برلن—جرمن اخبار ڈیراشپیگل کی مطابق خاتون صحافی سوزان کولبل نے 13 اپریل 2023 کو چیئرمین تحریکِ انصاف عمران خان سے ایک ویڈیو انٹرویو لیا۔ اس حوالہ سے شائع ہونے والے آرٹیکل میں لکھا گیا ہے کہ سابق کرکٹر اور پلے بوائے عمران خان کے پاس عورتوں، دولت اور شہرت کی کمی نہیں رہی، وہ ایک صوفی گرو سے متاثر ہوئے جو کہ دنیا سے رخصت ہو چکا ہے اور اب عمران خان پاکستان کو غربت، بدعنوانی اور اشرافیہ سے نجات دلانا چاہتے ہیں اور اس تنقید کو مسترد کرتے ہیں کہ ان کی وجہ سے پاکستان غیر مستحکم ہو رہا ہے۔
اس انٹرویو کے حوالہ سے ڈیراشپیگل میں شائع ہونے والے آرٹیکل کے مطابق عمران خان پاکستان میں خفیہ طور پر ملکی ڈوریں ہلانے والی فوجی قیادت کی آشیرباد سے 2018 میں وزیراعظم بنے لیکن ان کا دورِ حکومت سیاسی جبر، سفارتی سطح پر ناکامی اور سرمایہ کاری نہ ہونے کے حوالہ سے یاد رکھا جاتا ہے، عمران خان کے آرمی چیف سے تعلقات خراب ہوئے اور طاقتور فوج نے ان کی پشت پناہی سے ہاتھ روک لیا، بالآخر تحریکِ عدم اعتماد کے ذریعہ عمران خان کو اپریل 2022 میں اقتدار سے بےدخل ہونا پڑا اور تب اپوزیشن لیڈر رہنے والے شہباز شریف آج پاکستان کے وزیراعظم ہیں لیکن 70 سالہ عمران خان بھی ہار ماننے کیلئے تیار نہیں ہیں۔
مبینہ طور پر ایک قاتلانہ حملہ میں چار گولیاں لگنے سے زخمی ہونے والے عمران خان سے ان کی صحت کے متعلق پوچھا گیا تو انہوں نے بتایا کہ وہ روزے سے ہیں اور روزہ صحت کیلئے بہترین چیز ہے۔ ان کا مزید کہنا تھا کہ وہ اب چل تو سکتے ہیں لیکن تاحال دوڑنے کے قابل نہیں ہیں۔
سپریم کورٹ میں وفاقی حکومت کے خلاف کیس جیتنے اور انتخابات کی صورت میں ممکنہ طور پر دوبارہ برسرِ اقتدار آنے کے متعلق سوالوں کے جواب میں عمران خان کا کہنا تھا کہ قومی یا صوبائی اسمبلی تحلیل ہونے کے صورت میں آئین 90 روز میں انتخابات کے انعقاد کا حکم دیتا ہے مگر وفاقی حکومت سپریم کورٹ کے احکامات کو ماننے سے انکار کر رہی ہے کیونکہ وہ شکست سے خوفزدہ ہے اور جانتی ہے کہ میں دوبارہ حکومت میں آیا تو انہیں نہیں چھوڑوں گا۔
کارکنان کو سڑکوں پر لا کر ملک کو غیر مستحکم کرنے کے متعلق سوال کے جواب میں سابق وزیراعظم نے کہا کہ ان کے پاس کوئی دوسرا راستہ نہیں ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ پاکستان آج تاریخ کے بدترین معاشی بحران سے گزر رہا ہے۔ سوزان کولبل نے سوال پوچھا کہ تحریکِ انصاف کے دورِ حکومت میں بھی تو پاکستان دیوالیہ ہونے کی صورتحال سے گزر رہا تھا، جس پر عمران خان نے جواب دیا کہ اج ہم غربت کے حوالہ سے 50 سالوں کے بدترین دور سے گزر رہے ہیں، ہم دیوالیہ ہونے والے ہیں، وسیع پیمانے پر بےروزگاری، انڈسٹریز کے بند ہونے اور ایگریکلچر میں زوال کا خدشہ ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ ہمارے دور میں گروتھ ریٹ 6 فیصد تھا جو اب 0.4 فیصد پر آ چکا ہے۔
ڈیراشپیگل کی خاتون صحافی نے کہا کہ آپ کے دورِ حکومت سے موازنہ کیا جائے تو آج صحافیوں کے ساتھ نسبتاً نرم رویہ رکھا جا رہا ہے، عمران خان میزبان کی اس بات کا کوئی خاطر خواہ جواب نہ دے سکے اور صرف اتنا کہا کہ مجھے اچھی طرح سے یاد ہے کہ ہماری حکومت کو کیسے ختم کیا گیا۔
تحریکِ عدم اعتماد میں شکست کے حوالہ سے پوچھے گئے سوال کے جواب میں سابق وزیراعظم کا کہنا تھا کہ پارلیمنٹ میں ہمارے 20 بندوں کو خریدا گیا جس کا ہمیں بعد میں علم ہوا اور پھر ہم نے احتجاج کیا۔
میزبان نے تحریکِ انصاف کے دورِ حکومت میں ہونے والے بڑے احتجاجی مظاہروں کا ذکر کیا تو عمران خان نے کہا کہ ہمارے خلاف تین احتجاجی مارچ ہوئے مگر ہم نے پولیس کو استعمال نہیں کیا جبکہ ہمارے احتجاجی مارچ کے خلاف طاقت کا استعمال کیا گیا کیونکہ شہباز شریف (وزیراعظم پاکستان) کو جنرل باجوہ اور ملٹری اسٹیبلشمنٹ کی حمایت حاصل رہی۔
سوال پوچھا گیا کہ کیا آپ کو ایسا نہیں لگتا کہ آپ پاکستان کو غیر مستحکم کر رہے ہیں؟ تحریکِ انصاف کے چیئرمین نے جواب دیا کہ بطور اپوزیشن ہمارا مشن احتجاجی ریلیاں نکالنا ہے تاکہ ہم اپنا مؤقف بیان کر سکیں اور حکومت پر تنقید کر سکیں مگر افراتفری تب پیدا ہوتی ہے جب حکومت ہمارے پرامن احتجاج کے خلاف طاقت کا استعمال کرتی ہے۔
عمران خان کے خلاف عدالتوں میں دہشتگردی اور فسادات کیلئے اکسانے سمیت 143 الزامات کے متعلق سوال کے جواب میں سابق وزیراعظم کا کہنا تھا کہ یہ تقریباً ایک عالمی ریکارڈ ہے حتیٰ کہ 14 مارچ کو ان گنت پولیس اہلکار ہمارے راستے میں کھڑے ہو گئے اور ایک غیر قانونی سرچ وارنٹ کے ساتھ میرے گھر پر حملہ کیا گیا۔ لیکن تب آپ کہیں نظر کیوں نہیں آ رہے تھے؟ میزبان نے سوال پوچھا جس پر عمران خان نے جواب دیا کہ سیکیورٹی وجوہات کی بناء پر عدالت میں پیش نہیں ہو سکا۔
خاتون جرنلسٹ نے سوال پوچھا کہ بہت سارے الزامات ایسے ہیں جن کی وجہ سے آپ کو عوام کی نمائندگی کیلئے نااہل بھی قرار دیا جا سکتا ہے، ان میں سے ایک یہ الزام بھی ہے کہ آپ نے سعودی عرب کے ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان کی جانب سے پاکستان کیلئے بطور تحفہ ملنے والی قیمتی گھڑی کو انتہائی کم قیمت پر خرید کر مہنگے داموں فروخت کر دیا، یہ کیا ماجرا ہے؟
عمران خان نے جواب دیا کہ ایک سرکاری ملازم 50 فیصد قیمت ادا کر کے کوئی بھی تحفہ خرید سکتا ہے، میں نے وہ گھڑی بیچ کر اپنے گھر کی جانب آنے والی سڑک تعمیر کروائی جو کہ اچھی حالت میں نہیں تھی۔ انہوں نے مزید کہا کہ نواز شریف اور آصف زرداری کوئی قیمت ادا کیے بغیر مہنگی گاڑیاں استعمال کرتے رہے مگر ان سے کوئی سوال نہیں پوچھا جاتا۔
میزبان جرنلسٹ نے سوال پوچھا کہ آپ ایک بحران زدہ ملک کو مستحکم کیوں نہیں ہونے دیتے؟ آپ انتقالِ اقتدار کیلئے موسم خزاں (عام انتخابات کے مقررہ وقت) کا انتظار کیوں نہیں کر سکتے؟ سابق وزیراعظم نے جواب میں کہا کہ اس کی وجہ ناقابلِ برداشت کرپشن ہے، موجودہ وزیراعظم اور اس کے بیٹا کا عدالت میں منی لانڈرنگ کے حوالہ سے ٹرائل جاری تھا مگر وہ سابق آرمی چیف (جنرل قمر جاوید باجوہ) کے ساتھ ایک ڈیل کے تحت حکومت میں آ گئے کیونکہ جنرل باجوہ مزید ایکسٹینشن (مدتِ ملازمت میں توسیع) چاہتے تھے۔
مبینہ قاتلانہ حملہ، ممکنہ نااہلی اور ممکنہ گرفتاری کے متعلق پوچھے گئے ایک سوال کے جواب میں چیئرمین تحریکِ انصاف کا کہنا تھا کہ میرے مخالفین دوبارہ مجھے قتل کرنے کی کوشش کریں گے۔ انٹیلیجینس چیف، وزیراعظم شہباز شریف اور وزیرِ داخلہ رانا ثناء اللّٰہ مجھے قتل کروانا چاہتے ہیں۔ میں احتیاطی تدابیر اختیار کر رہا ہوں مگر وہ لوگ بہت طاقتور ہیں۔
He is addict power lier and organized paid from outside to devote Pakistan he will arrange by outside