ایک لمحے کو وقت کے پہیے کا رخ موڑتے ہیں اور کیلنڈر کے اوراق کو 2016 کے مقام پر روک دیتے ہیں۔ 7 برس قبل کے زمانے میں چلتے ہیں۔ نواز شریف کا دورِ حکومت تھا۔ اس وقت ٹی وی چینلز 2 طرح کی خبریں نشر کر رہے تھے۔
ایک طرف تو حکومتِ وقت ہر روز کسی نہ کسی بڑے پراجیکٹ کا افتتاح کر رہی تھی، کہیں بجلی پیدا کرنے کے کارخانے لگ رہے تھے، کہیں میٹروز بن رہی تھیں، دہشتگردی اور لوڈشیڈنگ کے خاتمے کا جشن منایا جا رہا تھا، بلوچستان کے حالات بہتر ہورہے تھے، معیشت کے اعشاریے بہتری کی منزل کی جانب گامزن تھے، دنیا کی 20 بہترین معیشتوں میں پاکستان کی شمولیت کا ذکر اغیار کے اخبارات میں مل رہا تھا اور اس کے ایشین ٹائیگر بننے کی باتیں ہو رہی تھیں۔
This article was originally published on WE News.
دوسری جانب ڈان لیکس کا غلغلہ بلند ہورہا تھا، مریم نواز کے میڈیا سیل کے خلاف ٹی وی پروگرام چل رہے تھے، پاناما لیکس کے عنوان سے بڑے پیمانے پر کرپشن کا شور بلند ہورہا تھا، لندن کے 4 فلیٹوں پر مسلسل بات ہو رہی تھی، عمران خان کبھی دھرنا دے رہے تھے، کبھی لانگ مارچ کی دھمکی دی جا رہی تھی۔ طاہر القادری اور لندن گروپ اپنی کارروائی 2014 میں دکھا چکا تھا۔ ایسے میں وزیرِ منصوبہ بندی احسن اقبال نے سی پیک کا نام لینا شروع کیا۔ اس کے ساتھ ہی اس منصوبے کے خلاف میڈیا میں شور مچ گیا۔ کبھی مشرقی اور کبھی مغربی روٹ متنازعہ ہونے لگا، کبھی چین کے کارکنوں پر حملے ہونے لگے۔
حکومتِ وقت گیم چینجر منصوبے کی تفصیلات بتانے سے گریزاں تھی جبکہ میڈیا اس منصوبے کو متنازعہ بنانے پر تلا ہوا تھا۔ حکومت کے اہم افراد درونِ خانہ گفتگو کررہے تھے کہ ہم چین کے تعاون سے امریکا کے استبداد سے نکل سکتے ہیں، اس گیم چینجر منصوبے کی وجہ سے آئی ایم ایف اور ورلڈ بینک کے چنگل سے نکل سکتے ہیں لیکن حکومتِ وقت کی کرسی لڑکھڑا رہی تھی۔ قصہ کوتاہ ہم سب نے دیکھا کہ ایک متنازعہ عدالتی فیصلے کے نتیجے میں نواز شریف کو برطرف کیا گیا، ان کے ساتھیوں کو سزا دی گئی اور انتہائی متنازعہ انتخابات کے نتیجے میں، عنانِ اقتدار عمران خان کے حوالے کردی گئی۔ اس کے بعد جو کچھ اس ملک کے، اس کی معیشت اور فوج کے امیج کے ساتھ ہوا، وہ سب کے سامنے ہے۔
اس حقیقت سے اب کوئی انکار نہیں کرسکتا کہ نواز شریف کو ایوانِ اقتدار سے بے دخل کرنے میں اس وقت کی اسٹیبلشمنٹ بھرپور طریقے سے شامل تھی۔ تاریخی شواہد منصہ شہود پر ہیں کہ عمران خان کو برسرِ اقتدار لانے کے لیے جنرل باجوہ اور جنرل فیض حمید نے کیا کردارادا کیا۔
اگر ہم منطقی جائزہ لیں تو نواز شریف حکومت کی بے دخلی کا سبب ڈان لیکس تھیں نہ لندن کے 4 فلیٹ، نہ پاناما کیسں نہ مبینہ کرپشن۔ نواز شریف کا اصل جرم ’سی پیک‘ قرار پایا تھا۔ امریکا کے استبداد سے جس نے بھی نکلنے کی کوشش کی، اس کے ساتھ ایسا ہی ہوا۔ ہماری امریکا نواز اسٹیبلشمنٹ نے ہمیشہ ہر اُس قوت کو کچل دیا جو امریکی مفادات کے برعکس کوئی فیصلہ کرنا چاہتی تھی۔ ایسا پہلی بار نہیں ہوا۔
جب امریکا کو افغانستان میں جنگ شروع کرنا تھی، اس سے پہلے پاکستان میں ایک جمہوری حکومت کا گلا گھونٹ دیا گیا اور ایک ڈکٹیٹر کو ہمارے سروں پر 11 سال کے لیے مسلط کردیا گیا۔ اس کے بعد جب اپنے ہی لگائے خاردار پودوں پر دہشتگردی کا زہریلا پھل پکنے لگا تو اپنے ہی لوگوں پر بم برسانے کے لیے ایک جمہوری حکومت کا خاتمہ کرکے اس ملک کی باگ ڈور ایک دوسرے ڈکٹیٹر جنرل مشرف کے حوالے کردی گئی جو محض ایک امریکی فون کال پر ڈھیر ہوگیا۔
یہ ستم قیامِ پاکستان سے چل رہا ہے۔ بہت کم لوگ جانتے ہیں کہ لیاقت علی خان کے پہلے دورہ امریکا کے بعد پاکستان کو امریکا کی جھولی میں ڈال دیا گیا اور پھر اس ملک کو ایک کرائے کی ریاست کے طور پر استعمال کیا گیا۔ جہاں امریکی مفادات کی نگہبانی کی ضرورت پڑی وہاں پاکستان کی اسٹیبلشمنٹ نے امریکا سے ہمیشہ وفا کی۔ اس وفاداری کے چکر میں کبھی آئین توڑا، کبھی سیاسی جماعتیں لیکن کسی قوت کو بھی امریکی تابعداری کی راہ میں نہ آنے دیا گیا۔
کم ہی لوگ یہ حقیقت جانتے ہیں کہ 8 جون 1949 کو روس کے صدر جوزف اسٹالن نے وزیرِاعظم لیاقت علی خان کو دورہ روس کی دعوت دی تھی۔ وہ اس پر رضامند بھی تھے لیکن سرد جنگ کے عروج کے دور میں پھر دوسرے فریق امریکا نے انہیں دعوت دے ڈالی، یوں پاکستان کے پہلے وزیرِاعظم روس کا دورہ منسوخ کرکے امریکا یاترا پر روانہ ہوگئے تھے۔ پاکستان کی خارجہ پالیسی کی تشکیل میں یہ ایک فیصلہ کن موڑ تھا۔
وزیرِاعظم نوابزادہ لیاقت علی خان اور ان کی بیگم رعنا لیاقت علی خان، روس کی دعوت ٹھکرا کر 3 مئی 1950 کو امریکا کے سرکاری دورے پر واشنگٹن پہنچے جہاں خود امریکی صدر ہیری ٹرومین نے ایئرپورٹ پر ان کا والہانہ استقبال کیا تھا۔ وزیرِاعظم نوابزادہ لیاقت علی خان کو امریکی صدر کے ذاتی طیارے میں پاکستان سے لے جایا گیا تھا۔ وہ 3 مئی سے 26 مئی 1950ء تک امریکی حکومت کے سرکاری مہمان رہے۔ 3 ہفتوں کے اس سرکاری دورے میں انہیں امریکا بھر میں گھمایا پھرایا گیا اور ہر جگہ ان کا پرتپاک استقبال کروایا گیا تھا۔
5 ہفتے تک وزیرِاعظم نوابزادہ لیاقت علی خان اپنی بیگم کے ساتھ امریکا میں ذاتی حیثیت سے مقیم رہے، پھر 12 جولائی 1950 کو کینیڈا اور برطانیہ سے ہوتے ہوئے وطن واپس پہنچے جہاں ان کا بھرپور استقبال کیا گیا۔ ان سوا دو مہینوں نے پاکستان کی تاریخ اور نقشہ ہی بدل دیا۔
آج حالات پھر ہمیں ایک فیصلہ کن موڑ پر لے آئے ہیں۔
اس دفعہ پھر سی پیک کا شور مچا ہوا ہے لیکن اس مرتبہ خوش آئند بات یہ ہے کہ آرمی چیف جنرل عاصم منیر نے چین کا 4 روزہ دورہ کیا ہے جس کے مثبت نتائج آنے کی توقع ہے۔ اس دفعہ ایک ایسا شخص وزیرِاعظم ہے جس کی طرزِ سیاست پاکستان میں تو کچھ زیادہ مقبول نہیں مگر چین میں وہ ’شہباز اسپیڈ‘ کے نام سے جانا جاتا ہے۔ یوں لگتا ہے پہلی دفعہ امریکی استبداد سے رہائی کے لیے اسٹیبلشمنٹ بھی سیاسی جماعتوں کے ساتھ ہے اور شاید اسی بات کا غم عمران خان، چند منصفین کرام اور بے شمار ریٹائرڈ جرنیلوں کو کھائے چلا جا رہا ہے۔