اللہ تعالیٰ کے آخری نبی سیدنا محمد (صلی اللّٰه علیہ وآلہ وسلم) کے جلیل القدر صحابی، نبی آخر الزماںﷺ کے جانثار ساتھی، خاتم النبیینﷺ کے وزیر، انتخابِ رب العالمین، عظیم المرتبہ انسان، بےمثال حکمران، نظامِ عدل و انصاف کے آفتاب، حق گو اور بےباک شخصیت، عبقری کردار کے مالک، کفار و مشرکین کیلئے قہرِ الٰہی کا پیغام، مؤمنین کیلئے راحتِ قلب و جان، خلیفہ بلا فصل سیدنا ابوبکرؓ الصدیق کے بعد ایمان والوں کے امیر و امام، اسلام کے دوسرے خلیفۂ راشد، آقا نبی کریمﷺ کی چوتھی رفیقۂ حیات یعنی ام المؤمنین سیدہ حفصہؓ کے والد یعنی خسرِ رسولﷺ، تاریخِ اسلام کے عظیم الشان جرنیل، دامادِ علیؓ المرتضیٰ، شمشیرِ حق، فاتح بیت المقدس، فاتح قیصر و کسریٰ، عالم و زاہد، شہیدِ محرابِ رسولﷺ اور خاتم الانبیاءﷺ کے یارِ مزار امیرالمؤمنین عمر ابن الخطاب (رضی اللّٰه تعالیٰ عنہ) سے محبت و عقیدت بلا شک و شبہ ایمان کا لازمی جزو ہے۔
عمر بن خطاب بن نفیل بن عبدالعزیٰ بن ریاح بن عبداللّٰہ بن قرط بن زراح بن عدی بن کعب بن لؤی قرشی عدوی ۔۔ سلسلہ نسب کعب بن لؤی یعنی نویں پشت میں آقا نبی کریمﷺ سے جا ملتا ہے، آپؓ ہجرتِ نبویﷺ سے چالیس برس قبل عرب کے مقدس شہر مکہ میں پیدا ہوئے، لقب فاروق اور کنیت ابوحفص بھی پیارے آقاﷺ کے ہی عطا کردہ ہیں، آپؓ آقا محمدﷺ کی جانب سے نبوت کے اعلان کے چھٹے سال 35 برس کی عمر میں ایمان لائے جبکہ آپؓ کو یہ شرف بھی حاصل ہے کہ آپؓ کے اسلام کیلئے خود نبی کریمﷺ نے دعا فرمائی تھی یعنی سیدنا عمرؓ مرادِ رسولﷺ ہیں، سیدنا عمرؓ کا شمار ان دس صحابہؓ یعنی عشرہ مبشرہ میں بھی ہوتا ہے جن کا نام لے کر آقا نبی کریمﷺ نے جنت کی بشارت دی۔ (سنن ابی داؤد و جامع ترمذی)
مفسرِ قرآن سیدنا عبداللّٰہؓ بن عباسؓ روایت فرماتے ہیں کہ سیدنا عمرؓ کے اسلام قبول کرنے پر آقا نبی کریم (صلی اللّٰه علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا؛ جبرائیلؑ میرے پاس آئے اور کہا کہ آسمان والے عمرؓ کے قبولِ اسلام پر خوشیاں منا رہے ہیں۔ (مستدرک للحاکم و طبقاتِ ابنِ سعد)
سیدنا عمرؓ نے قبولِ اسلام کے بعد نبی کریمﷺ کی خدمت میں عرض کی؛ اے اللّٰه کے نبی! کیا ہم حق پر نہیں ہیں؟
آپ (صلی اللّٰه علیہ وآلہ وسلم) نے اثبات میں جواب دیا تو عمرؓ کہنے لگے؛ پھر ہم چھپ کر عبادت کیوں کریں؟ چلیے خانہ کعبہ میں جا کر عبادت کرتے ہیں۔
اللّٰه کے آخری نبیﷺ نے صحابہ کرام (رضوان اللّٰه علیہم اجمعین) کو دو صفوں میں تقسیم فرمایا، ایک صف کے آگے سید الشہداء سیدنا حمزہؓ چل رہے تھے جبکہ دوسری صف کے آگے سیدنا عمرؓ چل رہے تھے۔
یہ مؤمنین جب خانہ کعبہ میں داخل ہوئے تو کفارِ مکہ نے دیکھا اور ان کی نظر سیدنا حمزہؓ اور سیدنا عمرؓ پر پڑی تو وہ بڑے غمگین ہوئے مگر کسی کو بھی کچھ بولنے کی جرأت نہ ہو سکی۔
اس دن سے مؤمنین کیلئے تبلیغِ دین میں آسانیاں پیدا ہوئیں اور یہی وہ دن تھا کہ جب اللّٰه کے آخری رسول سیدنا محمدﷺ نے ارشاد فرمایا؛ اللّٰه تعالیٰ نے عمرؓ کے قلب و لسان پر حق کو جاری فرما دیا اور عمرؓ “فاروق” ہے، اللّٰه تعالیٰ نے عمرؓ کے ذریعہ حق و باطل میں فرق کر دیا۔ (طبقاتِ ابنِ سعد)
ایک موقع پر آقا نبی کریمﷺ نے ارشاد فرمایا؛ اے ابنِ خطاب! اس ذات پاک کی قسم جس کے دستِ قدرت میں میری جان ہے، شیطان جس راستے پر آپؓ کو چلتا ہوا پا لیتا ہے وہ اس راستہ سے ہٹ جاتا ہے اور وہ راستہ چھوڑ کر دوسرا راستہ اختیار کر لیتا ہے۔ (صحیح بخاری)
ام المؤمنین سیدہ عائشہ صدیقہ (رضی اللّٰه تعالیٰ عنہا) سے روایت ہے کہ حضور خاتم الانبیاءﷺ نے ارشاد فرمایا؛ تم سے پہلے جو امم (امتیں) گزری ہیں ان میں محدث ہوا کرتے تھے اور میری امت میں اگر کوئی محدث ہے تو وہ عمرؓ ہے۔ (صحیح مسلم)
سیدنا عقبہؓ بن عامر سے روایت ہے کہ آقا خاتم النبیین (صلی اللّٰه علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا؛ اگر میرے بعد کوئی نبی ہوتا تو وہ عمرؓ ابن الخطاب ہوتے۔ (جامع ترمذی)
خلیفہ بلا فصل سیدنا ابوبکرؓ الصدیق کی وفات کے بعد امیر المؤمنین عمرؓ ابن الخطاب 22 جمادی الثانی 13 ہجری کو مسندِ خلافت پر فائز ہوئے۔ آپؓ کے دورِ خلافت میں مصر، ایران، روم اور شام جیسی بڑی ریاستیں فتح ہوئیں اور اسلامی سلطنت کی حدود 22 لاکھ مربع میل تک پھیل گئی۔ آپؓ نے پولیس، نظامِ عدل، ڈاک، زراعت، جیلوں اور سراؤں سمیت کئی شعبوں کی بنیاد رکھی جبکہ مرکزی دفتر کا قیام، مجلسِ شوریٰ کا قیام، صوبائی تقسیم، صوبوں میں گورنروں کی تقرری، عاملوں کیلئے فرامین و حلف کا نظام، مال و اسباب کی فہرست و محاسبہ، متفرق عہدیداران یا حکام، والی، کاتب (سیکرٹری)، صاحبِ بیت المال (وزیرِ خزانہ)، صاحب الخراج، کاتبِ دیوان، صاحب الاحداث (پولیس افسر)، قاضی، بیت المال یا خزانے کا قیام، خراج، جزیہ، غنائم، عشور، صدقات و زکوٰۃ کیلئے جامع نظام، ریاستی کاروبار کے منافع کیلئے اقدامات، اوقاف اور لاوارث افراد کے ترکے کیلئے اصول و ضوابط، باقاعدہ فوج کا قیام، عدالتی نظام، تعلیمی و دعوتی نظام اور رفاہِ عامہ کا نظام خلافتِ فاروقیؓ کے وہ کارہائے نمایاں ہیں جن سے اسلام ایک باقاعدہ نظام کی شکل میں سامنے آیا۔
امیرالمؤمنین عمرؓ ابن الخطاب نے دعا مانگی تھی؛ اے اللّٰه مجھے تیرے راستے میں شہادت کی موت آئے اور تیرے نبیﷺ کا شہر نصیب ہو۔ اللّٰه رب العزت نے آپؓ کی یہ دعا قبول فرمائی اور اس کا ایک عجیب انتظام فرمایا۔ سیدنا مغیرہؓ بن شعبہ کا ایک مجوسی غلام تھا جس کا نام ابولؤلؤ فیروز تھا، اس نے ایک تیز جنجر تیار کیا اور 27 ذی الحج 23 ہجری کو نمازِ فجر میں چھپ کر آ کے بیٹھ گیا، جب امیرالمؤمنین عمرؓ ابن الخطاب نے تکبیر کہی تو اس نے اٹھ کر زور سے تین وار کیے جس سے امیرالمؤمنین عمرؓ ابن الخطاب زخمی ہو کر گر پڑے، موت و حیات کی اس کشمکش میں سیدنا عبدالرحمٰنؓ بن عوف کو نماز پڑھانے کیلئے آگے بڑھایا، سیدنا عبدالرحمٰنؓ بن عوف نے مختصر نماز پڑھ کر سلام پھیرا، ابولؤلؤ نے چاہا کہ کسی طرح مسجد سے باہر نکل کر فرار ہو جائے مگر نمازیوں کی صفیں دیوار کی مثل حائل تھیں اور نکل جانا آسان نہ تھا، ابولؤلؤ نے 13 صحابہؓ کو زخمی کر دیا جن میں سے سات جانبر نہ ہو سکے، نماز مکمل ہوئی تو ابولؤلؤ پکڑا گیا اور جب وہ گرفت میں آیا تو ازخود خنجر مار کر ہلاک ہو گیا، یکم محرم 24 ہجری کو امیرالمؤمنین عمرؓ ابن الخطاب کی شہادتِ عظمیٰ کا واقعہ پیش آیا اور تدفین عمل میں آئی۔
شہادت کے وقت امیرالمؤمنین عمرؓ ابن الخطاب کی عمر مبارک تریسٹھ برس تھی، سیدنا صہیبؓ نے نماز جنازہ پڑھائی اور خاص روضۂ نبویﷺ میں سیدنا ابوبکرؓ الصدیق کے پہلو میں قبر مبارک بنائی گئی۔