لندن/لاہور—برطانیہ کے قومی نشریاتی ادارہ ”بی بی سی“ کی خاتون جرنلسٹ کیرولین ڈیویز نے 29 مئی کو چیئرمین تحریکِ انصاف عمران خان سے زمان پارک لاہور میں واقع ان کی رہائش گاہ پر انٹرویو لیا۔ بی بی سی کے مطابق عمران خان کے گزشتہ چند ہفتے انتہائی مشکل رہے ہیں کیونکہ ان کے ہزاروں حامی جیلوں میں قید ہیں جبکہ دو درجن سے زائد پارٹی راہنما عمران خان سے تعلقات ختم کرنے کا اعلان کر چکے ہیں، ان کی جماعت پر پابندی کے بھی امکانات ہیں جبکہ عمران خان کو فوجی عدالت میں بھی بلایا جا سکتا ہے۔
برطانوی نشریاتی ادارہ کے مطابق عمران خان کی پارٹی کے خلاف کریک ڈاؤن ختم ہوتا نظر نہیں آ رہا، عمران خان کے حامی بھی یہ تسلیم کرتے ہیں کہ صورتحال بہت زیادہ مشکل ہو چکی ہے، عمران خان تیزی سے تنہائی کا شکار ہوتے نظر آ رہے ہیں جبکہ ان کے گھر کے باہر حامیوں کا وہ ہجوم بھی نظر نہیں آ رہا جو کبھی وہاں موجود ہوتا تھا، اب زمان پارک میں عمران خان کی رہائش گاہ کے اندر صرف پارٹی کے چند وکلاء ہی نظر آتے ہیں۔
عمران خان نے بی بی سی کی خاتون جرنلسٹ سے بات کرتے ہوئے کہا کہ یہ صورتحال میرے کیلئے بڑا مسئلہ نہیں ہے، جو لوگ پارٹی چھوڑ کر چلے گئے ہیں، ہم ان کی جگہ نوجوانوں کو آگے لائیں گے لیکن شاید انہیں بھی گرفتار کر لیا جائے، اس طرح کے دہشتگردانہ حربے تھوڑے وقت کیلئے ہی استعمال کیے جا سکتے ہیں مگر یہ صورتحال قابلِ برداشت نہیں ہے۔
انٹرویو کے دوران عمران خان سے سوال پوچھا گیا کہ آپ کے حامی آپ کو اپنی ”ریڈ لائن“ قرار دیتے رہے ہیں، اس کا کیا مطلب ہے؟
عمران خان نے جواب دیا کہ اس کا یہی مطلب ہے کہ میرے خلاف مقدمات میں مجھے گرفتار کر کے جیل میں ڈالا گیا تو ایک ردعمل آئے گا لیکن میں اس ردعمل کا ذمہ دار نہیں ہوں بلکہ یہ ذمہ داری پارٹی راہنماؤں اور کارکنان پر عائد ہوتی ہے
میزبان صحافی نے عمران خان کو بتایا کہ آپ کے حامیوں کو اسلام آباد میں پولیس پر غلیلوں، پتھروں اور ڈنڈوں سے حملے کرتے ہوئے دیکھا گیا ہے اور ایسی ویڈیوز بھی موجود ہیں جن میں آپ کے حامی فوجی املاک کو نذرِ آتش کر رہے ہیں۔
عمران خان نے خاتون جرنلسٹ کی یہ بات تسلیم کرنے سے انکار کر دیا۔
بی بی سی کے مطابق عمران خان کی باتیں اب ایک مفاہمت پسند شخص کی گفتگو لگ رہی ہیں، وہ فوج کے ساتھ بات کرنا چاہتے ہیں اور اب عمران خان کی رائے میں یہ کہنا احمقوں کی جنت میں رہنے کے مترادف ہے کہ فوج کا پاکستانی سیاست میں کردار ختم ہو جائے گا۔
برطانوی نشریاتی ادارہ کی خاتون جرنلسٹ سے بات کرتے یوئے عمران خان کا کہنا تھا کہ میں یہ جاننا چاہتا ہوں اسٹیبلشمنٹ میرے بارے میں کیا سوچتی ہے، کیا مجھے باہر کرنے سے پاکستان کو فائدہ ہو گا؟ مجھے نہیں معلوم کہ اب کیا ہونے والا ہے، ہو سکتا ہے کہ مجھے جیل میں ڈال دیا جائے۔
بی بی سی کے مطابق عمران خان فوج سے مذاکرات کرنا چاہتے ہیں لیکن انہوں نے یہ نہیں بتایا کہ اب وہ فوج کے سامنے ایسا کون سا مؤقف اختیار کریں گے جو پہلے نہیں کیا۔ مزید برآں، اگر پہلے فوج کے ساتھ بات چیت مشکل تھی تو اب تو اس کے امکانات انتہائی کم نظر آ رہے ہیں کیونکہ اب عمران خان بہت زیادہ کمزور سیاسی پوزیشن میں پہنچ چکے ہیں۔
انٹرویو کے دوران عمران خان سے ان کے دورِ حکومت میں اپوزیشن کو جیلوں میں ڈالنے کے متعلق بھی سوال پوچھا گیا جس کے جواب میں عمران خان کا کہنا تھا کہ ایسا ہر گز نہیں ہوا بلکہ اپوزیشن کے خلاف 95 فیصد مقدمات ہماری حکومت سے پہلے قائم ہوئے تھے۔
عمران خان کو گزشتہ برس اقتدار سے بےدخل ہونے کے بعد کرپشن اور بغاوت سمیت متعدد مقدمات کا سامنا ہے لہذا 9 مئی کو ان کی گرفتاری کوئی غیر متوقع بات نہیں تھی۔ عمران خان سیاسی طور پر ایک کونے میں پھنس چکے ہیں اور ایسا لگتا ہے کہ ان کے پاس اس صورتحال سے نکلنے کا کوئی منصوبہ نہیں ہے۔