واشنگٹن—واشنگٹن میں قائم امریکی اخبار ”دی واشنگٹن پوسٹ“ میں 28 مئی کو شائع ہونے والے آرٹیکل میں یہ دعویٰ کیا گیا ہے کہ تحریکِ انصاف کے چیئرمین عمران خان کی رواں ماہ گرفتاری نے پورے پاکستان میں فسادات کو جنم دیا جس کے بعد اب عمران خان تنہائی کا شکار نظر آتے ہیں کیونکہ ان کے حامی اور معاونین فوج کا دباؤ برداشت نہیں کر سکے اور عمران خان کی جماعت انہدام کے خطرات میں گھری ہوئی ہے، ایک ہفتہ سے بھی کم وقت میں “تحریکِ انصاف” کو بریک لگانے پر مجبور کر دیا گیا ہے۔
دی واشنگٹن پوسٹ کے مطابق 70 سالہ عمران خان، جنہیں ایک سال قبل پارلیمنٹ نے تحریکِ عدم اعتماد کے ذریعہ اقتدار سے بےدخل کر دیا، نے جمعہ کے روز کہا کہ طاقتور پاکستانی فوج ایک فاشسٹ ادارہ بن چکی ہے جس نے غیر اعلانیہ مارشل لاء نافذ کر رکھا ہے۔ انہوں نے عدلیہ سے فوجی مداخلت کو روکنے کا بھی مطالبہ کیا۔
امریکی اخبار کے شائع کردہ آرٹیکل میں بتایا گیا ہے کہ بدعنوانی کے سنگین الزامات میں 9 مئی کو عمران خان کی گرفتاری پر احتجاجی مظاہروں میں فوجی تنصیبات اور قومی علامات کی توڑ پھوڑ اور جلاؤ گھیراؤ میں ملوث فسادیوں کو دہشتگرد قرار دیا جا چکا ہے جبکہ پولیس نے تحریکِ انصاف کے راہنماؤں اور سینکڑوں مظاہرین کو بھی حراست میں لے لیا ہے۔
دی واشنگٹن پوسٹ نے لکھا ہے کہ بدامنی کے واقعات کی روک تھام کیلئے صوبوں میں فوج کو طلب کر لیا گیا ہے جبکہ سویلین اتھارٹیز کی منظوری کے بعد فوجی تنصیبات پر حملہ کرنے والوں کے خلاف فوجی عدالتوں میں مقدمات چلانے کا فیصلہ ہو چکا ہے، یہ ایک ایسا قدم ہے جو صرف دہشتگردی کے سنگین حالات میں ہی اٹھایا جاتا ہے۔ دوسری جانب عمران خان اور اس کے معاونین پرتشدد واقعات کی منصوبہ بندی کے الزامات کی تردید کر چکے ہیں اور ان کا مؤقف ہے کہ تخریب کاری میں ملوث افراد کو ہمارے پرامن مظاہرین میں سازش کے تحت شامل کیا گیا تھا۔
آرٹیکل کے مطابق گزشتہ کچھ دنوں سے عمران خان کے معاونین اور دیرینہ ساتھیوں کی جانب سے پارٹی رکنیت سے مستعفی ہونے سے اعلانات سامنے آ رہے ہیں اور وہ گرفتاریوں سے خوفزدہ اور شکست خوردہ دکھائی دے رہے ہیں جبکہ انہوں نے فوجی تنصیبات پر حملوں، فوجی علامات کو نذرِ آتش کرنے اور فوج کے شہداء کی یادگاروں کو نقصان پہنچانے کے واقعات کی مذمت بھی کی ہے۔
عمران خان کے ایک قریبی ساتھی اور تحریکِ انصاف کے شریک بانی عمران اسماعیل نے انسدادِ دہشتگردی کی عدالت سے رہائی ملنے کے بعد عمران خان سے تعلقات ختم کرنے کا اعلان کیا اور کہا کہ وہ فوجی تنصیبات پر حملوں اور پرتشدد واقعات کی شدید مذمت کرتے ہیں۔ عمران خان کا ساتھ چھوڑنے والوں میں ایک اہم نام 57 سالہ شیریں مزاری کا بھی ہے جو عمران خان کی کابینہ میں انسانی حقوق کی وزیر کی حیثیت سے شامل رہ چکی ہیں، انہوں نے ایک پریس کانفرنس میں پرتشدد واقعات کی مذمت کی اور کہا کہ ان کی گرفتاری کی وجہ سے ان کے خاندان کو شدید پریشانی کا سامنا کرنا پڑا، انہوں نے اپنی ماں، بچوں اور اپنی صحت کو ترجیح قرار دیتے ہوئے سیاست چھوڑنے کا اعلان کیا۔
امریکی اخبار کے آرٹیکل میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ عمران خان کبھی جس فوج کے لاڈلے تھے، اب اس کی مخالفت کے نتائج بھی بھگت رہے ہیں اور اگرچہ انہیں جیل سے رہا کر دیا گیا ہے مگر ان کے گرد گھیرا بہت تنگ ہو رہا ہے، عمران خان کا خیال تھا کہ وہ سٹریٹ پاور کو استعمال کرتے ہوئے فوج کو گرا سکتے ہیں لیکن انہیں پرتشدد ہتھکنڈوں کے استعمال پر پچھتاوا ہو گا اور یہ کہ تحریکِ انصاف کے گرد سیکیورٹی فورسز کا شکنجہ ان سیاسی جماعتوں کیلئے بہت مفید ثابت ہو گا جنہوں نے عمران خان کو اقتدار سے باہر نکالا۔
دی واشنگٹن پوسٹ کے مطابق عمران خان نے جمعہ کے روز سیاسی و فوجی قیادت سے مذاکرات کی اپیل کی لیکن شاید اب بہت دیر ہو چکی ہے اور ان کی اس پیشکش کی قبولیت کا کوئی امکان نظر نہیں آ رہا۔ عمران خان اور ان کے درجنوں ساتھیوں کے بیرون ملک سفر پر پابندی عائد کی جا چکی ہے۔ عمران خان نے واشنگٹن سے بھی مدد مانگی ہے اور امریکی کانگریس کے کئی ارکان نے 9 مئی کو عمران خان کی گرفتاری پر پرتشدد واقعات کے بعد جاری گرفتاریوں اور مبینہ بدسلوکی کی مذمت کی ہے۔ سابق سیکریٹری آف اسٹیٹ اور سی آئی اے کے ڈائریکٹر مائیک پومپیو اور امریکی کانگریس کی خاتون رکن شیلا جیکسن اس حوالہ سے ٹویٹس بھی کر چکے ہیں۔
امریکی اخبار کا کہنا ہے کہ واشنگٹن میں عمران خان کیلئے ہمدردی اس وقت کم ہوئی تھی جب عمران خان نے اقتدار سے بےدخل ہونے پر یہ الزام عائد کیا کہ امریکہ نے ایک سازش کے تحت انہیں اقتدار سے نکلوایا اور پاکستان میں ایک امپورٹڈ حکومت تشکیل دینے میں کردار ادا کیا۔ امریکی حکام کی جانب سے ان الزامات کی تردید کی گئی اور بالآخر عمران خان بھی اپنے الزامات کا رخ پاکستان کے آرمی چیف کی جانب موڑتے ہوئے امریکی سازش کے بیانیہ سے پیچھے ہٹ گئے۔
دی واشنگٹن پوسٹ نے دعویٰ کیا ہے کہ عمران خان کو ابتدائی طور پر فوج کی خاموش حمایت حاصل تھی لیکن پھر عمران خان عفریت بن کر اپنے تخلیق کاروں کے خلاف ہو گئے۔ فوجی قیادت فی الحال ماضی کی طرح اقتدار میں براہِ راست مداخلت کرنے سے گریزاں ہے جبکہ عمران خان سوشل میڈیا پر صرف ایک “کی بورڈ وارئیر” بن کر رہ گئے ہیں اور ایسا لگتا ہے کہ اس عفریت کو قابو کر لیا گیا ہے۔
آرٹیکل میں لکھا گیا ہے کہ موجودہ سیاسی بحران نے اکتوبر میں ہونے والے عام انتخابات کے منصوبہ کو بھی غیر یقینی صورتحال میں دھکیل دیا ہے، شاید ملک کو کئی مہینوں تک منتخب راہنماؤں کے بغیر چھوڑ دیا جائے جبکہ قوم کو شدید اقتصادی چیلنجز کا بھی سامنا ہے۔ عمران خان کی پارٹی سے سینیر معاونین اور بااثر حامیوں کے مسلسل انحراف نے بھی غیر یقینی صورتحال کو مزید تقویت دی ہے، ماضی میں روایتی سیاسی جماعتوں کو چھوڑ کر عمران خان کی پاپولسٹ سیاسی جماعت میں داخل ہونے والے کچھ ساتھیوں نے اپنی پرانی جماعتوں میں واپس جانے کا اعلان کیا ہے جبکہ دیگر نے سیاست چھوڑنے کا فیصلہ کر لیا ہے۔
تحریکِ انصاف کے سینیئر عہدیداروں، جمشید چیمہ اور مسرت چیمہ نے پارٹی چھوڑنے کا اعلان کرتے ہوئے صحافیوں کو بتایا کہ وہ فوجی تنصیبات پر حملوں کی وجہ سے پریشان ہیں، انہوں نے کہا کہ مظاہرین کو قابو نہ کرنا ہماری ناکامی تھی۔ جمشید کا کہنا تھا کہ وہ فوج کے شہداء کی علامات کی توڑ پھوڑ دیکھ کر غمگین ہیں۔
امریکی اخبار کے مطابق یہ کہنا قبل از وقت ہو گا کہ عمران خان کا سیاسی سفر اختتام کی جانب گامزن ہے تاہم فی الحال انہیں شریف حکومت کی جانب سے شدید مخالفت اور سیکیورٹی فورسز کے کریک ڈاؤن کا سامنا ہے۔