نیویارک/غزہ (تھرسڈے ٹائمز) — امریکی اخبار ”نیو یارک ٹائمز“ کے مطابق غزہ کے نہتے شہری تاریخی رفتار سے مارے جا رہے ہیں، یہ رفتار امریکہ کی جانب سے عراق، شام اور افغانستان میں فوجی مہمات کے مہلک ترین لمحات سے بھی زیادہ ہے جبکہ مارے جانے والے بچوں اور خواتین کی تعداد تقریباً دو سال کے روسی حملوں کے بعد یوکرین کے مقابلہ میں دو گنا سے بھی زیادہ ہو چکی ہے۔
نیو یارک ٹائمز کے مطابق اسرائیل نے غزہ پٹی میں نہتے شہریوں کے مارے جانے کو افسوسناک مگر جدید دور کے تنازعات میں ناگزیر قرار دیا ہے جو کہ یقینی طور پر امریکہ کی جانب سے عراق اور شام میں کی گئی فوجی مہمات کے نتیجہ میں ہونے والے بھاری انسانی نقصانات کی طرف اشارہ ہے لیکن ماضی کے تنازعات کا جائزہ اور ان میں ہتھیاروں اور اموات کے متعلق ماہرین کی رائے سے یہ بات واضح ہو جاتی ہے کہ اسرائیل کا غزہ پر حملہ مختلف نوعیت کا ہے۔
اگرچہ جنگ کے دوران ہونے والی اموات کی تعداد کا درست تعین کبھی نہیں کیا جا سکتا مگر ماہرین کا کہنا ہے کہ اسرائیلی مہم کے دوران غزہ میں تیز رفتار اموات کے اعداد و شمار رواں صدی میں سب سے زیادہ ہیں، غزہ میں شہریوں کی اموات کی رفتار امریکہ کی جانب سے عراق، شام اور افغانستان میں فوجی مہمات کے مہلک ترین لمحات سے بھی زیادہ ہے جبکہ انسانی حقوق کی تنظیموں کی طرف سے ان امریکی حملوں کو بھی وسیع پیمانے پر تنقید کا نشانہ بنایا گیا تھا۔
امریکی اخبار کے مطابق جنگی ماہرین اس بات پر حیران ہیں کہ غزہ میں کس قدر تیز رفتار سے اتنے زیادہ لوگ مارے جا چکے ہیں جبکہ ان میں زیادہ تعداد خواتین اور بچوں کی ہے، ماہرین کا کہنا ہے کہ اسرائیل نے گنجان آباد شہری علاقوں میں بہت بڑے ہتھیاروں کا آزادانہ استعمال کیا ہے جن میں کسی بھی اپارٹمنٹ ٹاور کو تَہَس نَہَس کرنے کی صلاحیت رکھنے والا امریکی ساختہ 2000 پاونڈز کا بم بھی شامل ہے۔
امریکی فوجی حکام یہ مانتے ہیں کہ رواں صدی میں موصل، عراق، رقہ اور شام کے شہری علاقوں میں داعش کے خلاف جنگ کے دوران 500 پاونڈز کا ہتھیار بھی زیادہ تر اہداف کیلئے بہت بڑا تھا۔
نیو یارک ٹائمز نے لکھا ہے کہ ایک چھوٹے سے علاقہ پر اس قدر وسیع نوعیت کے حملوں اور اتنے بڑے بموں کے استعمال کا موازنہ کرنے کیلئے ویتنام یا دوسری جنگ عظیم میں واپس جانا پڑے گا، غزہ میں عام شہریوں کی اموات کا حساب لگانا بہت مشکل ہے تاہم محققین اندازے کے طور پر 10 ہزار سے زائد خواتین اور بچوں کی اموات کی طرف اشارہ کرتے ہیں۔
اسرائیلی فوج نے تسلیم کیا ہے کہ غزہ میں بچے، خواتین اور بوڑھے افراد مارے گئے ہیں لیکن اسرائیلی فوج کا یہ بھی کہنا ہے کہ غزہ میں رپورٹ ہونے والی اموات کی تعداد پر بھروسہ نہیں کیا جا سکتا کیونکہ یہ علاقہ حماس کے زیرِ انتظام ہے، اسرائیلی فوج نے غزہ میں اموات کے متعلق کوئی اعداد و شمار فراہم نہیں کیے لیکن کہا ہے کہ عام شہری ہماری مہم کا ہدف نہیں ہیں، اسرائیل کا کہنا ہے کہ اس نے حالیہ جنگ بندی تک 15 ہزار سے زائد اہداف کو نشانہ بنایا ہے۔
اقوامِ متحدہ کے مطابق غزہ میں مارے جانے والے بچوں اور خواتین کی تعداد تقریباً دو سال کے روسی حملوں کے بعد یوکرین کے مقابلہ میں دو گنا سے بھی زیادہ ہو چکی ہے جبکہ ورلڈ ہیلتھ آرگنائزیشن کے مطابق غزہ میں ہونے والی اموات میں تقریباً 70 فیصد خواتین اور بچے ہیں۔
برطانوی تحقیقی گروپ ”عراق باڈی کاؤنٹ“ کے مطابق 2003 میں امریکہ اور اس کے اتحادیوں کے حملوں میں پورے ایک سال کے دوران مارے جانے والے شہریوں کی تعداد تقریباً 7700 تھی جبکہ دو ماہ سے بھی کم عرصہ کے دوران غزہ میں اس سے زیادہ تعداد میں خواتین اور بچوں کے مارے جانے کی اطلاعات ہیں۔
براؤن یونیورسٹی کے کوسٹس آف وار پراجیکٹ کے شریک ڈائریکٹر ”نیٹا سی کرافورڈ“ کے مطابق افغانستان میں امریکہ اور اس کے اتحادیوں کی 20 سالہ جنگی مہم کے دوران 12 ہزار 400 شہریوں کی اموات ہوئیں جبکہ گزشتہ ماہ شروع ہونے والی اسرائیل حماس جنگ کے دوران اسرائیلی حملوں سے غزہ میں مارے جانے والے بچوں اور خواتین کی تعداد بہت کم وقت میں ان اعداد و شمار کے قریب پہنچ چکی ہے۔
ایمنسٹی انٹرنیشنل کے ہتھیاروں کے تفتیش کار ”برائن کاسٹنر“ نے کہا ہے کہ اسرائیل کی جانب سے غزہ میں جو بم استعمال کیے جا رہے ہیں وہ ان بموں سے بڑے ہیں جو امریکہ کی جانب سے موصل اور رقہ جیسے شہروں میں داعش کے خلاف استعمال کیے گئے تھے۔
عراق، افغانستان اور یوکرین جیسے تنازعات والے علاقوں کی نسبت غزہ نہ صرف بہت چھوٹا ہے بلکہ اسرائیل اور مصر کی طرف سے اس علاقہ کی سرحدیں بھی بند کر دی گئی ہیں، غزہ پٹی میں 60 ہزار سے زائد عمارتیں تباہ ہو چکی ہیں جس میں شمالی غزہ کی نصف عمارتیں بھی شامل ہیں۔
جنگ کے پہلے دو ہفتوں کے دوران اسرائیل کی جانب سے غزہ پر گرائے گئے بموں میں سے تقریباً 90 فیصد سیٹلائٹ گائیڈڈ بم تھے جن کا وزن 1000 سے 2000 پاونڈز تھا، اسرائیل نے غزہ کے شمالی علاقہ “جبالیہ” پر 31 اکتوبر کے فضائی حملے میں کم از کم 2000 پاؤنڈز کا بم استعمال کیا جس سے عمارتیں تباہ ہو گئیں اور 40 فٹ تک چوڑے گڑھے بن گئے جبکہ مارے گئے 126 شہریوں میں نصف سے زیادہ تعداد بچوں کی تھی۔
ایمنسٹی انٹرنیشنل کی تحقیقات کے مطابق 19 اکتوبر کو اسرائیل نے یونانی آرتھوڈوکس چرچ پر حملہ کیا جہاں سینکڑوں افراد پر مشتمل غزہ کی کرسچین کمیونٹی نے پناہ لے رکھی تھی اور وہ لوگ رات کا کھانا کھا رہے تھے جبکہ اس اسرائیلی حملے میں 18 شہری مارے گئے۔