تحریکِ انصاف کے چیئرمین عمران خان کو فی الحال ڈیڑھ سو سے زائد مقدمات کا سامنا ہے جن میں متعدد مقدمات ایسے بھی ہیں جو نہ صرف انہیں جیل کی سلاخوں کے پیچھے پہنچا سکتے ہیں بلکہ ان کے سیاسی مستقبل کو بھی ناقابلِ تلافی نقصان پہنچا سکتے ہیں یعنی سابق وزیراعظم ہمیشہ کیلئے سیاسی میدان سے باہر بھی ہو سکتے ہیں۔
اس حوالہ سے آنے والا ہفتہ سابق کرکٹر عمران خان کے سیاسی مستقبل کیلئے فیصلہ کن ثابت ہو سکتا ہے، عمران خان کے خلاف عدالتوں میں زیرِ سماعت مقدمات میں سے چند انتہائی اہم کیسز کے فیصلے آئندہ کچھ روز میں متوقع ہیں اور ان میں عمران خان کو جیل میں قید کے علاوہ اسمبلی رکنیت سے نااہلی کی سزا کا سامنا بھی کرنا پڑ سکتا ہے۔
ایف آئی اے نے عمران خان کو سائفر تحقیات کے انتہائی حساس معاملہ میں یکم اگست کو طلب کر رکھا ہے، یہ معاملہ آفیشل سیکرٹ ایکٹ 1923 کے سیکشن 5 کی خلاف ورزی کا ہے، ایف آئی اے کے مطابق عمران خان سے ان کے 25 جولائی کو ریکارڈ کروائے گئے بیان کے متعلق سوالات پوچھے جائیں گے جبکہ نوٹس میں عمران خان کو متعلقہ ریکارڈ اور دستاویزات بھی ساتھ لانے کا کہا گیا ہے۔
خفیہ دستاویزات کا اِفْشا کرنا وزیراعظم کے عہدے کے حلف کی سنگین خلاف ورزی ہے، آفیشل سیکرٹ ایکٹ 1923 کے سیکشن 5 کے تحت اگر عدالت میں جرم ثابت ہو جائے تو 2 سال سے 14 سال تک قید اور جرمانے کی سزا ہو سکتی ہے جبکہ کچھ معاملات میں موت کی سزا بھی سنائی جا سکتی ہے۔
ایک اور انتہائی اہم نوعیت کے مقدمہ ”توشہ خانہ کیس“ کی سماعت بھی حتمی مرحلہ میں داخل ہو چکی ہے اور اسلام آباد ہائیکورٹ نے توشہ خانہ کیس میں عمران خان کی درخواستیں خارج کرتے ہوئے توشہ خانہ کیس کو قابلِ سماعت بھی قرار دے دیا ہے۔ عمران خان نے اسلام آباد ہائیکورٹ کے فیصلے کے خلاف سپریم کورٹ سے رجوع تو کیا ہے تاہم قانونی ماہرین کا کہنا ہے کہ عمران خان ٹیکنیکل گراؤنڈز پر اس معاملہ کو زیادہ دیر تک الجھا نہیں سکیں گے۔
توشہ خانہ کیس میں جرم ثابت ہونے پر عمران خان کو تین سال قید اور نااہلی کی سزا ہو سکتی ہے جس سے ان کا سیاسی مستقبل تباہ ہو سکتا ہے۔ سب سے بڑا سوال تو یہ ہے کہ ان کی نااہلی کی صورت میں تحریکِ انصاف کا سیاسی مستقبل کیا ہو گا اور اگر عمران خان جیل میں قید ہو جائیں تو تحریکِ انصاف کی انتخابی مہم کون چلائے گا۔
سابق وزیراعظم ذوالفقار بھٹو کی پھانسی کے بعد پیپلز پارٹی کو نصرت بھٹو اور بینظیر بھٹو کی شکل میں ان کے سیاسی جانشین ملے جبکہ پرویز مشرف کے دورِ آمریت میں جب میاں نواز شریف پسِ زنداں تھے تو محترمہ کلثوم نواز نے مسلم لیگ کی باگ ڈور سنبھالی اور پھر 2017 میں سپریم کورٹ نے میاں نواز شریف کو تاحیات نااہل قرار دیا تو ان کے پاس مریم نواز اور شہباز شریف کی شکل میں سیاسی جانشین موجود تھے لیکن عمران خان کے پاس ایسا کوئی سیاسی جانشین نہیں ہے، ان کے بچے برطانیہ میں پرورش پا رہے ہیں جبکہ عمران خان بین الاقوامی میڈیا کو انٹرویوز دیتے ہوئے یہ اعتراف بھی کر چکے ہیں کہ ان کے بچے پاکستان نہیں آ سکتے کیونکہ ان کیلئے یہ ملک خطرناک ہے۔
پرویز مشرف کے دورِ آمریت میں جب سیاسی قیادت پر زمین تنگ کر دی گئی تو محترمہ بینظیر بھٹو نے پیپلز پارٹی کو بچانے کیلئے مخدوم امین فہیم پر بھرپور اعتماد کا اظہار کیا جبکہ میاں نواز شریف نے مسلم لیگ کو بچانے کیلئے جماعت مخدوم جاوید ہاشمی کے سپرد کر دی تھی مگر عمران خان اس حوالہ سے تحریکِ انصاف کے اندر کسی پر بھی اعتماد کرنے کیلئے تیار نظر نہیں آ رہے۔
مزید برآں، 9 مئی کے پرتشدد واقعات کے بعد تحریکِ انصاف کے 90 فیصد راہنما عمران خان کا ساتھ چھوڑ کر دیگر جماعتوں میں جا چکے ہیں جبکہ بعض افراد نے اپنی نئی جماعتیں بھی بنا لی ہیں جبکہ تحریکِ انصاف میں موجود دیگر راہنماؤں میں سے کچھ جیلوں میں قید ہیں اور باقی مفرور ہیں۔ ان حالات میں نہ صرف عمران خان بلکہ ان کی جماعت ”تحریکِ انصاف“ کا سیاسی مستقبل بھی تاریک نظر آ رہا ہے۔