ڈھاکہ (دی تھرسڈے ٹائمز) — بنگلہ دیش نے 1 جون 2025 کو نئی کرنسی نوٹوں کا باقاعدہ اجرا کر دیا ہے، جن میں پہلی بار بانیِ قوم شیخ مجیب الرحمٰن کی تصویر شامل نہیں کی گئی۔ یہ علامتی تبدیلی ایک عبوری حکومت کے دور میں کی گئی ہے، جو سابق وزیر اعظم شیخ حسینہ کی اگست 2024 میں معزولی کے بعد قائم کی گئی۔
سیاسی تناظر
یہ فیصلہ بنگلہ دیش کی سیاسی تاریخ میں ایک غیرمعمولی موڑ کی حیثیت رکھتا ہے۔ شیخ مجیب الرحمٰن، جنہوں نے 1971 میں پاکستان سے آزادی کے بعد ملک کے پہلے صدر کی حیثیت سے ذمہ داریاں سنبھالیں، طویل عرصے سے قومی کرنسی پر نمایاں طور پر موجود رہے۔ مگر گزشتہ برس طلبہ کی قیادت میں ابھرنے والی عوامی تحریک کے نتیجے میں شیخ حسینہ کی حکومت کا خاتمہ ہوا اور وہ ملک چھوڑ کر بھارت چلی گئیں۔ اس کے بعد نوبل انعام یافتہ ماہر اقتصادیات محمد یونس کی قیادت میں ایک عبوری حکومت قائم کی گئی، جس نے متعدد ادارہ جاتی اصلاحات کا آغاز کیا۔
عبوری حکومت نے صرف کرنسی سے شیخ مجیب کی تصویر نہیں ہٹائی، بلکہ ان کی سالگرہ پر دی جانے والی سرکاری تعطیل منسوخ کر دی، تمام سرکاری دفاتر سے ان کی تصاویر ہٹا دی گئیں، اور اسکولوں کے نصاب سے ان کے بطور “بانیِ قوم” ذکر کو بھی خارج کر دیا گیا۔ علاوہ ازیں، برسوں سے قومی نعرے کی حیثیت رکھنے والا “جئے بنگلہ” کا نعرہ بھی سرکاری سطح پر ترک کر دیا گیا۔
نئی کرنسی نوٹوں کی خصوصیات
ابتدائی مرحلے میں 20، 50 اور 1000 ٹکہ کے نئے نوٹ جاری کیے گئے ہیں۔ ان نوٹوں کے ڈیزائن میں انسانی شخصیات کے بجائے ملک کے قدرتی مناظر، ثقافتی ورثے اور تاریخی اہمیت کے حامل مقامات کو مرکزی حیثیت دی گئی ہے۔ نوٹوں پر ہندو اور بدھ مت کے مندروں، قدیم محلات، اور نامور مصور زین العابدین کی بنگال قحط سے متعلق تخلیقات کی عکاسی کی گئی ہے۔ مزید برآں، نوٹوں میں 1971 کی جنگِ آزادی کے شہداء کی یادگار کو بھی نمایاں کیا گیا ہے۔