشتگردی کی متعدد کارروائیاں ہیں، میرا پاکستان آنے کا مقصد بلوچ قوم پرستوں کے ساتھ ملاقات کرنا ہے اور را کے 30 سے 40 کارندوں کے ساتھ مکران کوسٹ کے اطراف بلوچ قوم پرستوں کے ساتھ کارروائی کرنا ہے اور مقصد یہ ہے کہ را کے کارندے فیلڈ میں رہیں کہ وہ بلوچ قوم پرستوں کی مدد اور ان کی سہولت کاری کر سکیں تاکہ وہ مخصوص اہداف کو نشانہ بنا سکیں اور ملٹری طرز کا آپریشن کیا جا سکے کیونکہ بلوچستان کی تحریک سمندر کے ذریعہ نہیں ہوتی، مقصد یہ ہے کہ بلوچ قوم پرستوں کو محفوظ زمین فراہم ہو سکے اور یہ سمندر کی طرف سے مکمل طور پر کوآرڈینیڈ ہو‘‘۔

بھارتی آرمی چیف اور ہتھیار ڈالنے والے بلوچوں کے بیانات

ڈی جی آئی ایس پی آر نے بھارتی آرمی چیف کا بھی چلایا جس میں وہ کہہ رہا ہے کہ ’’اگر ہم قوم پرست تحریکوں کو بڑھاوا دیتے ہیں تو اگر ہم تیل پھینکیں گے تو یقیناً پاکستان فوج جو ان کا اندرونی ماحول ہے۔۔‘‘ اور پھر ہتھیار ڈالنے والے بلوچوں کا بیان بھی دکھایا گیا جس میں وہ کہہ رہے ہیں کہ ’’کوئی جنگ نہیں ہو رہی، لوگ صرف اپنے ذاتی مفادات کیلئے عام بلوچوں کو مروا رہے ہیں، اس تمام سازشوں میں خاص کر بھارت کا ہاتھ ہے‘‘۔

جعفر ایکسپریس پر حملہ بھارتی پالیسی کا تسلسل ہے

انٹر سروسز پبلک ریلیشنز (آئی ایس پی آر) کے ڈائریکٹر جنرل (ڈی جی) نے بتایا کہ اس لیے جعفر ایکسپریس پر حملے کا واقعہ ہوا ہے، یہ اسی بھارتی پالیسی کا تسلسل ہے اور وہیں سے کہا گیا کہ یہ کام کرنا ہے، ہم اللّٰه کا شکر ادا کرتے ہیں اور سلام پیش کرتے ہیں ان بہادر جوانوں کو جنہوں نے اپنی منصوبہ بندی اور دلیری سے ایک انتہائی خطرناک صورتحال سے بےگناہ جانوں کو بچایا۔

نیشنل ایکشن پلان اور 14 نکات

انہوں نے ایک سوال کے جواب میں کہا کہ یہ جو گرد ہے اس کے خلاف افواجِ پاکستان اور قانون نافذ کرنے والے ادارے لڑتے ہیں، دہشتگردی کے خلاف پوری قوم نے لڑنا ہوتا ہے، اگر آپ احاطہ کریں تو 2014 کے نیشنل ایکشن پلان کے ذریعہ اتفاقِ رائے ہوا تھا جس میں تمام سیاسی جماعتوں اور سٹیک ہولڈرز نے بیٹھ کر فیصلہ کیا تھا، اسی طرح گزشتہ حکومت نے نظرِثانی شدہ نیشنل ایکشن پلان دیا تھا جس میں 14 نکات تھے اور وہی 14 نکاتی ویژن عزمِ استحکام میں شامل ہے، تمام سٹیک ہولڈرز متفق ہیں کہ یہ 14 کام کریں گے تو دہشتگردی کا خاتمہ ہو گا۔

دہشتگردی کے سوشل، پرنٹ اور الیکٹرونک میڈیا کے ذریعہ پھیلاؤ کو روکا جائے گا

لیفٹیننٹ جنرل احمد شریف کا کہنا تھا کہ ان 14 پوائنٹس میں ایک کا تعلق کائنیٹک کے ساتھ ہے کہ کسی ملٹری یا مسلح گروپ کو آپریٹ کرنے کی اجازت نہیں دی جائے گی، اگلا پوائنٹ ہے کہ دہشتگردی کے سوشل، پرنٹ اور الیکٹرونک میڈیا کے ذریعہ پھیلاؤ کو روکا جائے، اسی طرح مذہبی فرقہ ورانہ دہشتگردی کے حوالہ سے مؤثر اقدامات کیے جائیں گے جبکہ یہ بھی پوائنٹ ہے کہ ٹیرر فنانسنگ کو روکا جائے گا، غیر قانونی سپیکٹرم پر قابو پایا جائے گا جبکہ اس سے اگلا پوائنٹ ہے کہ انسدادِ دہشتگردی کے کیسز پر عدالتوں میں مستعدی سے کام کیا جائے گا، محکمہ انسدادِ دہشتگردی کی صلاحیت کو بڑھایا جائے گا اور مدارس کی ریگولیشن اور رجسٹریشن کی جائے گی۔

دہشتگردی کے خلاف انٹیلیجنس بیسڈ آپریشنز

ڈائریکٹر جنرل (ڈی جی) انٹر سروسز پبلک ریلیشنز نے بتایا کہ 2014 میں قانون نافذ کرنے والے اداروں نے 59 ہزار 775 انٹیلیجنس بیسڈ چھوٹے بڑے آپریشنز کیے جبکہ 2025 میں مارچ کے وسط تک 11 ہزار 654 انٹیلیجنس بیسڈ آپریشنز کیے، یعنی روزانہ اوسطاً 180 آپریشنز کر رہے ہیں اور 1250 کے قریب دہشتگرد 2024 اور 2025 میں واصل جہنم کیے جا چکے ہیں، پاکستانی عوام کی حفاظت کی راہ میں 563 جوان اپنی جان اللّٰه کو سپرد کر چکے ہیں، ہر وقت اور ہر لمحہ کام ہو رہا ہے اور اس کیلئے جانیں دی جا رہی ہیں۔

افغانستان میں ہر قسم کی دہشتگردی کو سپیس مل رہی ہے

ترجمان پاک فوج نے کہا کہ دہشتگردی بڑھنے کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ افغانستان میں ہر قسم کی دہشتگردی کو آہستہ آہستہ سپیس مل رہی ہے، افغانستان میں فتنہ خوارج کے مراکز ہیں اور وہاں ان کی قیادت موجود ہے، وہاں ان کی تربیت ہو رہی ہے، جب افغانستان سے اتحادی افواج کا انخلا ہوا ہے تو نائٹ ویژن ڈیوائسز بڑی تعداد میں وہاں پر موجود ہیں جو ان دہشتگرد تنظیموں کو دستیاب ہیں، بنوں واقعے میں بھی افغان دہشتگرد ملوث تھے۔

ایرانی پیٹرول اور ڈیزل کی سمگلنگ

ڈی جی آئی ایس پی آر کا کہنا تھا کہ اسی طرح اگلی وجہ یہ ہے کہ ہمیں لازمی تسلیم کرنا ہو گا کہ پہلی بار ریاست پاکستان اس غیر قانونی سپیکٹرم کے خلاف جہاد کر رہی ہے جس میں نارکو، سمگلنگ اور نان کسٹم پیڈ وہیکلز شامل ہیں اور جس میں ایرانی پیٹرول اور ڈیزل کا بہت بڑا مافیا شامل ہے، یہ سینکڑوں ارب ڈالرز کا مافیا ہے جو نہیں چاہتا کہ یہ کام ختم ہو، ریاست کے دشمن نہیں چاہتے کہ پاکستان اپنے پوٹیشنل پر ترقی کرے اور ان دشمنوں کے کوئی نظریات نہیں ہیں۔

بھارتی میڈیا جعلی ویڈیوز کے ذریعہ پروپیگنڈا کرتا رہا

واقعہ سے متعلق سوشل، پرنٹ اور الیکٹرونک میڈیا پر چلنے والی جعلی ویڈیوز دکھاتے ہوئے کہا کہ اس واقعہ کے ساتھ ہی دہشتگردوں کی حمایت میں انفارمیشن وار بھی چلنا شروع ہو گئی جس کو بھارتی میڈیا لیڈ کر رہا تھا، سوشل میڈیا پر ٹرین واقعہ کی اے آئی (آرٹیفیشل انٹیلیجنس) سے یہ جعلی ویڈیوز بنائی گئیں اور بھارتی میڈیا ان جعلی ویڈیوز کے ذریعہ پروپیگنڈا کرتا رہا، جعلی ویڈیوز کے ذریعہ پاکستان کے خلاف بیانیہ بنانے کی کوشش کی گئی، بھارتی میڈیا نے جھوٹی ویڈیوز سے ملکی تشخص خراب کرنے کی کوشش کی، بھارتی میڈیا نے ٹرین پر حملے کو کارنامے کے طور پر پیش کیا۔

لاپتہ افراد کا مسئلہ

لاپتہ افراد کے حوالے سے بات کرتے ہوئے ڈی جی آئی ایس پی آر کا کہنا تھا کہ اس مسئلہ پر ایک کمیشن بنا ہوا ہے اور یہ 2011 سے کام کر رہا ہے جو بھی دعویٰ کرتے ہیں کہ مسنگ پرسنز ہیں انہیں حق حاصل ہے کہ اس کمیشن کے پاس جائیں، اس کمیشن کے پاس 10 ہزار 405 کیسز لائے گئے جن میں 8 ہزار 144 کیسز حل ہو چکے ہیں اور ابھی 2261 کیسز پر تحقیقات ہو رہی ہیں، بلوچستان میں اس کمیشن پر 2 ہزار 911 کیسز رپورٹ ہوئے ہیں جن میں صرف 452 رہ گئے ہیں باقی سب حل ہو چکے ہیں، ریاست اس مسئلہ کو حل کر رہی ہے تاہم ریاست کی طرف سے بھی کچھ سوالات بنتے ہیں، یہ جو بی ایل اے ہے اس میں کون لوگ ہیں؟ ان کی فہرست کہاں ہے؟ آپ وہ لسٹ دے دیں، کیا وہ مسنگ پرسنز نہیں ہیں؟ فتنہ خوارج کی فہرست دے دیں۔

بی ایل اے میں کون لوگ ہیں؟

ڈی جی آئی ایس پی آر کا کہنا تھا کہ بلوچستان میں جو لوگ تربیتی مراکز میں ہیں ان کی فہرست دے دیں کہ وہ کون لوگ ہیں اور ان کا کیا سٹیٹس ہے؟ یہ انسانی سمگلنگ میں آپ کے بچے ڈوب جاتے ہیں، ان میں سے کافی مسنگ ہیں، کراچی میں ہر روز فٹ پاتھ پر جو محنت مزدوری کرنے آتے ہیں ان میں کئی لوگ اللّٰه کو پیارے ہو جاتے ہیں، لاوارث قرار دے کر انہیں دفنا دیا جا چکا ہوتا ہے، سینکڑوں بلکہ ہزاروں لوگوں کو دفنایا جا چکا ہے، کسی کے وہ مسنگ ہیں۔

کیا دہشتگردی کے ہاتھوں شہید ہونے والوں کے بچے انہیں ’’مس‘‘ نہیں کرتے؟

لیفٹیننٹ جنرل احمد شریف نے کہا کہ امریکا، برطانیہ اور بھارت میں بھی مسنگ پرسنز ہیں، کس ملک میں کہاں پر وہ اپنی افواج پر اور اپنے اداروں پر چڑھ دوڑتے ہیں؟ اگر یہ مسنگ ہیں تو پاکستان میں جو ہزاروں لوگ اس دہشتگردی کے ہاتھوں شکار ہوئے ہیں جس میں سویلین، فوج کے جوان اور پولیس والے بھی ہیں کیا ان کے بچے اپنے ماں باپ کو مس نہیں کرتے؟ وہ اپنے شہید باپ کو مس نہیں کرتے؟

جعفر ایکسپریس حملہ، جانی نقصانات

جعفر ایکسپریس پر حملے میں ہونے والے جانی نقصانات سے متعلق سوال کے جواب میں ڈی جی آئی ایس پی آر نے بتایا کہ مجموعی طور پر 26 شہادتیں ہوئیں جبکہ 354 یرغمالیوں کو زندہ بازیاب کروایا گیا ہے جن میں 37 زخمی بھی شامل ہیں، شہداء میں سے 18 شہدا کا تعلق آرمی اور ایف سی سے ہے جبکہ 3 ریلوے اور دیگر محکموں سے تعلق رکھتے ہیں اور 5 عام شہری تھے، پوری کارروائی کے دوران ایف سی کی 5 آپریشنل شہادتیں بھی ہوئی ہیں جن میں 3 جوانوں کو دہشتگردوں نے ٹرین کو نشانہ بنانے سے قبل چوکی پر حملہ کر کے شہید کیا، ایف سی کا ایک جوان 12 مارچ کی صبح دہشتگردوں کو نشانہ بنانے کے دوران فائرنگ کے تبادلہ میں شہید ہوا، اس جوان کی فائرنگ کے نتیجے میں یرغمالیوں کو دہشگردی کے شکنجہ سے بھاگ نکلنے کا موقع ملا، ٹرین میں ڈیوٹی پر مامور ایف سی کے جوان کی بھی حملے کے دوران شہادت ہوئی ہے۔

وزیرِ اعلٰی بلوچستان سرفراز بگٹی

صوبہ بلوچستان کے وزیرِ اعلٰی سرفراز بگٹی نے پریس کانفرنس کانفرنس کے دوران گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ پاکستان کی بہادر مسلح افواج و ایف سی بلوچستان اور دیگر قانون نافذ کرنے والے اداروں نے جس طرح مشکل علاقے میں آپریشن کیا اور جس طریقے سے یرغمالیوں کو ریسکیو کیا گیا وہ قابلِ تحسین ہے، بدامنی پھیلانے والے عناصر سے کوئی رعایت نہیں برتی جائے گی، علیحدگی پسندوں سے دہشتگردوں جیسا برتاؤ کرنے کا فیصلہ کیا ہے، جعفر ایکسپریس پر حملے کی مذمت کرنے پر امریکا، چین، روس، برطانیہ، ترکی ،اردن، متحدہ عرب امارات، بحرین، یورپ، اقوامِ متحدہ کے جنرل سیکرٹری اور یورپی سفیر کا شکریہ ادا کرتا ہوں۔

ان واقعات کا بلوچ روایات سے کوئی تعلق نہیں، دہشتگردوں کو بلوچ نہ کہا جائے

وزیرِ اعلٰی بلوچستان نے کہا کہ اس طرح کے واقعات کا بلوچ روایات سے کوئی تعلق نہیں، بلوچ روایتوں کے امین ہیں مگر دہشتگردوں نے ان تمام روایات کو پامال کر دیا ہے، اس لیے میں کہتا ہوں کہ انہیں بلوچ نہ کہا جائے، جس طرح اسلام کے نام پر دہشتگردی کرنے والے خوارج کا اسلام سے کوئی تعلق نہیں اسی طرح بلوچیت کے نام پر دہشتگردی کرنے والوں کا بلوچیت سے کوئی تعلق نہیں، اس لڑائی کا بلوچیت اور حقوق سے کوئی تعلق نہیں، یہ خالصتاً شیطانی قوتیں اور دہشتگرد ہیں جو پاکستان کو عدم استحکام سے توڑنا چاہتے ہیں۔

میں گواہ ہوں کہ ہماری انٹیلیجنس ایجنسیز کس طرح کام کر رہی ہیں

سرفراز بگٹی کا کہنا تھا کہ بلوچستان کو سمجھنے کی ضرورت ہے کہ یہاں ہزاروں کلومیٹر سڑکیں ایسی ہیں جہاں نہ کوئی آبادی ہے نہ کوئی گاؤں، دو سو یا تین سو کلومیٹرز دور آپ کو ایک گھر نظر آئے گا تو ایسی صورتحال میں ٹرین کو سیکیورٹی دینا ہوتی ہے، میں گواہ ہوں کہ ہماری انٹیلیجنس ایجنسیز کس طرح کام کر رہی ہیں، تربت میں 280 کلوگرام دھماکہ خیر مواد ایف سی ہیڈکوارٹر کے پاس ملا اور اگر وہ پھٹ جاتا تو کتنی تباہی ہوتی لیکن ہماری انٹیلیجنس ایجنسیز نے دہشتگردی کا منصوبہ ناکام بنا دیا۔

افغان سرزمین ہمارے خلاف استعمال ہو رہی ہے

وزیرِ اعلٰی بلوچستان سرفراز بگٹی نے افغانستان سے متعلق بات کرتے ہوئے کہا کہ افغان سرزمین ہمارے خلاف استعمال ہو رہی ہے اور بہت پہلے سے ہو رہی ہے، انہوں نے دوحہ میں دنیا کے ساتھ معاہدہ کیا ہے کہ ان کی سرزمین کسی اور کے خلاف استعمال نہیں ہو گی، یہ دنیا کو بھی سوچنا پڑے گا کہ یہ خطرہ صرف پاکستان کیلئے نہیں ہے۔

ازخود لاپتہ اور زبردستی لاپتہ افراد میں فرق ہے

لاپتہ افراد اور دہشتگردی کے تعلق کے بارے میں سوال کے جواب میں وزیرِ اعلٰی بلوچستان سرفراز بگٹی نے کہا کہ ایک شخص بھی لاپتہ ہے تو اس کا کوئی جواز پیش نہیں کیا جا سکتا، آپ نے دیکھنا ہے کہ ازخود لاپتہ اور زبردستی لاپتہ ہونے والوں میں بڑا فرق ہے، اگرچہ یہ حکومت کی ڈیوٹی ہے کہ ڈھونڈیں کہ وہ کہاں ہیں تاہم اگر اسے ریاست کے خلاف پروپیگنڈا ٹول کے طور پر استعمال کیا جائے تو اس کی مذمت کرنی چاہیے۔

دہشتگردوں کا مقصد پاکستان کو توڑنا ہے

سرفراز بگٹی کا کہنا تھا کہ کیا صرف پاکستان میں لاپتہ افراد ہیں؟ دنیا کے ترقی یافتہ ممالک میں مسنگ پرسنز کی تعداد کیا ہے؟ امریکا اور برطانیہ اور پھر خطہ میں کتنے افراد لاپتہ ہیں؟ پاکستان میں خیبرپختونخوا اور دیگر جگہوں پر بھی یہ مسئلہ ہے لیکن بلوچستان والے کو بار بار دوہرایا کیوں جاتا ہے؟ دہشتگرد اس بنیاد پر نہیں لڑ رہا، دہشتگردی کا کوئی تعلق پسماندگی سے نہیں، یہ بحث ہی ٹھیک نہیں، دہشتگردوں کا مقصد ملک کو توڑنا ہے اور وہ تشدد کے ذریعہ کرنا چاہتے ہیں۔

LEAVE A COMMENT

Please enter your comment!
Please enter your name here
This site is protected by reCAPTCHA and the Google Privacy Policy and Terms of Service apply.

The reCAPTCHA verification period has expired. Please reload the page.

خبریں

The latest stories from The Thursday Times, straight to your inbox.

Thursday PULSE™

More from The Thursday Times

error: