spot_img

Columns

Columns

News

تورطت المملكة العربية السعودية في مؤامرة للإطاحة بحكومة رئيس الوزراء السابق عمران خان، كما يزعم أحد المقربين من عمران خان

لقد أطاحت المملكة العربية السعودية بحكومة عمران خان، وكانت المملكة العربية السعودية والولايات المتحدة هما الدولتان اللتان اكتملت بدعمهما عملية تغيير النظام. كما أن الدعم الاقتصادي الذي تقدمه المملكة العربية السعودية لباكستان هو أيضًا جزء من نفس التخطيط، شير أفضل مروات۔

Pakistan grants 34 firms licenses to develop electric vehicles for its domestic market

Pakistan's Engineering Development Board has granted 34 licenses for electric vehicle manufacturing under its 2020-2025 policy, aiming to equip petrol stations with EV chargers and leverage global climate funds to promote clean transportation.

پاک فوج نے جنرل (ر) فیض حمید کے خلاف انکوائری کا آغاز کر دیا

پاک فوج نے سابق ڈائریکٹر جنرل آئی ایس آئی جنرل (ر) فیض حمید کے خلاف نجی ہاوسنگ سوسائٹی کے مالک کی درخواست پر انکوائری کا آغاز کر دیا ہے، جنرل (ر) فیض حمید پر الزام ہے کہ انہوں نے نجی ہاؤسنگ سوسائٹی کے خلاف دورانِ ملازمت اپنے اختیارات کا ناجائز استعمال کیا تھا۔

عمران خان کی حکومت سعودی عرب نے گِرائی تھی، شیر افضل مروت

عمران خان کی حکومت سعودی عرب نے گِرائی تھی، سعودی عرب اور امریکہ دو ممالک تھے جن کے تعاون سے رجیم چینج آپریشن مکمل ہوا، سعودی عرب کی جانب سے پاکستان کیلئے معاشی تعاون بھی اسی پلاننگ کا حصہ ہے۔راہنما تحریکِ انصاف شیر افضل مروت
NewsroomEconomyتشویشناک معاشی صورتحال اور بدترین مہنگائی
spot_img

تشویشناک معاشی صورتحال اور بدترین مہنگائی

معاشی حالات بد سے بدتر ہوتے جارہے ہیں جسکی وجہ سے مہنگائی سے پسے کروڑوں لوگوں کیلئے اپنے پیاروں کو دو وقت کی روٹی فراہم کرنا ناممکن ہوجائیگا۔

Mohammad Ishaq Dar
Mohammad Ishaq Dar
Mohammad Ishaq Dar is the incumbent Finance Minister of Pakistan.
spot_img

پاکستان کی معیشت کی موجودہ صورتحال تشویشناک ہو چکی ہے جس پر اگر فوری طور پر قابو نہ پایا گیا تو معیشت میں موجودہ غیر یقینی کی صورتحال کے سنگین نتائج برآمد ہوں گے۔

افراطِ زر

پی ٹی آئی حکومت کے دعوؤں کے برعکس دسمبر 2021ء کے اعداد وشمار کے مطابق ہیڈلائن افراط زر میں ایک نئی بلندی آئی ہے جو نومبر 2021ء میں 11.5 فیصد اور دسمبر 2020ء میں 8 فیصد کے مقابلے میں 12.3 فیصد ریکارڈ کی گئی ہے۔ فروری 2020 کے بعد سے یہ ہیڈلائن افراط زر کی بلند ترین سطح ریکارڈ کی گئی ہے۔ اسی طرح دسمبر 2021 میں حساس قیمت کا اشاریہ بھی 20.9 فیصد کی بلند ترین سطح اور تھوک قیمت کا اشاریہ بھی 26.2 فیصد کی بلندی پر پہنچ گیا ہے۔

حکومتی اہلکاروں نے اشیائے خوردونوش کی ماہانہ وار بنیادپر قیمتوں میں کمی کو نمایاں کرتے کرتے نظام میں تیزی سے بڑھتی بنیادی مہنگائی کومکمل طور پر نظرانداز کردیا ہے۔ شہری اور دیہی بنیادی افراط زر میں ماہ بہ ماہ 1.1 فیصد اضافہ ہواہے اور یہ اضافہ 8.3 فیصد اور 8.9 فیصد ریکارڈ کیا گیا ہےقیمتوں میں یہ ہوشربا اضافہ جلد ختم ہونے والا نہیں۔

پیسے کی فراہمی/سپلائی

پی ٹی آئی حکومت کے دور (اگست 2018 تا دسمبر 2021) میں مستقل بڑھتی ہوئی مہنگائی کی شرح بہت حیران کن امر اس لئے بھی نہیں کیونکہ اس دور میں پیسے کی فراہمی /سپلائی میں بڑے پیمانے پراضافہ ہوا جو کہ مالی سال 2020س میں 17.4 فیصد اور مالی سال 2021 میں 16.2 فیصد ریکارڈ کیا گیا۔ چونکہ پی ٹی آئی کے پورے دور میں جی ڈی پی گروتھ کی شرح منفی یا پھر بالکل معمولی رہی تو پیسے کی سپلائی میں غیر معمولی اضافہ یقینی طور پر ناقابل برداشت مہنگائی کا موجب بننا تھاجسے آج پوری قوم بھگت رہی ہے۔

کرنٹ اکاؤنٹ خسارہ

ایک تعجب انگیز خیز پیش رفت میں اس توسیعی پالیسی کو اپناتے ہوئے پی ٹی آئی حکومت نے اپنی ہی کرنٹ اکاؤنٹ خسارہ کے حوالے سے پالیسی کے برعکس کام کیا۔ یاد رہے کہ اس حکومت نے کرنٹ اکاؤنٹ خسارے کو وراثت میں ملنے والی بدترین خرابی قرار دیا تھا۔

اس پالیسی سے پیدا شدہ غلطیوں کا ادراک کرنے کے لئے بیرونی کھاتوں کا جائزہ لینا ضروری ہے (جوذیل میں ز یر بحث ہے) جسے تیزی سے بڑھتے ہوئے کرنٹ اکاونٹ خسارے کا سامنا ہے جو رواں سال میں عملی طور پر اس سطح تک بڑھ چکا ہے جس سطح پر مسلم لیگ ن کی حکومت اپنے پانچویں مالی سال میں پہنچی تھی۔ یاد دہانی کےلئے بتانا ضروری ہے کہ مسلم لیگ ن کے پہلے تین مالی سالوں 2013 تا 2016 میں سالانہ کرنٹ اکاونٹ خسارہ چار بلین امریکی ڈالر کی حد میں تھا اور حکومت کے آخری دو سالوں2017ء اور 2018 میں بالترتیب کرنٹ اکاؤنٹ خسارہ بڑھ کر 12 بلین ڈالر اور 19 بلین ڈالر ہوا جس کے بڑھنے کی بنیادی وجہ 18 گھنٹے اوسطاً یومیہ لوڈشیڈنگ ختم کرنے کے لئے مشینری کی درآمدات، سیکورٹی سے متعلق ادائیگیاں، کیپٹل گڈز اور پلانٹ اور مشینری کی درآمدات تھیں۔

 کیا پی ٹی آئی حکومت اپنے تین سالہ دور 2018 تا 2021 میں عوامی قرضوں میں غیر معمولی اضافے کےباوجود کسی با معنی میگا ڈیولپمنٹ پروجیکٹ کا حوالہ دے سکتی ہے جو اس نے شروع کیا اور اس پر غیر معمولی قرض میں لیا پیسہ خرچ کیا؟

دسمبر 2021 کے آخر میں کرنٹ اکاؤنٹ خسارے کے اعداد وشمار ابھی تک عوام کےلئے دستیاب نہیں ہیں تاہم نومبر 2021 کے آخر میں موجودہ مالی سال کے پہلے پانچ مہینوں کےلئے کرنٹ اکائونٹ کا خسارہ 7.1 بلین ڈالر یا اوسطاً 1.4 بلین ڈالر ماہانہ ریکارڈ کیا گیا ہے۔ اس طرح سے اس مالی سال میں کرنٹ اکائونٹ خسارہ 17 بلین ڈالر کے قریب ہوگا جوکہ پی ایم ایل این حکومت کے آخری مالی سال 2018 کے 19 بلین ڈالر کے قریب بنتا ہے۔

منی بجٹ

مہنگائی کامزید سونامی حال ہی میں متعارف کردہ منی بجٹ سے آنے والا ہے جس میں 144 مستثنیٰ اشیاء پر جی ایس ٹی لگانے یا جہاں بھی جی ایس ٹی17فیصد سے کم ہو اس کی شرح میں اضافہ کرنے کی تجویز ہے۔ اس کا مطلب ہوگا سیلز ٹیکس کی مد میں اضافی 343 ارب روپے، انکم ٹیکس کی مد میں اضافی 7 ارب روپے اور موٹر وہیکلز سے منسلک اضافی 23 سے 25 ارب روپے عوام سے لئے جائیں گے۔ مزید برآں درآمدات پر اضافی کسٹمز ڈیوٹی اور ریگولیٹری ڈیوٹی کی نئی لیوی لگائی جارہی ہے۔ یہی نہیں پی ٹی آئی حکومت پٹرولیم لیوی میں 4 روپے ماہانہ اضافہ کرنے کا ارادہ بھی رکھتی ہے جب تک کہ یہ 30 روپے فی لٹر تک نہ پہنچ جائے جو کہ زیادہ سے زیادہ قانونی حد ہے۔ یہ وہی لیوی ہے جس پر عمران خان اپنی تقاریر میں شدید تنقید کرتے تھے اور اسے غیر منصفانہ/غنڈہ ٹیکس کہتےتھے۔

پی ٹی آئی کے وزراء نے غیر ذمہ داری کا ثبوت دیتے ہوئے کہا ہے کہ عام آدمی پر منی بجٹ کے ذریعے لگائےگئے مذکورہ ٹیکس اقدامات کا بوجھ صرف 2 ارب روپے ہوگا یہ ان لوگوں کے زخموں پرنمک چھڑکنے کے مترادف ہے جوپہلے ہی ناقابل برداشت مہنگائی تلے دبے ہوئے ہیں۔ تجزیہ نگار اور صنعتوں کے نمائندگان جو ان نئے اقدامات سے متاثر ہوں گے انہوں نے خبردار کیا ہے کہ ان اضافی ٹیکسوں کے نتیجے میں ملک میں مہنگائی کی ایک نئی لہرآئے گی۔ لہٰذا بادی النظر میں مہنگائی/قیمتوں میں جلد کمی ہونا تاحد نظر دکھائی نہیں دے رہا۔

مالیاتی خسارہ

پی ٹی آئی دور حکومت کی موجودہ توسیعی پالیسی، مالیاتی خسارے کی شکل میں نظر آتی ہے۔ پی ٹی آئی کے تین مالی سالوں میں سالانہ مالیاتی خسارہ 8 فیصد سے زیادہ ریکارڈ کیا گیا جبکہ پی ایم ایل این کے پانچ مالی سالوںمیں سالانہ مالیاتی خسارہ اوسطاً 5.5 فیصد تھا۔

تجارتی کھاتے کا خسارہ

رواں مالی سال کی پہلی ششماہی میں تجارتی کھاتے کا خسارہ25.5بلین ڈالر ریکارڈ کیا گیا ہے جو ملکی تاریخ میں پہلے کبھی نہیں دیکھا گیا۔ یہ ماہانہ اوسطاً 4.25 بلین ڈالر بنتے ہیں جو کہ بے حد تشویشناک ہے۔ تجارتی خسارہ گزشتہ مالی سال کی اسی مدت کے13.2بلین ڈالر کے مقابلے میں تقریباً100فیصد زیادہ رہا ہے۔

اس حیران کن نمبر کی وجہ درآمدات ہیں جو 40.6 بلین ڈالریا اوسطاً 6.8بلین ڈالر ماہانہ پر جا پہنچی ہیں۔ یہ بھی درآمدات کی ایک بے مثال سطح ہے جو ماضی میں بہ مشکل ایک آدھ مہینے میں کبھی 5 بلین ڈالر سے تجاوز کیا کرتا تھا۔ سب سے زیادہ خطرناک یہ ہے کہ دو مہینوں (نومبر تا دسمبر2021ء) میں درآمدات بالترتیب 7.9بلین ڈالر اور 7.6بلین ڈالر رجسٹر کی گئیں۔ یہ درآمدات میں بے گناہ اضافے کا سبب ہے جس کیوجہ طلب میں بڑے پیمانے پر اضافہ جوکہ وسیع خسارے اور منی سپلائی میں بے پناہ اضافے کی طرف اشارہ کررہا ہے۔

بیرونی عوامی قرضہ

بیرونی کھاتوں کی موجودہ نازک صورتحال کا اثر ملک کے غیر ملکی زرمبادلہ ذخائر، شرح مبادلہ اور غیر ملکی (بیرونی) عوامی قرضوں پر پڑتا ہے۔ پی ٹی آئی کے اقتدار میں آکر سابقہ حکومتوں کے غیر ملکی قرضوں کو اتارنے کے بارے میں مستقل بیانیہ کے برعکس، حقائق ایک بالکل مختلف تصویر پیش کررہے ہیں۔

؍ 30 جون 2018ء تک بیرونی عوامی قرضہ 70 بلین ڈالر تھا جو 30 ستمبر 2021ء تک بڑھ کر 100 بلین ڈالر ہوگیا یعنی کہ پی ٹی آئی حکومت کے دوران 30 بلین ڈالر کا اضافہ ہوا۔ دوسری طرف 30؍ جون 2018ء کی سطح کے مقابلے میں اسی مدت میں اسٹیٹ بینک کے ذخائر میں صرف 9 بلین ڈالر کا اضافہ ہوا ہے، بقیہ 21 بلین ڈالر رقم ادائیگیوں کے توازن یا بجٹ کی سپورٹ میں چلی گئی ہے۔

 بیرونی قرضوں میں اس اضافے میں سعودی عرب، متحدہ عرب امارات اور قطر سے موصول ہونے والے 5.5 بلین ڈالر کے ذخائر شامل نہیں ہیں جو بیرونی قرضوں کے حقیقی اعداد وشمار کو دبانے کے لئے اسٹیٹ بینک آف پاکستان کی بیلنس شیٹ میں براہ راست شامل کئے گئے ہیں۔ سب سے اہم نکتہ یہ ہے کہ پی ٹی آئی حکومت کے 39 مہینوں میں30 ارب ڈالر کے بیرونی سرکاری قرضوں میں خالص اضافہ ہوا ہے جو کہ سابقہ حکومتوں کے بیرونی قرضوں کو اتارنے کے مضحکہ خیزدعووں کے بالکل برعکس ہے۔

زرمبادلہ کی شرح /فاریکس ریزرو

شرح مبادلہ، مئی 2021 میں 152؍ روپے فی ڈالر تھا جب اسٹیٹ بینک کے ذخائر تقریباً 15 بلین ڈالر تھے۔ تاہم، اگست 2021 میں غیر ملکی زرمبادلہ کے ذخائر بڑھ کر 20 بلین ڈالر ہوگئے مگر اس کے باوجود ڈالر کی شرح مبادلہ بڑھ کر 178 روپے ہوگئی۔ فاریکس ماریکٹ نے عمران خان کے اس بیان پر کوئی توجہ نہیں دی (جو 7؍ دسمبر 2021 کے بزنس ریکارڈر میں رپورٹ کیا گیا) کہ پاکستانی روپےکی حقیقی قدر(متبادل شرح)163روپے فی ڈالر ہے۔ فاریکس مارکیٹ نے روپے کی حد 178 روپے سے نیچے آنے سے انکار کردیا ہے اور تجارتی اور کرنٹ اکاؤنٹ خسارے کی موجودہ صورتحال (اوپر زیر بحث) کے پیش نظر ڈالر اسی ریٹ پر رہ سکتا ہے یا مزید مہنگا ہوسکتا ہے لہٰذا، یہ مہنگائی / قیمتوں پر مزید دباو ڈال سکتا ہے۔

نتیجہ

مذکورہ بالا تفصیل سے یہ نتیجہ اخذ کیا جاسکتا ہے کہ قیمتوں میں اضافے (مہنگائی) کا دباؤجلد کم ہوتا دکھائی نہیں دے رہا اور اس وجہ سے روپے کی قدر بھی کمزور رہنے کا امکان ہے تاوقتیکہ مہنگائی کا سبب بننے والے مذکورہ بالا زیر بحث عوامل کو روکنے کے لئے فعال مالی اور مالیاتی اصلاحی اقدامات نہ کئے جائیں۔

 ایسے نہ کیا گیا تو معاشی حالات بدستور بدتر ہوتے جائیں گے اور عام آدمی کی قوت خرید ہر گزرتے دن کے ساتھ مزید کم ہوتی جائے گی۔ کروڑوں لوگ جو پہلے ہی آسمان کو چھوتی مہنگائی کی زد میں ہیں ان کے لئے اپنے خاندانوں کو دو وقت کی روٹی فراہم کرنا بھی خدانخواستہ ناممکن ہوجائے گا۔

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments
Inline Feedbacks
View all comments

Read more

نواز شریف کو سی پیک بنانے کے جرم کی سزا دی گئی

نواز شریف کو ایوانِ اقتدار سے بے دخل کرنے میں اس وقت کی اسٹیبلشمنٹ بھرپور طریقے سے شامل تھی۔ تاریخی شواہد منصہ شہود پر ہیں کہ عمران خان کو برسرِ اقتدار لانے کے لیے جنرل باجوہ اور جنرل فیض حمید نے اہم کردارادا کیا۔

ثاقب نثار کے جرائم

Saqib Nisar, the former Chief Justice of Pakistan, is the "worst judge in Pakistan's history," writes Hammad Hassan.

عمران خان کا ایجنڈا

ہم یہ نہیں چاہتے کہ ملک میں افراتفری انتشار پھیلے مگر عمران خان تمام حدیں کراس کر رہے ہیں۔

لوٹ کے بدھو گھر کو آ رہے ہیں

آستین میں بت چھپائے ان صاحب کو قوم کے حقیقی منتخب نمائندوں نے ان کا زہر نکال کر آئینی طریقے سے حکومت سے نو دو گیارہ کیا تو یہ قوم اور اداروں کی آستین کا سانپ بن گئے اور آٹھ آٹھ آنسو روتے ہوئے ہر کسی پر تین حرف بھیجنے لگے۔

حسن نثار! جواب حاضر ہے

Hammad Hassan pens an open letter to Hassan Nisar, relaying his gripes with the controversial journalist.

#JusticeForWomen

In this essay, Reham Khan discusses the overbearing patriarchal systems which plague modern societies.
error: