یہ سوشل میڈیا کے اوائل کے ایام تھے،ایم کیو ایم نے نائن زیرو یونٹ پر میڈیا روم بنایا ہوا تھا جہاں سے ہر چینل کے خبرنامے اور ٹاک شوز پر تمام دن اور رات نظر رکھی جاتی تھی،جماعت بارے خبروں کی تصدیق اور تردید فوری کی جاتی تھی یہاں تک کہ میڈیا روم چلانے والے بااختیار جماعتی رہنما یہ فیصلہ کرتے تھے کہ کس ٹاک شو میں کس جماعتی رکن کو بھیجنا ہے، ایم کیو ایم اپنی تمام تر خرابیوں کے باوجود ٹاک شوز میں مخالفین کو حاوی ہونے کاموقع نہیں دیتے تھے۔ اسی ماڈل کو تحریک انصاف نے اپنایا اور سیاسی مخالفین کے خلاف پرپیگنڈہ چلانے کے لئے دن رات جھوٹ بیچا،یہ وہ دور تھا جب ہر شخص اسمارٹ فون کےذریعے یوٹیوب اور فیس بک کا استعمال جان چکا تھا،ایک بڑی تعداد نے اس جھوٹ کے منجن کو نہ صرف خریدا بلکہ اس جھوٹکی تشہیر میں اپنا حصہ بھی ڈالا۔
زیم ٹی وی،سیاسٹ ڈاٹ پی کے اور یو نیوز جیسے ویب پیجز اور لاتعداد یوٹیوب اور فیس بک چینلز کو پروموٹ کیا گیا جہاں تحریک انصاف کےلئے دھڑلے سے جھوٹ اور پروپیگنڈہ کو پروان چڑھایا گیا.2011 میں جب اسٹیبلشمنٹ نے باقاعدہ تحریک انصاف کو اپنی بی ٹیم کےطور پر پاکستانی سیاست میں اتارا تو تقریبا تمام نیوز میڈیا چینلز کو تحریک انصاف کے لئے عوام میں پسندیدگی پیدا کرنے کا ٹاسک دیا گیا،تمام میڈیا استعمالکرنے کے باوجود جب مطلوبہ نتائج میسر نہ آئے تو سوشل میڈیا کا ہتھیار استعمال کیا گیا،منظم پروپہگنڈہ پھیلانے کےلئے نوجوانوں کو تنخواہوں پررکھاگیا.ان نوجوانوں نے جن میں ایک بڑی تعداد طلبا کی تھی کو روزانہ سیاسی منظر نامے کے حساب سے ٹاسک تفویض کئے جاتے۔
یہ وہ دور تھا جب دوسری بڑی سیاسی جماعتوں بالخصوص پاکستان مسلم لیگ نواز اور پیپلزپارٹی یہ جان تک نہ پائے تھے کہ کسں سائنسی طریقے سے ان جماعتوں کہ شبیہ عام عوام میں خراب کی جارہی ہے.ایسے میں بہت سے رضاکاروں نے اپنی مدد آپ کے تحت فیس بک پیجز اور ٹوئٹر آئی ڈیز بناکر اس جھوٹ کی مشین کوٹف ٹائم دینے کا سوچا،کہیں ان رضاکاروں نے گروپس بناکر فیس بک پیجز بنائے اور تحریک انصاف کی تضادات سے بھرپور سیاست کو آئینہ دکھانے کےلئےبہترین کام کیا.ان کے کام کو دیکھ کر بہت سے مزید سیاسی کارکنان اور ہم خیال لوگوں نے اس کام میں مواد،تحریروں اور درست اعداد و شمار کے ذریعےاپنا حصہ ڈالا۔
الیکشن2013 کے بعد جب تحریک انصاف،عوامی لیگ،ق لیگ اور شیخ رشید نے لندن پلان کے تحت اس وقت کی مسلم لیگ نواز کی حکومت پر درپردہ قوتوں کےکہنے پر دھرنے کےذریعے دباؤ ڈالنے کی کوشش کی تو بہت سے جمہوریت پسندوں نے سوشل میڈیا پر دن رات کام کرکے نہ صرف دھرنے کی حقیقت بلکہ اس کے حجم بارے حقیقت سے بھی سوشل میڈیا صارفین تک پہنچائی.پچھلےدور حکومت کے پانچ سالوں میں رضاکاروں سےسجا یہ گلدستہ اپنی انتھک محنت سے عمران خان کے زہریلے ایجنڈے سے زہر نکالتا رھا ہے۔
یہ تو تھی گذشتہ سے کچھ پیوستہ.اب ذرا حال میں آتے ہیں اور دیکھتے ہیں آیا کہ رضاکاروں کے کام سے مستفید ہوکر کیا ملک کی بڑی سیاسی جماعت مسلم لیگ نواز نے کیا کوئی میڈیا و سوشل میڈیا مینجمنٹ ٹیمبنائیں؟کیا جماعتی قیادت کے میڈیا پر بلیک آؤٹ ھونے پر کوئی مستقل متبادل نظام اپنانے کی کوشش کی؟تو ان سوالوں کا جواب نفی میں ہے.وقتافوقتا برائےنام سوشل میڈیا پرعہدوں کی بندر بانٹ کی گئی،لائنز،ٹائیگرز اور کبز کے نام پر ممی ڈیڈی برگر بچوں کو 2018 کے الیکشن سے قبل جماعت نے لانچ کیا جوآج تک کونسی سلیمانی ٹوپی پہن کر غائب ہیں کوئی نہیں جانتا۔یوٹیوب چینل لانچ کیا گیا جس پر ایک روپے کا کام نہیں کیا گیا،جماعت کے سوشل میڈیا ہینڈلزپر قیادت کی تقاریر اور خطاب رضاکار اور ہم خیال لوگ آفیشلز سے کئی گھنٹوں پہلے ڈال لیتے ھیں.جماعت یا قیادت سے متعلق جھوٹی خبر کی تردید کرنےمیں کئی گھنٹے لگ جاتے ہیں،کئی جلسوں اور احتجاجی ریلیوں میں بروقت ویڈیو فوٹیجز نہ ملنے سے کارکنان کی سارے دن اور رات کی محنت غارت ہوتی رہی،لیکن جماعت کو سوائے عہدوں کی بندر بانٹ سے ذیادہ کچھ کرنے کی توفیق نہ ہوئی.ایم این ایز،ایم پی ایز اور سینیٹرز کے بچوں کو ایک ٹکے کا کام نہ کرنے کے باوجود سوشل میڈیا کے عہدے دئیے گئے،کئی افراد کو عہدے پہلے دئیے ان کے سوشل میڈیا اکاؤنٹس بعد میں بنائے گئے۔
نوجوان جب عہدیداروں سے رابطہ کرکے سوشل میڈیا کےلئےکام کرنےکا کہتے ہیں تو ان کو کہا جاتا ہے بس آپ میری ٹویٹس کو ریٹویٹ کیا کرو.باقی جماعت کےایم پی ایز،ایم این ایز اور سوشل میڈیا عہدیداروں کو سوائے قیادت کی خوبصورتی بیان کرنےکےعلاوہ کوئی کام نہیں۔کسی بھی جلسے میں ان کا کام قیادت کے ساتھ تصویر سے زیادہ کچھ نہیں۔
آخر میں چند گذارشات
الیکٹرانک میڈیا، پرنٹ میڈیا اور سوشل میڈیا مینج کرنے کےلئے جدید طرز پر میڈیا روم بنایا جائے جہاں ہر چینل پر چلنے والی جھوٹی خبر کی تردید کرنےکےلئے مربوطنظام ہو، سوشل میڈیا پلیٹ فارمز پر پیجز بناکر ان کو ٹیکنکل افراد سے چلوایا جائے سوشل میڈیا عہدیدار صرف ان افراد کو بنایا جائے جو سوشل میڈیا پر کام کرنا جانتے ہوں جلسوں اور احتجاجی ریلیوں کی بہترین کوریج کےلئے پروفیشنلز کو انگیج کرکے میڈیا بلیک آؤث کا مستقل توڑ نکالیں.ٹاک شوز میں جانےوالے جماعتی رہنماؤں کو موضوع کی مطابقت سے فیکٹس اینڈ فگرز دے کربھیجا جائے.مختلف شہروں کی سوشل میڈیا ٹیم کے عہدیداروں کی ٹریننگ کروائی جائے جو کہ جماعت کے بیانئے کو پھیلانے میں کارگر ثابت ہو۔
سوچنے کی بات ہے آپ کے مخالفین جھوٹ کو سچ بتاکر پھیلاتے ہیں جبکہ آپ سچ کو ہی وقت پر لوگوں تک نہیں پہنچاسکےمحنت درست سمت کے بغیرصرف تھکان ہی دے گی۔