نیویارک/اسلام آباد—امریکی جریدہ ”دی وال سٹریٹ جرنل“ نے مبینہ سائفر کا متن شائع کرنے والی امریکی نیوز ویب سائٹ ”انٹر سیپٹ“ کی سٹوری کو گمراہ کن اور مضحکہ خیز قرار دے دیا۔
وال سٹریٹ جرنل کے مطابق انٹر سیپٹ نے دعویٰ کیا تھا کہ امریکی محکمہ خارجہ نے پاکستان میں عمران خان کو اقتدار سے ہٹانے کیلئے کردار ادا کیا تھا تاہم اس الزام کا کوئی بھی ثبوت موجود نہیں ہے بلکہ اگر دیکھا جائے تو یہ الزام قابلِ تمسخر ہے۔
امریکی اخبار کے مطابق عمران خان اپنے سابق سرپرست جنرل (ر) قمر جاوید باجوہ سے اختلافات کے باعث اقتدار سے محروم ہوئے، جنرل (ر) قمر جاوید باجوہ اس وقت آرمی چیف تھے اور انہیں عمران خان کو اقتدار سے ہٹانے کیلئے امریکی اجازت یا امریکی مدد کی ضرورت نہیں تھی کیونکہ پاکستان میں فوجی جرنیل کئی دہائیوں سے سویلین حکومتوں کو اقتدار سے بےدخل کرتے آئے ہیں، اس میں امریکی محکمہ خارجہ کی مداخلت کا الزام بلاجواز ہے۔
وال سٹریٹ جرنل میں شائع ہونے والے آرٹیکل میں لکھا گیا ہے کہ کچھ لوگ ”انٹر سیپٹ“ کی کہانی کو درست سمجھ رہے ہیں کیونکہ امریکہ نے سرد جنگ کے دوران ایران، چلی اور انڈونیشیا کی حکومتوں کا تختہ الٹ دیا تھا اور پاکستان کے عوام خاص طور پر امریکہ کو بہت زیادہ اثر و رسوخ والی طاقت سمجھتے ہیں جیسا کہ مقامی کہاوت ہے کہ ہر چیز کا فیصلہ اللّٰه، فوج یا امریکہ کرتا ہے۔
انٹر سیپٹ نے جو قابلِ تمسخر کہانی بیان کی ہے اس کے مطابق انٹر سیپٹ کو پاکستانی فوج کے کسی فرد کی طرف سے مارچ 2022 والا سائفر موصول ہوا ہے جس میں اس وقت کے پاکستانی سفیر نے اسلام آباد کو ڈونلڈ لو کے ساتھ ہونے والی ناخوشگوار ملاقات کی اطلاع دی تھی، کہانی کے مطابق ڈونلڈ لو نے مبینہ طور پر عمران خان کے دورہ ماسکو پر خفگی کا اظہار کیا اور کہا کہ اگر وزیراعظم کے خلاف تحریکِ عدم اعتماد کامیاب ہو گئی تو میرا خیال ہے کہ امریکہ سب کچھ معاف کر دے گا۔
انٹر سیپٹ کی سٹوری میں لکھا گیا ہے کہ یہ ریمارکس پاکستانی فوج کیلئے ایک اشارہ تھے کہ وہ عمران خان کے خلاف ایکشن لے، اپوزیشن جماعتوں نے اگلے ہی دن تحریکِ عدم اعتماد جمع کروا دی اور ایک ماہ بعد عمران خان کو عہدے سے ہٹا دیا گیا جبکہ پاکستانی فوج نے اس کے بعد یوکرین کو جنگی امداد پہنچا کر امریکہ کے ساتھ تعاون کیا ہے۔
دی وال سٹریٹ جرنل کے مطابق واشنگٹن کے خلاف ان الزامات کا کوئی جواز نہیں ہے، مبینہ کیبل امریکی نہیں بلکہ پاکستانی ہے اور ایک پاکستانی سموکنگ گن امریکہ پر کوئی جرم ثابت نہیں کر سکتی، یہ خیال بھی عجیب ہے کہ ایک یورپی جنگ کے دوران امریکہ دور دراز پاکستان میں حکومت کی تبدیلی کیلئے سازش میں مصروف ہو گا اور ایسا کون سا ملک ہو گا جو کسی دوسرے ملک کے حکمران کو اسی ملک کے سفیر کے ذریعہ پیشگی طور پر ٹیلی گراف بھیج کر اقتدار سے ہٹانے کی سازش کرے گا؟
امریکی اخبار کے مطابق جہاں تک روس یوکرین جنگ میں پاکستان کی طرف سے یوکرین کی مدد کی بات ہے تو ایسے معاملات پاکستان میں ہمیشہ فوج کے اختیار میں رہے ہیں اور اس سے ہر گز کوئی فرق نہیں پڑتا کہ وزیراعظم کون ہے۔
حقیقت یہ ہے کہ عمران خان اور جنرل (ر) قمر جاوید باجوہ کے درمیان تعلقات 2021 میں اس وقت خراب ہوئے جب آئی ایس آئی کے نئے سربراہ کی تعیناتی کے معاملہ پر عمران خان آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ کو زیر کرنے میں ناکام ہوئے، پاکستانی فوج کے سربراہ کو عمران خان کے خلاف کوئی بھی قدم اٹھانے کیلئے واشنگٹن سے کسی گرین لائٹ کی ضرورت نہیں تھی، دنیا جانتی ہے کہ پاکستان کی سیاست کس طرح چلتی ہے۔
دی وال سٹریٹ جرنل کے مطابق عمران خان کے حامیوں کیلئے حقائق کو تسلیم کرنا مشکل ہے مگر گزشتہ ایک دہائی کے دوران پاکستان کیلئے امریکی دلچسپی میں بڑی کمی آئی ہے جس کی وجوہات دہشتگردی کے خلاف جنگ میں پاکستان کی مبینہ بےوفائی، بھارت کیلئے امریکی محور کا تسلسل اور 2021 میں افغانستان سے امریکی انخلاء ہیں۔
امریکہ نے 2010 میں کیری لوگر بل کی منظوری کے ایک سال بعد پاکستان کو تقریباً 4.5 بلین ڈالرز معاشی و فوجی امداد فراہم کی اور نیو یارک ٹائمز نے اس سال کم و بیش 2100 بار پاکستان کا ذکر کیا مگر 2021 تک امریکی امداد کم ہو کر صرف 87 ملین ڈالرز رہ گئی تھی جبکہ نیو یارک ٹائمز میں پاکستان کے ذکر میں 50 فیصد سے بھی زیادہ کمی دیکھنے میں آئی۔
امریکی اخبار کے مطابق ممکن ہے کہ امریکہ عمران خان کو ناپسند کرتا ہو مگر یہ عمران خان کے خلاف کسی سازش کی دلیل نہیں ہو سکتی۔