تل ابیب\یروشلم (تھرسڈے ٹائمز) — اسرائیلی اخبار ”دی ٹائمز آف اسرائیل“ نے دعویٰ کیا ہے کہ اسرائیلی وزیراعظم بنجمن نیتن یاہو نے کئی برسوں تک حماس کو سہارا دیئے رکھا، فلسطینی صدر محمود عباس کو کمزور کرنے اور فلسطینی ریاست کے قیام کو روکنے کیلئے اسرائیلی وزیراعظم نے حماس کے ساتھ برسوں تک شراکت داری قائم رکھی۔
دی ٹائمز آف اسرائیل کے مطابق بینجمن نیتن یاہو کی زیرِ قیادت مختلف حکومتوں نے کئی برسوں تک غزہ اور مغربی کنارے کے درمیان طاقت کو تقسیم کرنے کی پالیسی اختیار کیے رکھی جس نے فلسطینی صدر محمود عباس کو گھٹنے ٹیکنے پر مجبور کیا جبکہ حماس کو ہر لحاظ سے مضبوط کیا۔
اسرائیلی اخبار نے لکھا ہے کہ بینجمن نیتن یاہو کی حماس کو مضبوط کرنے کی پالیسی کا مقصد محمود عباس سمیت تمام فلسطینی اتھارٹی کو فلسطینی ریاست کے قیام کی جانب پیش قدمی سے روکنا تھا، اسرائیل نے فلسطینی صدر محمود عباس اور فلسطینی کاز کو نقصان پہنچانے کی کوشش میں حماس کو محض ایک دہشت گرد گروپ سے ایک ایسی تنظیم میں تبدیل کر دیا جس کے ساتھ اسرائیل کو مصر کی ثالثی میں مذاکرات کرنے پڑے اور حماس کو بیرون ممالک سے نقد رقوم وصول کرنے کی اجازت دی گئی۔
یروشلم میں قائم اخبار کے مطابق اسرائیل نے حماس کو غزہ کے مزدوروں کیلئے ورک پرمٹس فراہم کیے اور ان کی تعداد میں مسلسل اضافہ ہوتا رہا، غزہ میں پیسہ پانی کی طرح بہایا گیا جبکہ غزہ کے مزدوروں کو اجازت نامے فراہم کرنے اور نسبتاً زیادہ تنخواہیں دینے کے متعلق اسرائیلی حکام نے یہ مؤقف اختیار کیا کہ یہ سب کچھ قیامِ امن کیلئے کیا جا رہا ہے۔
ٹائمز آف اسرائیل کے مطابق 2021 میں بنجمن نیتن یاہو کی پانچویں حکومت کے اختتام پر غزہ کیلئے کم و بیش 3 ہزار ورک پرمٹس جاری کیے گئے اور پھر یہ تعداد 5 ہزار تک چلی گئی جبکہ بینیت لیپڈ حکومت کے دوران یہ تعداد تیزی سے بڑھتی ہوئی 10 ہزار تک پہنچ گئی، بعدازاں جنوری 2023 میں بنجمن نیتن یاہو کے اقتدار میں واپس آنے کے بعد ان ورک پرمٹس کی تعداد 20 ہزار سے بھی تجاوز کر گئی۔
اسرائیلی اخبار نے الزام عائد کیا ہے کہ بینجمن نیتن یاہو کی زیرِ قیادت حکومتوں نے 2014 کے بعد غزہ سے فائر کیے گئے راکٹس اور آگ لگانے والے غباروں کے متعلق عملی طور پر آنکھیں بند کیے رکھیں جبکہ اسرائیل نے 2018 کے بعد حماس کے ساتھ جنگ بندی کو برقرار رکھنے کیلئے اپنے بارڈرز سے لاکھوں قطری نقدی والے سوٹ کیسز کو غزہ میں داخل ہونے کی اجازت دی۔
دی ٹائمز آف اسرائیل نے دعویٰ کیا ہے کہ اسرائیل فلسطینی اتھارٹی کو بوجھ اور حماس کو اپنا اثاثہ سمجھتا رہا اور اس بات کا اعتراف موجودہ سخت گیر حکومت کے وزیرِ خزانہ اور مذہبی زائنسٹ پارٹی کے راہنما بتسلايل سموتريش نے بھی کیا تھا جبکہ 2019 کے اوائل میں ایک اجلاس کے دوران بنجمن نیتن یاہو نے بھی ایسا ہی نقطۂ نظر پیش کیا تھا کہ جو لوگ فلسطینی ریاست کی مخالفت کرتے ہیں انہیں غزہ میں رقوم کی منتقلی کی حمایت کرنی چاہیے کیونکہ اس سے فلسطینی اتھارٹی کمزور ہوتی جائے گی اور فلسطینی ریاست کے قیام کو روکنے میں آسانی ہو گی۔
یروشلم میں قائم اخبار نے لکھا کہ اسرائیل کی اس پالیسی سے حماس نے تقویت حاصل کی اور اسی کے نتیجہ میں اسرائیل کو اپنی تاریخ کا خوفناک ترین دن دیکھنا پڑا جب دہشتگردوں نے سرحد پار کی، سینکڑوں اسرائیلیوں کو ذبح کیا، ہزاروں راکٹس کی آڑ میں کئی افراد کو اغواء کیا جن کی تعداد ابھی تک نامعلوم ہے، یہ بات بالکل واضح ہے کہ حماس کو بالواسطہ طور پر مضبوط کرنے کا اسرائیلی تصور ہفتے کے دن دھویں میں اڑ گیا۔
دی ٹائمز آف اسرائیل کے مطابق غزہ کا کنٹرول حماس کے پاس ہے اور وہاں کی تمام تر تربیت اور سرگرمیوں کی ذمہ داری بھی حماس پر عائد ہوتی ہے، حماس مضبوط ہو گئی اور اس نے امن کے ان تمام خوابوں کو چکنا چور کر دیا جن کیلئے اسرائیل حماس کی تربیت کرتا رہا۔