spot_img

Columns

Columns

News

پی ٹی آئی کی وفاق پر یلغار روکنے کیلئے پوری طاقت اور وسائل بروئے کار لائیں گے، وزیرِ دفاع خواجہ آصف

پی ٹی آئی کی وفاق پر یلغار روکنے کیلئے پوری طاقت اور وسائل بروئے کار لائیں گے، ، پی ٹی آئی کی پوری ڈیفینیشن یہی ہے کہ عمران خان نہیں تو پاکستان نہیں، عمران خان کے کئی چہرے ہیں، کیا عدالتوں کو نظر نہیں آ رہا کہ عمران خان ملکی سالمیت پر حملے کر رہا ہے؟

حکومت کے پاس آئینی ترمیم کیلئے نمبرز پورے ہیں، ہم اتفاقِ رائے قائم کرنا چاہتے ہیں۔ بلاول بھٹو زرداری

حکومت کے پاس آئینی ترمیم کیلئے دو تہائی اکثریت موجود ہے مگر حکومت تمام سیاسی جماعتوں سے اتفاقِ رائے چاہتی ہے، میں بھرپور کوشش کررہا ہوں کہ اتفاقِ رائے قائم ہو لیکن اگر اتفاقِ رائے نہ ہوا تو حکومت کا یہ مؤقف درست ہو گا کہ وقت ضائع نہ کیا جائے۔

Who was Ratan Tata? A visionary who elevated the Tata Group to global prominence

Ratan Tata, the former Chairman Emeritus of Tata Group, transformed the conglomerate into a global powerhouse through strategic acquisitions and visionary leadership.

ایسا نظامِ عدل وضع کرنا ہے جس میں فردِ واحد جمہوری نظام کو پٹڑی سے نہ اتار سکے، نواز شریف

تمام جمہوری قوتوں کو مل کر پارلیمنٹ کے ذریعہ ایسا نظامِ عدل وضع کرنا ہے جس میں فردِ واحد جمہوری نظام کو پٹڑی سے اتار کر مُلک و قوم کو سیاہ اندھیروں کے سپرد نہ کر سکے، میثاقِ جمہوریت پر دستخط کرنا درست فیصلہ تھا جس سے مُلک میں جمہوریت کو استحکام ملا۔

پاکستان 2017 میں دنیا کی 24ویں بڑی معیشت تھا، جلد دوبارہ ابھرے گا۔ اسحاق ڈار

پاکستان 2017 میں دنیا کی 24ویں بڑی معیشت تھا اور جی 20 ممالک میں شامل ہونیوالا تھا، پاکستان جلد دوبارہ ابھرے گا، پاک سعودی عرب سٹریٹجک شراکت داری نئے دور میں داخل ہو گئی، پاکستان سعودی خودمختاری اور علاقائی سالمیت کیلئے پُرعزم ہے۔
Opinionعمار مسعود! پاگل کہیں کا
spot_img

عمار مسعود! پاگل کہیں کا

عمارمسعود ان چند سر پھروں میں سے ہے جو اپنے حصے کی شمع اس دور میں جلاتا رہا جب جمہوریت کا نام لینا جرم ٹھہرایا جاتا اور جب بہت سے صحافی پابندی کو بہانہ بنا کر خاموشی کی بکل بارے قلم پھینک گئے۔

Hammad Hassan
Hammad Hassan
Hammad Hassan has been a columnist for over twenty years, and currently writes for Jang.
spot_img

چند دن پہلے جب دیرینہ صحافی دوست برادرم طارق آفاق نے چارسدہ میں دریا کے کنارے ایک خوبصورت فارم ھاوس میں صحافی دوستوں کو لنچ پر بلایا تو لاہور سے آئے احمد ولید کو پہنچنے میں ذرا دیر تھی اس لئے عمار مسعود اور میں دریا کے کنارے ٹہلنے نکلے دیکھا تو پشتو موسیقی کے سب سے بڑے فنکار خیال محمد ویل چیئر پر اپنے بیٹوں اور فینز کے درمیان بیٹھے گپ شپ لگاتے اور منظر اور ماحول کا لطف اٹھا رہے تھے۔ میں نے عمار کا ھاتھ پکڑا اور خیال محمد صاحب کے پاس لے آیا تاکہ دونوں کا تعارف کراسکوں لیکن نام لینا ہی تھا کہ ہوا بہار تعارف والا سلسلہ چل نکلا اور پھر انور مسعود صاحب سے عمار مسعود کے مشہور پروگرام “رات گئے “تک کا ذکر خیال محمد روانی اور با خبری کے ساتھ کرنے لگا۔ غلام علی اور فریدہ خانم کا ذکر آیا تو خیال محمد جیسے فنکار کے سامنے بھی سر اور لے کی تکنیک پر عمار یوں بول رہا تھا کہ خواجہ خورشید انور اور بابا جی اے چشتی بھی حیرتیں بیچنے پر آئیں میں نے دل ہی دل میں کہا کہ کہیں یہ ظالم اب موسیقی کا رخ نہ کر لے ورنہ اس سے وابستہ لوگوں کا بھی وہی حال کر لےگا جو افسانہ نگاروں اینکروں اور تجزیہ نگاروں کے بعد کالم نگاری میں ہمارا کر چکا۔ اگلے دن عمار مسعود کی نئی کتاب “نواز شریف کی سیاست پانامہ کے بعد ” اس نے بھجوائی تو اب کے بار اس کی انداز تحریر سے کہیں زیادہ اس کی دلیری بلکہ دیوانگی نے متاثر کیا کیونکہ ناسازگار موسموں اور مشکل حالات میں جبکہ بہت سے صحافی دوست پابندی کا بہانہ بنا کر خاموشی کی بکل مار ے قلم پھینک چکے تھے اور صحافت کو الوداعی ہاتھ ہلا چکے تھے تو عمار ان چند سر پھروں میں سے ایک تھا جو بغیر اجرت لئے بھی ایک مشہور ویب سائٹ کے لئے لکھتا اور اور اپنے حصے کی شمع جلاتا رہا۔ یہی وہ دن تھے جب جمہوریت کا نام لینا بھی جرم ٹھہرتا۔ نواز شریف یا اس کے بیانیئے کی حمایت بغاوت تصور ہوتی۔ عمران خان پر تنقید سے ماں بہن کی گالیاں برآمد ہوتیں۔ اور آمرانہ قوتوں کے کردار پر سوال اٹھانے سے بندہ مطیع اللہ جان بن جاتا۔

سو ایسے دلآزار دنوں میں حق پرستی پر مبنی صحافت کرنے کے لئے یقینا ایک جگرا چاہیے جسے صرف وہی لوگ نبھا سکتے ہیں جنہیں اپنے خون کی پاکیزگی اور خاندانی پس منظر کا پاس ہوعمار مسعود کو ظاہر ہے کہ یہی لکھنا تھا جو اس نے لکھا کیونکہ اسے انورمسعود صاحب اور صدیقہ آپا کا پاس بھی تو رکھنا تھا۔ گزشتہ چند گھنٹوں میں جب کتاب میں شامل وہ کالم میں نے بقول انور مسعود صاحب “دوبرر” پڑھے جو دو ہزار اٹھارہ کے خون آشام روز و شب کے آس پاس عمار بھائی کے قلم سے نکلے اور ذہنوں میں اترے تو گزرے ہوئے حالات میں لکھی گئی تحریروں نے بھی مجھ پر ایک خوف سا طاری کر دیا لیکن۔ یاد آیا کہ۔۔۔ نہ ان کی رسم نئی ھے نہ اپنی ریت نئی۔

اب جبکہ اس ملک کے تاریخی اور سیاسی منظر نامے پر روز اول سے جمی دھند چھٹنے لگی غبار بیٹھنے لگا ہے اور وہ لکیر واضح طور پر دکھائی دینے لگی ہے جس کے دونوں طرف کھڑی خلقت متضاد کردار اور ذہنی شناخت کے حامل ہیں۔ ایک طرف وہ روایتی جاہلیت ہے جو حقائق کو سمجھنے کی استطاعت سے محروم ہیں اور ان کی رائے سازی مخصوص اشارے پر سیاسی اور صحافتی لبادے میں ملبوس ٹاوٹوں اور وارداتیوں کے ذمے ہے اور وہ اسی بھیڑ کو ہانک رہے ہیں۔ جبکہ لکیر کے دوسری طرف شعور اور جمہوری تہذیب سے لیس سیاسی کارکن اور جدوجہد پر کمر بستہ صحافی ہیں جنہیں ایک مشکل اور پر آشوب صورتحال درپیش ہے لیکن اس کے باوجود بھی وہ پسپائی کی بجائے پیش رفت کی جانب گامزن ہیں۔ عمار مسعود نہ صرف اسی لشکر کا علم اٹھائے ہوئے ہیں بلکہ قلم کے رخ پر راستوں کی نشاندہی بھی کر رہے ہیں آئین اور قانون کے راستے پر چلنے کی تبلیغ اور ووٹ کے ذریعے جمہوریت کا قیام عمار کا واضح اور دوٹوک بیانیہ ہے اور وہ اس سلسلے میں ہر قسم کی مصلحت سے بالاتر ہے حتی کہ یہ بھی نہیں دیکھتا کہ گرد و پیش کے معاملات اور حالات کیا ہیں ؟اور ان کی تحریروں کا رخ کس سمت ھے؟

لیکن کیا کیجئے کہ وہ بے شک کمال کا لکھاری ہی سہی لیکن مجھے ہمیشہ یہ ڈر لاحق رہتا ھے کہ اس کا “پاگل پن” کہیں اسے کسی ڈالے کی نذر نہ کر دے؟ دل نے بارہا چاہا کہ پوچھ لوں کہ عمار مسعود آخر آپ چاہتے کیا ہیں؟ لیکن مجھے معلوم ہے کہ اس کا جواب یہی ہوگا کہ آئین و قانون کی بالادستی اور جمہوری قدروں کا احترام سو ان حالات میں ایسا سوال پوچھنا بھی نہیں چاہیئے اور وہ بھی عمار مسعود جیسے شخص سے جو دریا کی مخالف سمت میں ایک مدت سے تیر رہا ہے اور اس پر فخر بھی کر رہا ہے۔

پاگل کہیں کا۔

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments
Inline Feedbacks
View all comments

Read more

نواز شریف کو سی پیک بنانے کے جرم کی سزا دی گئی

نواز شریف کو ایوانِ اقتدار سے بے دخل کرنے میں اس وقت کی اسٹیبلشمنٹ بھرپور طریقے سے شامل تھی۔ تاریخی شواہد منصہ شہود پر ہیں کہ عمران خان کو برسرِ اقتدار لانے کے لیے جنرل باجوہ اور جنرل فیض حمید نے اہم کردارادا کیا۔

ثاقب نثار کے جرائم

Saqib Nisar, the former Chief Justice of Pakistan, is the "worst judge in Pakistan's history," writes Hammad Hassan.

عمران خان کا ایجنڈا

ہم یہ نہیں چاہتے کہ ملک میں افراتفری انتشار پھیلے مگر عمران خان تمام حدیں کراس کر رہے ہیں۔

لوٹ کے بدھو گھر کو آ رہے ہیں

آستین میں بت چھپائے ان صاحب کو قوم کے حقیقی منتخب نمائندوں نے ان کا زہر نکال کر آئینی طریقے سے حکومت سے نو دو گیارہ کیا تو یہ قوم اور اداروں کی آستین کا سانپ بن گئے اور آٹھ آٹھ آنسو روتے ہوئے ہر کسی پر تین حرف بھیجنے لگے۔

حسن نثار! جواب حاضر ہے

Hammad Hassan pens an open letter to Hassan Nisar, relaying his gripes with the controversial journalist.

#JusticeForWomen

In this essay, Reham Khan discusses the overbearing patriarchal systems which plague modern societies.
error: