ہم نے فوج کے خلاف بطور ادارہ کبھی نہیں لکھا اور نہ کبھی لکھیں گے کیونکہ فوج پاکستان کی ہے اور ہم پاکستانی ہیں ۔ہم نے عہدیداروں کے غلط فیصلوں سے ملک اور قوم کو پہنچنے والے نقصان پر ہمیشہ تنقید کی اور کرتے رہیں گے کیونکہ عہدیدار نہ فوج ہیں اور نہ ریاست ۔غلط فیصلے کرنے والے سرکاری ملازم ہیں ہمارے ٹیکس کے پیسے سے تنخواہ لیتے ہیں اور موجودہ زمانہ کے رواج کے مطابق ریٹائرمنٹ کے بعد اکثر پرائے دیس پدھارتےہیں ۔دوران ملازمت اپنے بچوں کو “سکالرشپ “پر مغربی ممالک میں اعلی تعلیم کیلئے بھیجتے ہیں ۔ غیر ملکی شہریت دلاتے ہیں ۔ ہمیں حب الوطنی کا چورن بیچتے ہیں ۔
میڈیا کو پالتو بناتے ہیں ۔ عدلیہ پر کام کرتے ہیں ۔ ریاستی اداروں کو ریاست پر اپنی گرفت مستحکم رکھنے کیلئے استمال کرتے ہیں ۔ریاست کمزور ہو جائے ۔ ملک دیوالیہ ہونے کے خطرہ سے دوچار ہو جائے ۔ ادارہ کی ساکھ متاثر ہو جائے۔ عوام ادارے پر تنقید کرنے لگیں انہیں کوئی فکر نہیں ،کوئی فرق نہیں پڑھتا ۔ ان کے پاس حب الوطنی کا پرچم ہے ، زنبیل میں توہین مذہب اور” سیاستدان چور ہیں ” کے مہلک ہتھیار ہیں۔ جنرل ایوب ،جنرل یحیی ،جنرل ضیا اور جنرل مشرف تک ایک ہی کہانی ہے۔صرف نام تبدیل ہوتے ہیں باقی سب کچھ یکساں ہے ۔
اب یہ کہانی ختم ہونا ہے ۔ کہانی کا آخری باب لکھا جا رہا ہے ۔ ہوش کے ناخن لئے تو کہانی کے آخری باب کا انجام تبدیل ہو سکتا ہے اور ریاست کے ساتھ ملک بھی بچ سکتا ہے ادارے کی ساکھ بھی بحال ہو سکتی ہے ضد اور انا برقرار رہی۔ جھوٹ ،دھوکہ اور فراڈ کا کھیل جاری رہا تو آخری باب کا انجام المناک ہو گا۔
حب الوطنی کے پرچم بردار نوشتہ دیوار کیوں نہیں پڑھتے ۔یہ سفاک لوگ جنرل صدام حسین ،سوڈان کے جنرل عمر ،مصر کے جنرلوں ،طاقتور سوویت یونین کی طاقتور پولٹ بیورو ،ترکی اور وینزویلا سے سبق حاصل کیوں نہیں کرتے ۔ مشرقی پاکستان کی دردناک کہانی ان کے ضمیر کیوں نہیں جھنجوڑتی ؟خوف آتا ہے کہ کیا انسان اسقدر خود غرض بھی ہو سکتا ہے۔
جو خوف زدہ کرنے دینے والی خود غرضی ملک و قوم پر مسلط ہے وہ بہت کچھ بہا لے جائے گی ۔ معاشی بحران ایٹمی پروگرام کی طرف جائے گا۔خود غرضی،سفاکیت اور اقتصادی تباہی سی پیک کے ثمرات سے محروم کر چکی ہے مستقبل کس نے دیکھا ہے صرف پہچانا ہے کہ ریاستیں کس طرح ناکام ہوتی ہیں اور تباہی کے گھاٹ اترتی ہیں۔
ان لوگوں کو خدا کا خوف نہیں اور نہ تیزی سے ختم ہوتی ساکھ کا کوئی خیال۔
سپریم کورٹ کے اس سابق جج کو براڈ شیٹ سکینڈل انکواری کمیٹی کا سربراہ بنا دیا جس کی نیب میں ملازمت کے دوران براڈ شیٹ اسکینڈل کا آغاز ہوا اور جو اس وقت شوکت خانم ہسپتال کے بورڈ اف ڈائریکٹر کا رکن ہے ۔ کوئی تو ملک اور ادارے کے تحفظ کیلئے اپنا کردار ادا کرے کہ براڈ شیٹ کے متعلق فیصلے سے مہینوں قبل کس حب الوطنی کے پرچم بردار کے حکم پر ممکنہ جرمانے کی رقم پاکستانی سفارتخانے کے کمرشل اکاونٹ میں جمع کرا دی گئی۔
ہے کوئی اس وطن سے پیار کرنے والا جو سابق منحرف ایرانی انٹیلیجینس افسر کے اس الزام کی تحقیقات کرے کہ آئی ایس آئی کے ایک اعلی عہدیدار اور جنرل مالک نے براڈ شیٹ سے کمیشن مانگا تھا۔
ہے کوئی مائی کا لعل جو پوچھے امریکہ میں پی آئی اے کے روز ویلیٹ ہوٹل کی آرائش پر قومی خزانے سے اربوں روپیہ کس کے حکم پر خرچ کئے جا رہے ہیں اور مسقتبل قریب میں اس ہوٹل کی کیا ڈیل ہونے جا رہی ہے اور کن لوگوں کی نسلیں سنورانے کی منصوبہ بندی ہو رہی ہے۔
کون پوچھے گا فارن فنڈنگ کیس کا فیصلہ کون حب الوطنی کے پرچم بردار نہیں ہونے دے رہے۔
ایل این جی کس غلیظ شخص نے بروقت درامد کرنے کی راہ میں رکاوٹیں ڈالیں اور مہنگےفرنس آئل کی درامد سے مہنگی بجلی بنا کر گردشی قرضے میں اضافہ کیا۔
کوئی تو حرکت میں آئے کہ پہلے ادارے کے مخصوص افسر ریٹائرمنٹ کے بعد بیرون ملک جاتے تھے اب ریاست کے چیف جسٹس بھی ریٹائرمنٹ کے بعد چیف جسٹس ثاقب نثار اور کھوسہ کی طرح بیرون ملک جانے لگے ہیں۔
کئی سال گزر گئے لاپتہ افراد کی پالیسی سے اگر نتایج برامد نہیں ہوئے بلکہ عسکریت پسندی اور ادارے کی ساکھ متاثر ہوئی تو اس پالیسی کو تبدیل کیوں نہیں کیا جا رہا۔
ملک جس معاشی بحران کا شکار ہے یہ سب کچھ بہا کر لے جائے گا۔ چوریاں اور ڈکیتیاں جس شرح سے بڑھ رہی ہیں اگر یہ اجتماعی چوریوں اور ڈکیتیوں میں تبدیل ہو گئیں تو معاشرتی خونریزی کیا کچھ تباہ کرے گی کیا کسی نے یہ سوچا ہے ۔ خدا ہمارے پیارے پاکستان کو سلامت رکھے۔
The views expressed above are the writer’s own and are not those of The Thursday Times.