تجزیہ: عمران خان حکومت نے پاکستان کو سیاسی تنہائی اور خطرناک توانائی بحران کی جانب دھکیل دیا: امریکی جریدہ بلوم برگ

عمران خان دورِ حکومت میں پاکستان بین الاقوامی سیاسی تنہائی کا شکار ہوکر ڈیفالٹ کے دہانے پر پہنچ گیا جس کی وجہ سے ملک کو سنگین توانائی بحران کا سامنا کرنا پڑا۔ اس سے قبل مسلم لیگ ن کی حکومت پاکستان میں توانائی اورلوڈشیڈنگ کے بحران پر قابوپا چکی تھی۔

spot_img

نیویارک\اسلام آباد (تھرسڈے ٹائمز) — امریکی نیوز ایجنسی بلومبرگ کے مطابق تحریکِ انصاف کے دورِ حکومت میں پاکستان نے فروری 2022 میں بین الاقوامی انرجی کموڈیٹیز ٹریڈنگ کمپنی ”گنوور گروپ لمیٹڈ“ کو ایل این جی کی شپمنٹ کیلئے کم ادائیگی کی اور پھر کمپنی کی جانب سے باقی رقم کا مطالبہ کیا گیا تو پاکستانی حکام نے ادائیگی سے انکار کر دیا جس کے بعد ”گنوور“ نے پاکستان کے ساتھ اپنا معاہدہ منسوخ کر دیا۔

بلومبرگ کے مطابق فروری 2022 میں پاکستان کی جانب سے کم ادائیگی اور پھر پاکستانی حکام کی جانب سے بقیہ رقم ادا کرنے سے انکار نے پاکستان کو توانائی کے ایک ایسے بحران میں دھکیل دیا جس نے پاکستان کو ڈیفالٹ کے دہانے تک پہنچا دیا جبکہ پاکستان ابھی تک اس بحران سے نکل نہیں سکا جبکہ حالیہ سیلاب اور ملک کے اندر سیاسی انتشار نے بھی پاکستان کی مشکلات میں شدید اضافہ کیا ہے۔

امریکی نیوز ایجنسی کے مطابق سال 2021 کے آخر میں بین الاقوامی انرجی کموڈیٹیز ٹریڈنگ کمپنی ”گنوور گروپ لمیٹڈ“ کی توجہ متوقع روس یوکرین جنگ کی صورت میں توانائی کی عالمی قیمتوں میں اضافہ کے پیشِ نظر ایل این جی کے ذخائر کو بڑھانے پر تھی اور اس مقصد کیلئے اُس وقت غریب اور سیاسی طور پر تنہا ملک ”پاکستان“ گنوور کمپنی کیلئے ایک آسان ہدف تھا۔

امریکی اخبار نے لکھا ہے کہ گنوور پاکستان کے ساتھ اپنے معاہدے کو قبل از وقت ختم کرنے کا راستہ تلاش کر رہا تھا مگر پاکستانی حکام نے گنوور کمپنی کو یہ راستہ خود ہی فراہم کر دیا، پاکستانی حکام نے فروری 2022 میں ایل این جی کی شپمنٹ کیلئے رقم کی ادائیگی کم کی جس کے بعد گنوور کے وکلاء کی جانب سے پاکستان کو ایک خط موصول ہوا جس میں باقی رقم کا مطالبہ کیا گیا تاہم پاکستان نے ادائیگی سے انکار کر دیا جس کے ایک ہفتے بعد گنوور نے پاکستان کے ساتھ اپنا معاہدہ ختم کر دیا۔

بلومبرگ کے مطابق پاکستان ایل این جی پر بہت زیادہ انحصار کرتا ہے تاہم وہ چین اور جاپان کے مقابلہ میں ”گنوور گروپ لمیٹڈ“ کا ایک چھوٹا کسٹمر تھا، روسی فوج نے 24 فروری 2022 کو یوکرین پر حملہ کیا تو گیس کی قیمتیں صرف 11 دنوں میں 150 فیصد سے بھی زیادہ بڑھ گئیں جبکہ انھی دنوں کمپنی نے اپنے ذخائر میں اضافہ کیلئے پاکستان کے ساتھ ایل این جی معاہدہ پر مزید عملدرآمد روک دیا اور یہ مؤقف اختیار کیا کہ پاکستان نے ایل این جی کی ایک ترسیل کیلئے کم ادائیگی کی ہے۔

معاہدے کے تحت ”گنوور“ کو اگلے چند ماہ کے دوران پاکستان کو ایل این جی کے پانچ ٹینکرز فراہم کرنا تھے مگر اس کی بجائے کمپنی نے اپنے کارگوز کو برطانیہ، اٹلی اور دیگر ممالک میں بھیجا جبکہ معاہدے کے مطابق پاکستان کو ایل این کی فراہمی کی جاتی تو اس کی مالیت کم و بیش 200 ملین ڈالرز ہوتی مگر ”گنوور“ نے وہی ایل این جی دیگر ممالک میں بھیج کر 600 ملین ڈالرز سے زائد مالیت کے سودے کیے۔

امریکی اخبار نے لکھا ہے کہ ”گنوور“ کے ساتھ معاہدہ منسوخی نے پاکستان کو توانائی کے ایک ایسے بحران میں دھکیل دیا جو آج تک جاری ہے، پاکستان میں عام گھروں سے لے کر کاروں اور بسوں میں بھی قدرتی گیس استعمال ہوتی ہے جبکہ قدرتی گیس کی کمی کے باعث ملک میں فیکٹریاں بند ہو گئیں یا پھر ان کی پیداوار میں حیرت انگیز حد تک کمی واقع ہوئی، مزدور کا جینا دو بھر ہو گیا جبکہ فرٹیلائزر پلانٹس اور خوراک کی پیداوار میں بھی مشکلات کا سامنا کرنا پڑا۔

امریکہ میں قائم عالمی سطح کی نیوز ایجنسی کے مطابق پاکستان نے متبادل ذرائع سے ایل این جی کی خریداری کیلئے بھاری قیمتیں ادا کیں جس سے غیر ملکی کرنسی کے ذخائر ختم ہو گئے اور پاکستان ڈیفالٹ کے دہانے پر پہنچ گیا جبکہ فی الحال پاکستان آئی ایم ایف سے بیل آؤٹ پیکج حاصل کرنے کے بعد معاشی اصلاحات نافذ کرنے کی کوششوں میں مصروف ہے۔

بلومبرگ کے مطابق ایل این جی مارکیٹ میں پاکستان کا داخلہ پیٹرولیم اور قدرتی وسائل کے سابق وزیر شاہد خاقان عباسی کی بدولت ممکن ہوا جو بعدازاں ملک کے وزیراعظم بھی منتخب ہوئے جبکہ شاہد خاقان عباسی سیاست میں آنے سے قبل سعودی انرجی انڈسٹری کی صنعت میں کام کرتے تھے، شاہد خاقان عباسی نے قطر سے ایل این جی کی درآمد کیلئے حکومتوں کے مابین 15 بلین ڈالرز کا معاہدہ کیا جس سے راتوں رات ڈومیسٹک گیس فیلڈز کی پیداوار میں اضافہ ہوا اور پاکستانی کمپنیز کیلئے حالات میں نرمی پیدا ہوئی جبکہ 2016 کے دوران جی ڈی پی میں 5 فیصد سے زائد اضافہ ہوا جو ایک دہائی سے زائد عرصہ کے دوران سب سے بڑا اضافہ ہے۔

شاہد خاقان عباسی اس ضمن میں مزید اقدامات بھی کرنا چاہتے تھے، انہوں نے ایل این جی کے معاہدوں کیلئے دو اضافی درخواستیں اوپن کیں جن میں سے ایک پانچ سالہ سپلائی ڈیل کیلئے اور دوسری 15 برس تک کیلئے تھی جبکہ ”گنوور“ اور ”اینی“ سمیت دو درجن سے زائد کمپنیز نے دلچسپی ظاہر کی، گیس ٹریڈز نے مجوزہ معاہدوں پر غیر معمولی نوعیت کی جانچ پڑتال کا اطلاق کیا تاکہ وہ ایسی شرائط کو یقینی بنا سکیں جن کے تحت پاکستان مکمل اور بروقت ادائیگی کرے گا، پاکستانی حکام کی توجہ بہترین ممکنہ قیمتوں پر مرکوز تھی جبکہ ان کی جانب سے گیس کی فراہمی میں ناکامی پر سخت سزاؤں پر اصرار بھی نہیں کیا گیا تھا، گنوور کے ترجمان کا کہنا تھا کہ کمپنی کیلئے کسی ترمیم کے بغیر مقرر کردہ شرائط پر دستخط کرنا آسان تھا جبکہ ”اینی“ کے ترجمان نے بتایا کہ متعلقہ معاہدے دو طرفہ مذاکرات کا نتیجہ تھے جبکہ ان کے مواد کا تعین پاکستان نے کیا تھا۔

2016 کے آخر میں ممکنہ سپلائرز نے اسلام آباد میں آفر لیٹرز بھیجے، لفافے ایک ایک کر کے کیمرہ رولنگ کے ساتھ کھولے گئے تاکہ اس معاہدے میں کسی بھی طرح کی دھاندلی کی کوشش کو روکا جا سکے، گنوور اور اینی نے بالترتیب پانچ اور 15 سالہ معاہدوں پر سب سے کم قیمتیں پیش کیں، انہوں نے اگلے سال ڈیلیوریز شروع کیں، ہر ایک نے کراچی کو ایک ماہ میں ایک ٹینکر بھیجا جس نے قطر سے بڑی کھیپ کو بڑھایا جبکہ ایک ٹینکر پاکستان کی تمام انڈسٹری کو 5 روز تک چلانے کیلئے کافی ہوتا تھا۔

امریکی اخبار کے مطابق دسمبر 2020 میں پاکستانی حکام کو ”اینی“ کی طرف سے ایک ای میل موصول ہوئی، اطالوی کمپنی نے کہا کہ وہ اگلے ماہ کیلئے اپنی ایل این جی کی کھیپ کا صرف ایک حصہ فراہم کرے گی کیونکہ ایک نامعلوم سپلائر اپنی ڈیلیوری کرنے میں ناکام رہا ہے، ”اینی“ کی ایل این جی پورٹ فولیو کی سربراہ نے معذرت کی اور کہا کہ ان کی ٹیم بعد میں متبادل گیس بھیجنے کی کوشش کرے گی۔

اینو کے اس فیصلے نے پاکستان کو ایک مشکل صورتحال میں ڈال دیا کیونکہ سرد موسم آ رہا تھا اور ایندھن کی ضرورت بڑھ رہی تھی جبکہ ڈومیسٹک پیداوار میں نمایاں کمی واقع ہوئی تھی، حکومت نے کمی کو پورا کرنے کیلئے سپاٹ مارکیٹ شپمنٹ تلاش شروع کی لیکن تمام آپشنز کو بہت مہنگا پایا لہذا اس کے پاس کچھ گھرانوں اور فیکٹریز کو عارضی طور پر سپلائی کم کرنے کے سوا کوئی چارہ نہیں تھا۔

بلومبرگ کے مطابق فروری 2021 میں سپاٹ پرائسز میں کمی کے ساتھ ہی ”اینی“ کی جانب سے پاکستان کو ترسیل دوبارہ شروع ہوئی لیکن اسی سال کے آخر میں پاکستان کو توقعات کے مطابق زیادہ گیس ملنے میں ناکامی کا سامنا کرنا پڑا، اکتوبر 2021 میں کراچی کے قریب ایک گنوور چارٹرڈ جہاز نے اپنا پورا پے لوڈ نہیں اتارا اور ایندھن کا بقیہ حصہ ترکی چلا گیا جبکہ متعلقہ تاجروں کا کہنا ہے کہ ترکی میں گنوور کو پاکستان کی نسبت تین گنا زیاہ رقم حاصل ہوئی، بعدازاں نومبر میں دونوں کمپنیز نے اپنی ڈیلیویز منسوخ کر دیں۔

امریکی اخبار کے مطابق گنوور پاکستان کے ساتھ اپنے معاہدے کو قبل از وقت ختم کرنے کا راستہ تلاش کر رہا تھا کیونکہ غریب اور سیاسی طور پر تنہا ملک ”پاکستان“ اس کیلئے ایک آسان ہدف تھا جبکہ گنوور کو پاکستانی حکام نے یہ راستہ خود ہی فراہم کر دیا، پاکستانی حکام نے فروری 2022 میں ایل این جی کی شپمنٹ کیلئے رقم کی ادائیگی کم کی جس سے گنوور کو واضح طور پر ایگزٹ کا راستہ مل گیا۔

پاکستانی حکام کی جانب سے فروری 2022 میں ایل این جی کی شپمنٹ کیلئے کم ادائیگی پر گنوور کے وکلاء کی جانب سے پاکستان کو ایک خط موصول ہوا جس میں باقی رقم کا مطالبہ کیا گیا تاہم پاکستان نے ادائیگی سے انکار کر دیا جس کے ایک ہفتے بعد گنوور نے پاکستان کے ساتھ اپنا معاہدہ ختم کر دیا۔

مارچ 2022 سے گنوور کے وہ چارٹرڈ ایل این جی ٹینکرز جو پاکستان بھیجے جانے تھے دیگر ممالک کی جانب بھیجے جانے لگے، پاکستان میں ایل این جی امپورٹ کیلئے سرکاری طور پر قائم بورڈ نے مزید ایندھن کی خریداری کے لیے ہنگامی ٹینڈرز کی اجازت دی تو قطر نے خسارے کو پورا کرنے کیلئے قدم بڑھایا لیکن اس کی قیمت گنوور اور اینی کے معاہدوں سے کم و بیش 230 فیصد زیادہ تھی۔

اسی طرح ”اینی“ کی جانب سے سال 2022 کے دوران پاکستان کیلئے شپمنٹس میں 60 فیصد تک کمی ہوئی تاہم اس کی صورتحال قدرے مختلف تھی، اینی نے 2017 میں پاکستان کے ساتھ معاہدے پر دستخط کرنے کے بعد ”ٹرافیگورا“ کمپنی کے ساتھ ایک متوازی معاہدہ طے کیا تھا تاہم پاکستان کے ساتھ صرف اینی کے ہی کاروباری تعلقات تھے۔

اینی کے مطابق روس یوکرین جنگ شروع ہونے کے بعد ٹرافیگورا نے گنوور کی طرح اپنی شپمنٹس کو زیادہ منافع کے حصول کیلئے سپاٹ مارکیٹ میں موڑنا شروع کر دیا جبکہ اینی کو منسوخی کا نوٹس صرف ایک یا دو ہفتے قبل موصول ہوا اور نتیجتاً اینی نے پاکستان کو اپنی سپلائی روک دی تاہم ٹرافیگورا نے اینی کے اس دعویٰ کو مسترد کرتے ہوئے کہا ہے کہ اینی کے ساتھ معاہدہ نومبر 2022 میں ختم ہوا جبکہ معاہدہ میں پاکستان کو ایل این جی سپلائی کرنے کا کوئی کانٹریکٹ شامل نہیں تھا۔

بلومبرگ کے مطابق سال 2022 ”اینی“ کیلئے بہت منافع بخش رہا، اس نے سال 2022 کے دوران 14 اعشاریہ 3 بلین ڈالرز کا منافع حاصل کیا جو ریکارڈ کے مطابق بہترین مالیاتی نتیجہ ہے، پاکستان کے ساتھ اس کا معاہدہ ابھی مزید ایک دہائی تک باقی ہے جبکہ رواں سال کے آغاز میں ”اینی“ نے پاکستان کیلئے اپنی ڈیلیویز کو دوبارہ شروع کر دیا ہے۔

گنوور اور اینی کی جانب سے ڈیلیوریز روکے جانے کے بعد پاکستان نے سپاٹ مارکیٹ کا رخ کیا اور فروری 2022 کے آخر سے مئی 2022 تک اس نے آٹھ سپاٹ شپمنٹس کیلئے 650 ملین ڈالرز ادا کیے جو کہ گنوور اور اینی کے ساتھ طویل المدتی معاہدوں کے تحت ادائیگی کی نسبت دو گنا سے بھی زیادہ ہے۔

امریکی اخبار کے مطابق حالیہ سیلاب اور عمران خان کی حکومت کے خاتمہ کے بعد ملک کے اندر برپا ہونے والے سیاسی فسادات نے پاکستان کے مسائل میں شدید اضافہ کیا جبکہ توانائی بحران ابھی تک حل نہیں ہو سکا حتیٰ کہ گھریلو صارفین کو بھی فی الحال صرف کھانے کے اوقات میں دو سے تین گھنٹوں کیلئے ہی گیس فراہم کی جا رہی ہے جبکہ فیکٹریز کا کام بھی بری طرح متاثر ہوا ہے۔

بلومبرگ کے مطابق پاکستان فروری 2022 میں شروع ہونے والے نقصانات کو پورا کرنے کیلئے ”اینی“ سے متبادل کھیپ حاصل کرنے کی کوششیں کر رہا ہے، پاکستانی حکام تسلیم کرتے ہیں کہ انہیں درآمدی گیس کے متبادل تیار کرنے کی ضرورت ہے جس میں کوئلے کی پیداوار میں اضافہ اور قابلِ تجدید ذرائع کے حوالہ سے بڑے پیمانے پر تبدیلی شامل ہیں تاہم کسی بھی حل کیلئے کئی سالوں اور کئی بلین ڈالرز کی ضرورت ہو گی، پاکستان کے پاس آئی ایم ایف ہی قریب ترین ذریعہ ہے جس سے 3 بلین ڈالرز کے حصول کیلئے پاکستان ایندھن اور بجلی کی سبسڈی میں کمی لا رہا ہے جس سے ڈیفالٹ کا خطرہ بھی کم ہوا ہے۔

Follow Us

The Thursday Times is now on Bluesky—follow us now. You can also follow us on Mastodon.

LEAVE A COMMENT

Please enter your comment!
Please enter your name here
This site is protected by reCAPTCHA and the Google Privacy Policy and Terms of Service apply.

The reCAPTCHA verification period has expired. Please reload the page.

spot_img

خبریں

The latest stories from The Thursday Times, straight to your inbox.

Thursday PULSE™

More from The Thursday Times

error: