لندن/لاہور—برطانوی اخبار دی انڈیپینڈنٹ کو انٹرویو دیتے ہوئے تحریکِ انصاف کے چیئرمین عمران خان نے خود کو جنوبی افریقہ کے پہلے منتخب صدر اور نسل پرستی کے خلاف مزاحمتی لیڈر ”نیلسن منڈیلا“ اور بھارت کے سیاسی و روحانی راہنما اور تحریکِ آزادی کے اہم ترین کردار ”موہن داس کرم چند گاندھی“ سے تشبیہ دے دی۔
سابق وزیراعظم کا کہنا تھا کہ وہ اور ان کی جماعت سنگین نوعیت کے مقدمات کے باوجود آئندہ انتخابات میں کامیابی حاصل کر کے اقتدار میں واپس آ سکتے ہیں تاہم وہ سمجھتے ہیں کہ انہیں کسی بھی وقت دوبارہ جیل میں ڈال دیا جائے گا کیونکہ ان کے مخالفین اس خوف میں مبتلا ہیں کہ عمران خان کے باہر رہنے سے تحریکِ انصاف کو فائدہ ہو گا۔
سابق کرکٹ سٹار نے اپنے خلاف دائر کرپشن، قتل، آتش زنی، توہینِ مذہب، بغاوت اور دہشتگردی سمیت سنگین الزامات پر مبنی مقدمات کو سیاسی قرار دیتے ہوئے کہا کہ یہ مقدمات انہیں اقتدار میں واپس آنے سے روکنے کیلئے بنائے گئے ہیں اور یہ کہ انہیں نااہل قرار دینے کی کوششیں بھی کی جا رہی ہیں۔
دی انڈیپینڈنٹ کے مطابق عمران خان کے مخالفین ان پر یہ الزامات عائد کرتے ہیں کہ پارلیمنٹ میں تحریکِ عدم اعتماد کے ذریعہ اقتدار سے بےدخل کیے جانے سے پہلے عمران خان نے اپنے تین سالہ دور میں سیاسی مخالفین اور صحافیوں پر کریک ڈاؤن جاری رکھا جبکہ وہ میڈیا پر سینسرشپ اور دیگر پابندیاں نافذ کرتے رہے، عمران خان کے متعلق بڑے وسیع پیمانے پر یہ رائے بھی پائی جاتی ہے کہ 2018 کے انتخابات میں ان کی کامیابی فوج کی حمایت کی وجہ سے ممکن ہو سکی تھی لیکن اب عمران خان اسی فوج پر انہیں اقتدار سے بےدخل کرنے اور ان پر قاتلانہ حملہ کروانے جیسے سنگین الزامات عائد کرتے ہیں۔
تحریکِ انصاف کے چیئرمین نے سیاست کے متعلق بات کرتے ہوئے کہا کہ میں اپنے بیٹوں کو کبھی بھی سیاست میں آنے کا مشورہ نہیں دوں گا، میں ہمیشہ کہتا ہوں کہ سیاست میں کبھی نہیں جانا کیونکہ سیاست بدترین شعبہ ہے۔
برطانوی اخبار کا کہنا ہے کہ مئی میں عمران خان اور ان کے ساتھیوں کی گرفتاری کے بعد تحریکِ انصاف کے سینیئر راہنماؤں نے پارٹی سے علیحدگی اختیار کر لی جبکہ ان میں سے کچھ ارکان نئی سیاسی جماعتیں بنانے کا اعلان بھی کر چکے ہیں۔