نیویارک—امریکی جریدہ وال اسٹریٹ جرنل کے مطابق ستر سالہ سابق وزیراعظم جنہیں پارلیمنٹ کی جانب سے عہدے سے ہٹایا گیا، ان کا حکومت سے نکلنے کے ایک برس بعد دوبارہ واپسی کا عزم واشنگٹن کے لیے بھی ایک مخمصے کا باعث ہے۔ جریدہ کے مطابق عمران خان کا طرزِ عمل آمرانہ ہے اور ان کے اندر بنیاد پرستی کیلئے ہمدردی موجود ہے۔
جریدہ کے مطابق عمران خان کا دوسری مرتبہ حکومت میں آنا ممکنہ طور پر پاکستان کے اندرونی مسائل میں مزید اضافہ کر دے گا اور پاکستان کے امریکہ کے ساتھ تعلقات کی خرابی کا بھی باعث بن سکتا ہے۔
وال اسٹریٹ جرنل کے آرٹیکل کے مطابق عمران خان کی جماعت 2013 کے انتخابات میں حاصل کیے گئے ووٹوں کے لحاظ سے دوسرے نمبر پر رہی لیکن پھر 2018 میں فوج کی مدد سے وہ انتخابات جیت گئی اور صرف تین برس میں ہی عمران خان کا اس وقت کے آرمی چیف جنرل باجوہ، جنہوں نے انہیں اقتدارمیں لانے کیلئے انتہائی اہم کردار ادا کیا، کے ساتھ جھگڑا ہو گیا جس کی ابتداء آئی ایس آئی کے نئے سربراہ کی تقرری کے معاملہ پر ہوئی اور پھر بالآخر عمران خان کی حکومت تحریکِ عدم اعتماد کے نتیجہ میں ختم ہو گئی۔
جریدے کے مطابق نومبر میں عمران خان پر ایک ناکام قاتلانہ حملہ ہوا جس کا الزام وہ فوج اور حکمراں اتحاد پر عائد کرتے ہیں۔ رواں برس جنوری میں عمران خان نے پنجاب اور خیبرپختونخوا میں اپنی پارٹی کی صوبائی حکومتوں کو ختم کر کے قبل از وقت قومی انتخابات کیلئے راہ ہموار کرنے کی کوشش کی۔
وال اسٹریٹ جرنل نے مزید لکھا کہ عمران خان نے غیر ملکی صحافیوں کے ساتھ انٹرویوز میں نئے آرمی چیف کو تنقید کا نشانہ بنایا جس کے بعد ان کے حامیوں نے سوشل میڈیا پر فوج کے خلاف نفرت انگیز پراپیگنڈا کی بھرمار کر دی۔ فوج کے خلاف تنقید کرنے میں سینئر صحافی بھی اعتدال سے کام لیتے ہیں لیکن گزشتہ ایک برس میں عمران خان کے حامیوں نے کھلے عام فوج اور آرمی چیف پر تنقید کرنا شروع کی ہے۔
جریدے کے مطابق عمران خان دوبارہ اقتدار حاصل کرنے کی خاطر کسی بھی حد تک جانے سے گریزاں نہیں ہیں جس سے اس دلیل کو تقویت ملتی ہے کہ عمران خان دوبارہ ملک کی باگ ڈور سنبھالنے کیلئے قابلِ بھروسہ نہیں ہیں۔