تجزیہ: پاکستانی معیشت ایک معجزہ بن چکی ہے، امریکی اخبار بارونز

پاکستان گزشتہ دو سالوں میں ایک معاشی معجزہ کر چکا ہے، ملکی معیشت کو اب کوئی خطرہ لاحق نہیں، افراطِ زر 40 فیصد سے صفر پر آ چکی ہے، بھارت کے ساتھ حالیہ مسلح کشیدگی بھی پاکستان کو معاشی طور پر پٹری سے نہیں اتار سکی۔

نیویارک (تھرسڈے ٹائمز) — امریکی اخبار ’’بارونز‘‘ کے مطابق پاکستان اب معاشی طور پر مستحکم حالت میں آ چکا ہے اور گزشتہ دو سالوں میں ایک معاشی معجزہ کر چکا ہے، وہ افراطِ زر جو کبھی 40 فیصد کے قریب تھی اب صفر پر آ چکی ہے جبکہ یورو بانڈز کی قدر 40 سینٹس فی ڈالر سے بڑھ کر 80 سینٹس فی ڈالر ہو گئی ہے اور کراچی میں قائم پاکستانی سٹاک ایکسچینج انڈیکس 3 گنا بڑھ چکا ہے۔

بارونز کے مطابق وزیراعظم شہباز شریف کی حکومت نے گزشتہ ستمبر میں انٹرنیشنل مانیٹری فنڈ (آئی ایم ایف) سے 7 ارب ڈالرز کا مستحکم معاہدہ کیا جس میں 2 ارب ڈالرز سے زائد رقم پہلے ہی جاری کی جا چکی ہے، پاکستان کو اب معاشی طور پر کوئی خطرہ لاحق نہیں ہے، بھارت کے ساتھ حالیہ مسلح کشیدگی بھی پاکستان کو معاشی طور پر پٹری سے نہیں اتار سکی۔

نیو یارک میں قائم بین الاقوامی سطح کے اخبار نے لکھا ہے کہ پاکستان 1950 میں آئی ایم ایف فنڈ میں شامل ہوا جس کے بعد موجودہ آئی ایم ایف بیل آؤٹ پیکیج پاکستان کا 24واں پیکیج ہے، پاکستان کی تاریخ اتار چڑھاؤ سے بھرپور رہی ہے تاہم اب کچھ ایسے مثبت اشاریے مل رہے ہیں کہ جن کے مطابق صورتحال مختلف ہو گی، پاکستانی معیشت ایک معجزہ بن چکی ہے۔

غالب گمان تھا کہ پاکستان 2023 میں سری لنکا کے ساتھ ڈیفالٹ کر جائے گا، پاکستان نے تباہ کن سیلاب کا سامنا کیا جبکہ روس کے یوکرین پر حملے کے بعد تیل کی قیمتوں میں بھی اضافہ ہو گیا، پھر ملک میں سیاسی ہلچل رونما ہوئی جب اُس وقت کے وزیراعظم عمران خان کو تحریکِ عدم اعتماد کے تحت اقتدار سے بےدخل کر دیا گیا، بعدازاں عمران خان کو کرپشن کے جرم میں قید کر دیا گیا۔

اس کے بعد پاکستان کے مرکزی بینک (سٹیٹ بینک آف پاکستان) نے شرح سود 10 فیصد سے بڑھا کر 22 فیصد کر دی جس سے ملک مندی کا شکار تو ہوا لیکن پھر مہنگائی میں کمی ہوئی، موجودہ وزیراعظم شہباز شریف نے فروری 2024 میں الیکشن جیتا اور فوج کے ساتھ تعلقات میں بہتری پائی حالانکہ عمران خان کے دور میں شہباز شریف کے فوج کے ساتھ تعلقات اچھے نہیں تھے، موجودہ صورتحال میں فوج سے بہتر تعلقات شہباز شریف کیلئے 2029 تک سیاسی استحکام کا ایک بڑا اشارہ ہیں۔

امریکی اخبار کے مطابق ان حالات میں پاکستان کیلئے خودمختار قرض دہندگان چین، سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات نے اپنے قرضوں کا حجم بڑھا دیا، گزشتہ برس جی ڈی پی شرح نمو اڑھائی فیصد رہی اور ملکی مالیاتی اعداد و شمار غیر معمولی طور پر متوازن ہیں، کرنٹ اکاؤنٹ بیلنس مثبت ہے اور ان کے پاس پرائمری فسکل سرپلس ہے، پاکستان اب معاشی طور پر مستحکم حالت میں آ چکا ہے۔

لیکن استحکام ایک چیز ہے اور ترقی دوسری، پاکستان کے آئی ایم ایف پروگرام میں ہمیشہ کی طرح وہ اصلاحات شامل ہیں جو طاقتور طبقات یا عوام کو ناگوار گزر سکتی ہیں، اس میں ٹیکس وصولی کو ڈیڑھ گنا بڑھانے اور بجلی پر دی جانے والی سبسڈی کو کم کرنے جیسے اقدامات شامل ہیں جبکہ دوسری جانب بھارت کی آئی ٹی اور فارماسیوٹیکل صنعتوں میں ترقی پاکستان کے مقابلہ میں اس کے جمود کو نمایاں کرتی ہے۔

بارونز نے مزید لکھا ہے کہ پاکستان کی برآمدات کا دو تہائی حصہ اب بھی کپاس، ملبوسات اور اجناس پر مشتمل ہے جبکہ وہ آئی ٹی آؤٹ سورسنگ کی جانب دیر سے بڑھا ہے جہاں غیر ملکی فروخت اب بڑھ کر سالانہ 3 ارب ڈالرز تک پہنچ چکی ہے۔

LEAVE A COMMENT

Please enter your comment!
Please enter your name here
This site is protected by reCAPTCHA and the Google Privacy Policy and Terms of Service apply.

The reCAPTCHA verification period has expired. Please reload the page.

خبریں

The latest stories from The Thursday Times, straight to your inbox.

Thursday PULSE™

More from The Thursday Times

error: