بیرونِ ملک مقیم پاکستانی وطن کے حقیقی سفیر ہیں، جو نہ صرف پاکستان کا عالمی تشخص بلند کر رہے ہیں بلکہ ترسیلاتِ زر، سرمایہ کاری اور مختلف شعبوں میں فعال کردار ادا کرتے ہوئے ملکی معیشت کی مضبوطی میں بھی کلیدی حصہ ڈال رہے ہیں۔
JJ Spaun claimed his first major title at the US Open 2025 with a sensational 65-foot birdie on the final hole, beating Robert MacIntyre in a chaotic, rain-delayed finale at Oakmont.
US lawmaker and former Minnesota House Speaker Melissa Hortman and her husband were killed in a politically motivated attack at their home. Authorities believe the shooting is part of a broader threat campaign targeting elected officials.
نخست وزیر شهباز شریف با رئیسجمهور ایران تماس برقرار کرد، تجاوزگری اسرائیل را به شدت محکوم نمود و حمایت کامل خود را از حاکمیت و دفاع ایران اعلام کرد. وی با بهرسمیت شناختن حق دفاع ایران بر اساس منشور سازمان ملل متحد، بر ضرورت واکنش مشترک در برابر ظلم و ستمهای اسرائیل تأکید نمود۔
وزیراعظم شہباز شریف کا ایرانی صدر سے رابطہ، اسرائیلی جارحیت کی شدید مذمت اور ایرانی خودمختاری و دفاع کی مکمل حمایت کا اظہار، اقوامِ متحدہ چارٹر کے تحت ایران کے حقِ دفاع کو تسلیم کرتے ہوئے اسرائیلی مظالم کے خلاف مشترکہ ردعمل کی ضرورت پر زور دیا۔
Hammad Hassan has been a columnist for over twenty years, and currently writes for Jang.
تحریر حماد حسن
نوٹ: یہ کالم حماد حسن نے 17 جنوری 2019 کو تاریخ کے بد ترین جج ثاقب نثار کی ریٹائرمنٹ کے دن لکھ کر تاریخ کے سامنے فرد جرم کی شکل میں رکھا تھا اب وقت اس بد ترین منصف کا ایک ایک جرم ثابت کرنے لگا ھے
ثاقب نثار تاریخ کا حصہ بن گئے لیکن تاریخ اس پر اور اس کے عدالتی کردار پر سوال اٹھاتی رہے گی۔ تاریخ پوچھتی رہے گی کہ ایک منتخب وزیراعظم کو ایک ایسے جرم میں کیوں ایوان اقتدار سے نکالا جو اس پر ثابت بھی نہ کر سکے۔ تاریخ یہ پوچھتی رہے گی کہ آپ ایک مخصوص جماعت کے لئے ایک جج کی بجائے ایک مخالف سیاسی ورکر سے بھی کم تر سطح پر کیوں اور کیسے چلے گئے؟
تاریخ پوچھتی رہے گی کہ آپ بد ترین ڈکٹیٹر پرویزمشرف کو کٹہرے میں کیوں کھڑا نہ کر سکے اور کیوں یہ نہ پوچھ سکے کہ دس سال تک اس ملک کی تقدیر سے کھیلنے کا حق آپ کو کس نے دیا تھا؟ آپ ان پر سکون گلی کوچوں میں دہشت گردی والی پراسرار جنگ کیوں اور کہاں سے لے کر آئے جس نے گلی گلی میں خون کی بارش بر سا دی۔ جب کہ اس کے بر عکس عوام کے منتخب وزیر اعظم اور اراکین پارلیمان کے لئے آپ فرعون بنے ہوئے تھے
تاریخ یہ بھی پوچھتی رہے گی کہ راؤ انوار اور احسان اللہ احسان جیسے خونخوارقاتلوں تک قانون کی پہنچ کیونکر ناممکن ہو گئی تھی اور وہ سرعام دندناتے پھر رہے تھے۔
تاریخ یہ سوال بھی اُٹھائے گی کہ ایک چیف جسٹس ایک سیاستدان شیخ رشید کی الیکشن کیمپین کرنے کیوں اور کیسے نکلا تھا؟
تاریخ اس سوال کی طرف بھی انگلی اُٹھائے گی کہ مسلم لیگ کے مقرر کردہ مشیر پی آئی اے کو جس مقدمے (دوہری شہریت) میں برطرف کیا تھا عین اسی مقدمے میں پی ٹی آئی حکومت کے مشیر زلفی بخاری کو ریلیف کیوں اور کیسے دے دی؟
تاریخ یہ خوفناک سوال بھی اُٹھائے گی کہ عدالت عالیہ کے ایماندار اور دلیر جج جسٹس شوکت عزیز صدیقی سے وہ کون سا ناقابل معافی جرم سر زد ہوا تھا جس کی بناء پر انھیں ایوان عدل سے توہین آمیز انداز سے باہر دھکیل دیا گیا۔
تاریخ پوچھتی رہے گی کہ تین مرتبہ اس ملک کے وزیراعظم رہنے والے ایک سیاستدان سے ایسا کون سا گناہ کبیرہ سرزد ہوا تھا کہ جیل میں اسے ایڑیاں رگڑتی اور آخری سانسیں لیتی ہوئی شریک حیات سے چند سیکنڈ تک فون پر بات بھی نہیں کرنے دی گئی۔
تاریخ کا یہ سوال ایک قرض کی طرح باقی رہے گا کہ مریم نواز اور بلاول بھٹو زرداری دونوں کسی سرکاری عہدوں پر نہیں رہے تو دونوں کے بارے میں فیصلے مختلف اور متضاد کیوں تھے؟
تاریخ یہ سوال اُٹھائے ثاقب نثار کی طرف بڑھ رہی ہے کہ ایک مخصوص سیاسی جماعت سے آپ کی دشمنی کی وجوہات کیا تھیں؟ کیا آپ انصاف کے تقاضے پورے کر رہے تھے؟ یا ایک آلہ کار بنے ہوئے تھے؟
اس جماعت کے رہنماؤں اور کارکنوں کا ذکر آتے ہی آپ آپے سے باہر کیوں ہو جاتے؟ جو معیار اور سخت گیر فیصلے ایک جیسے معاملات میں نہال ہاشمی، طلال چودھری اور دانیال عزیز وغیرہ کے لئے تھے، وہ پی ٹی آئے حکومت کے وزراء کے لئے کیوں نہیں تھے؟
آپ کو کس نے یہ حق دیا تھا کہ آپ ایک مخصوص جماعت کے لیڈروں اور کارکنوں کے بارے میں بد زبانی اور گالم گلوچ کا لہجہ اختیار کریں؟ تاریخ یہ سوال اُٹھانے کو بے تاب ہے کہ جب آپ چیف جسٹس تھے تو مخالف سیاستدانوں کے خلاف نیب کی غنڈہ گردی کو لگام کیوں نہیں ڈالی؟ بلکہ مسلسل نیب کی پیٹ تھپتپاتے رہے۔
اس سوال کا جواب آپ کو دینا پڑے گا کہ پاکستان کی سیاسی تاریخ میں سب سے بہترین کارکردگی (کام اور ترقی کے حوالے سے) دکھانے والے شہباز شریف کو تو جیل میں ڈالا مگر علیمہ خان، جہانگیر ترین، بابر اعوان اور علیم خان جیسے لوگ آزاد کیوں پھرتے رہے؟ جبکہ ان پر کرپشن کے بد ترین الزامات تھے۔
تاریخ ایک رنج اور دکھ کے ساتھ پوچھے گی کہ جمہوریت کی بقاء اور بنیادی انسانی حقوق کے لئے آپ کی خدمات کیا ہیں؟ ضمنی سوال یہ بھی ہوگا کہ سعد رفیق، حنیف عباسی، راجہ قمرالزمان اور سلمان رفیق تاریک کوٹھڑیوں میں بے شک پڑے رہیں لیکن کیا ان کے جرائم راؤ انوار سے زیادہ سنگین ہیں؟
تاریخ کا یہ سوال سسکیوں کے ساتھ آپ کے سامنے کھڑا ہے کہ جب آپ عدالتی کارروائی کے ذریعے عمران خان کے ساڑھے تین سو کنال گھر کو ریگولرائز کر رہے تھے، عین اس وقت غریب لوگوں کے چند مرلے گھر بلڈوزروں تلے آکر مسمار ہو رہے تھے اور وہ کھلے آسمان تلے بیٹھ کر دہائیاں دے رہے تھے۔ آپ نے ان کی چیخیں اور سسکیاں کیوں نہیں سنیں؟
یہ سوال بھی لازم ہو گا کہ علیمہ خان سے منی ٹریل کیوں نہیں مانگی اور جے آئی ٹی کیوں نہ بنی؟ جبکہ ایک معمولی سا جرمانہ لگا کر گند کو قالین کے نیچھے چھپانے کی بظاہر مجرمانہ کوشش بھی کی۔
تاریخ کا یہ لرزہ طاری کر دینے والا سوال بھی آپ کے سامنے ہے کہ جب راولپنڈی کے ایک بزرگ نے بھری عدالت میں آپ پر رشوت مانگنے کا الزام لگایا تو اس الزام پر انکوائری آرڈر کرنے یا جے آئی ٹی بنانے کی بجائے آپ اس بزرگ سے الجھتے ہوئے ان کو دھمکیاں کیوں دینے لگے؟
اور ہاں تاریخ اشتعال اور طنز کے ملے جلے رویے کے ساتھ یہ سوال بھی اٹھائے گی کہ کیا چیف جسٹس جیسے محترم ترین اور ذمہ دار منصب زیب کو زیبا تھا کہ۔ ۔ ۔
کبھی آپ ڈیم بنانے نکلے اور چندے مانگتے پھرے اور پھر ناکامی سے بھی دوچار ہوئے، کبھی کراچی رجسٹری میں ایک ملزم سے کہتے کہ عدالت سے ذرا باہر نکلو اور مجھے ہاتھ تو لگا کر دیکھو۔ کبھی پشاور کے ایک ہسپتال میں دیگچیاں اور پلیٹیں زمین پر پٹختے پھرے، کبھی متاثرین بالاکوٹ کے ساتھ مل کر احتجاج کی دھمکی دیتے تو، کبھی خاندانی منصوبہ بندی کے مبلغ بن جاتے۔
آپ کو ایک لمحے کے لئے بھی احساس نہ ہوسکا کہ آپ جس منصب پر بیھٹے ہیں وہ ایک محترم ترین اور ذمہ دار منصب ہے۔ اور یہ احترام برقرار رکھنے کے لئے انصاف اور سنجیدگی کی اشّد ضرورت ہوتی ہے۔
جناب ثاقب نثار صاحب آپ کی عدالت برخاست ہوچکی لیکن تاریخ اپنی عدالت لگانے کو ہے اور آپ اس خوفناک جرح کے سامنے اپنے پیشرو جسٹس منیر جسٹس مولوی مشتاق حسین جسٹس انوارالحق اور جسٹس ارشاد حسن خان کی مانند اکیلے اور سر جھکائے کھڑے ہوں گے۔
سوال سینکڑوں ہیں اور جواب کا امکان دور دور تک نہیں آپ کو تو شاید یہ بھی نہیں معلوم کہ آپ نے جسٹس میاں عبدالرشید، جسٹس اے آر کارنیلئس، جسٹس حمود الر حمان اور جسٹس دراب پٹیل جیسے قابل احترام اور عظیم ججز کی شاندار روایات کا کیا حال کیا؟
آپ کے ہاتھ میں ہمیشہ عدل کی میزان کی بجائے ایک کلہاڑا ہی نظر آتا رہا جس سے آپ اپنے ہر ”مخالف“ کا سر اڑاتے رہے۔
لیکن ثاقب نثار صاحب وقت کروٹ لے چکا آپ کا کلہاڑا (قلم) آپ کے ہاتھ سے پھسل گیا آپ کی زرہ (گاؤن) آپ کے جسم سے اتر چکا آپ کے مورچے کا مکین اب کوئی اور ہے۔
رہے آپ۔ تو وقت تاریخ کے کٹہرے میں آپ کو پیش کر چکی۔ لیکن ایک زمانہ بہت دیر تک حیرت اور رنج کے ساتھ سوچتا رہے گا کہ اس عظیم منصب لیکن کمزور کردار نے آپ کو بھی کہاں لا کھڑا کیا۔ تاریخ یہ نوحہ پڑھتے ہوئے سسکیاں لیتی رہے گی کہ چیف جسٹس کا منصب کس شان اور عظمت کا منصب تھا لیکن کس قماش کا آدمی یہاں آ کر بیٹھ گیا تھا۔
نواز شریف کو ایوانِ اقتدار سے بے دخل کرنے میں اس وقت کی اسٹیبلشمنٹ بھرپور طریقے سے شامل تھی۔ تاریخی شواہد منصہ شہود پر ہیں کہ عمران خان کو برسرِ اقتدار لانے کے لیے جنرل باجوہ اور جنرل فیض حمید نے اہم کردارادا کیا۔
آستین میں بت چھپائے ان صاحب کو قوم کے حقیقی منتخب نمائندوں نے ان کا زہر نکال کر آئینی طریقے سے حکومت سے نو دو گیارہ کیا تو یہ قوم اور اداروں کی آستین کا سانپ بن گئے اور آٹھ آٹھ آنسو روتے ہوئے ہر کسی پر تین حرف بھیجنے لگے۔