تل ابیب (تھرسڈے ٹائمز) — اسرائیلی اخبار ’’ہاریٹز‘‘ کے مطابق غزہ پٹی آہستہ آہستہ اپنے خاندانوں، اپنے لوگوں، اپنے بچوں، ان کی مسکراہٹوں اور قہقہوں سمیت مٹ رہی ہے، اسرائیلی فوج غزہ کے شہروں کی سڑکوں اور اس کے مہاجر کیمپس کی گلیوں کو مٹا رہی ہے، اسرائیلی فوج غزہ کے ساحلی راستوں، دیہاتوں اور زرعی علاقوں کو ملیا میٹ کر رہی ہے، اسرائیلی فوج غزہ کے ثقافتی اداروں، یونیورسٹیز اور آثارِ قدیمہ کے مقامات کو بھی تباہ رہی ہے۔
ہاریٹز کے مطابق حماس کا فوجی ڈھانچہ تباہ ہو رہا ہے، اس کے ہزاروں مسلح افراد مارے جا رہے ہیں لیکن تنظیم کو دوبارہ بنایا جائے گا؛ یہ اور اس کے قائدین ہر اس کمیونٹی اور جگہ پر پھیلیں گے جہاں غزہ کو مٹانے کا عمل جاری ہے، اسرائیلی فوج نے غزہ میں تحمل کو ختم کر دیا ہے اور ہلاکتوں کے اعداد و شمار غیر معمولی ہیں، ہم یہودیوں نے دوسروں کے مظالم کی وجہ سے ہونے والے مصائب پر اجارہ داری سنبھال لی ہے۔
ہاریٹز کی جانب سے اٹھائے گئے سوالات
تل ابیب میں قائم اخبار نے سوالات اٹھائے ہیں کہ آخر کیا ہے جو یہودی اسرائیلیوں کی اکثریت کو اس منظم اور بڑے پیمانے پر جاری نسل کشی کی حمایت کرنے کے قابل بناتا ہے؟ کیا چیز انہیں اس قابل بناتی ہے کہ وہ اسے حماس اور اس کے ساتھیوں کے انجام دیئے گئے قتلِ عام، اسرائیل کی فوجی تذلیل اور یرغمالیوں، زخمیوں، زندہ بچ جانے والوں کے خاندانوں اور سینکڑوں مارے جانے والوں کے خاندانوں کی ناقابلِ بیان مصیبتوں کا واحد مناسب ردعمل کے طور پر دیکھتے ہیں؟
ہاریٹز نے سوالات کا سلسلہ جاری رکھتے ہوئے لکھا ہے کہ آخر کیا وجہ ہے کہ یہودی اسرائیلیوں کی اکثریت اس بات پر حیران نہیں ہے کہ ہم نے صرف دو ماہ کے دوران امریکہ کی جانب سے مہیا کیے گئے بموں کی مدد سے کم و بیش 7 ہزار بچوں کو قتل کر دیا ہے؟ کیا وجہ ہے جو زیادہ تر یہودیوں کو اس قابل بناتی ہے کہ وہ 1.8 ملین یا 1.9 ملین لوگوں پر مشتمل قریباً 120 مربع کلومیٹر (46 مربع میل) ایریا پر جاری مسلسل بمباری پر خوف میں مبتلا نہیں ہیں؟
اسرائیلی اخبار میں شائع ہونے والے آرٹیکل میں یہ سوالات بھی اٹھائے گئے ہیں کہ کیا چیز ہے جو 2.2 ملین فلسطینی شہریوں کی پیاس اور بھوک، جنگی ماحول کے باعث پھیلتی بیماریوں، پانی کی کمی اور ہسپتالوں کے تباہ ہونے پر اسرائیلیوں کو چیخنے سے روکتی ہے؟ کیا چیز ہماری فعال اور غیر فعال شرکت کے ساتھ اس نسل کشی اور بچوں کے قتل کو قابلِ قبول بناتی ہے؟
ہاریٹز کی جانب سے بیان کیے گئے جوابات
اسرائیل کے قدیم ترین اخبار نے پھر ان سوالات کے جوابات بھی خود ہی بیان کر دیئے ہیں جو مندرجہ ذیل ہیں۔
۔ کئی دہائیوں سے ہمیں فلسطینی عوام کے حقوق سے انکار کرتے ہوئے یہ یقین کرنے کی تعلیم دی گئی ہے کہ صرف فوجی طاقت ہی ریاست کی بقاء اور پنپنے کی صلاحیت کو یقینی بنا سکتی ہے۔
۔ ہم نے کسی بھی ’’سیاق و سباق‘‘ کو مٹا دیا ہے جبکہ اشتعال انگیزی نے ان الفاظ کو حماس کی حمایت اور اس کی ہولناکیوں کا جواز بنا دیا ہے۔
۔ ہم یہودیوں نے دوسرے کے ظلم کی وجہ سے درپیش آنے والی مصبیتوں پر اجارہ داری سنبھال لی ہے۔
۔ ہم نے کانپتے ہوئے ان فلسطینی بچوں کی ناقابلِ برداشت تصویروں کو نظر انداز کرنے کا فیصلہ کیا ہے جن کے چہرے خاک آلود ہو رہے ہیں اور انہیں بم زدہ کنکریٹ کی دیواروں کے درمیان سے بچایا جا رہا ہے جبکہ یہ جاننے کا کوئی طریقہ نہیں ہے کہ کون زیادہ خوش قسمت ہے: وہ بچے یا وہ لوگ جو مارے گئے تھے۔
۔ ہر اجتماعی یا بتدریج قتلِ عام جو ہم فلسطینیوں کے خلاف برسوں سے جاری رکھے ہوئے ہیں، ہماری جانب سے کی گئی ان کی ہر تذلیل، ہر چوری اور ہر بدسلوکی ہزاروں میڈیا فلٹرز اور ہزاروں نفسیاتی اور علمی فلٹرز سے گزرتی ہے اور پھر چھان بین کے بعد بچنے والی چیز ہمارا وہ یقین ہے کہ فلسطینیوں کی حالت صومالیوں یا شامیوں سے بہتر ہے لہذا انہیں شکایت نہیں کرنی چاہیے۔
۔ ہمیں فلسطینیوں کے ہاتھوں اسرائیلیوں کا ہر قتلِ عام یاد ہے مگر ہم اسرائیلیوں کے ہاتھوں ہونے والے فلسطینیوں کے ہر قتلِ عام کو بھول جاتے ہیں۔
۔ کئی دہائیوں سے ہم آرام دہ زندگی گزارنے کے عادی ہو چکے ہیں جبکہ پانچ منٹ کی دوری پر اسرائیل (یعنی ہم) فلسطینیوں کے گھروں کو مسمار کر کے یہودیوں کیلئے تعمیر کرتا ہے، یہودیوں کو پانی فراہم کرتا ہے اور فلسطینیوں کو پیاسا رہنے دیتا ہے اور باقی سب کچھ انسانی حقوق کی تنظیموں کی رپورٹس میں لکھا ہوا ہے۔
۔ کئی دہائیوں سے ہم ’’اعتدال پسندی‘‘ فلسطینیوں کی اس انتباہ کو نظر انداز کر رہے ہیں کہ ریاستی سرپرستی میں ان کی آزادی اور زمینوں پر مسلسل قبضہ ان کے بچوں کے افق کو تنگ کر رہا ہے اور ان میں مایوسی اور انتقام کیلئے صرف ہتھیاروں پر اعتماد پیدا کر رہا ہے۔
۔ ہم نے اس نظریہ کو اپنا لیا ہے: فلسطینی دہشت گرد ہیں، وہ ہم سے نفرت کرنے کے جینز کے ساتھ پیدا ہوئے تھے، رومن شہنشاہ ٹائٹس کی اولادیں اور 17ویں صدی کی مشرقی یورپ کی خميلينتسكی بغاوت میں قتلِ عام کرنے والے۔
۔ ہمیں یقین ہے کہ ہم جمہوریت ہیں، حالانکہ ہم 56 سالوں سے لاکھوں لوگوں پر شہری حقوق کے بغیر حکومت کر رہے ہیں، ہم ان کی زمینوں، اثاثوں اور معیشت کو کنٹرول کر رہے ہیں۔
ہم فلسطینیوں کے لیے گہری نسل پرستانہ توہین رکھتے ہیں جس کو ہمیشہ ہم نے علمی اور نفسیاتی طور پر انہیں روندنے کے جواز کے طور پر بڑھایا ہے۔
۔ ہم فلسطینی تاریخ اور دریائے اردن اور بحیرہ روم کے درمیان فلسطینی وجود کی جڑوں سے انکار کرتے رہے ہیں۔
غزہ کا خاتمہ ممکن ہے کیونکہ 1994 کے بعد سے ہم نے جان بوجھ کر اس کے کئی مواقع گنوا دیئے جو ہمیں فلسطینیوں کی طرف سے پیش کیے گئے تھے کہ ہم اپنی کچھ خصوصیات کو فراموش کر دیں اور دریائے اردن کے مغرب میں 22 فیصد علاقہ (بشمول غزہ) پر ایک ریاست قائم کرنے دیں۔
ہاریٹز میں بیان کیا گیا یہودی استعماریت کا نظریہ
ہاریٹز میں شائع ہونے والے آرٹیکل میں لکھا گیا ہے کہ نسل پرستی کے بارے میں بحث کی تمام گرما گرمی میں اس کی ایک متحرک، فعال اور خطرناک جہت ہے کہ یہودی آباد کار استعماریت مدھم اور کند ہو گئی ہے، یہودی آباد کار استعمار کے نظریے اور پالیسیز کے مطابق فلسطینی ضرورت سے زیادہ ہیں، مختصر یہ کہ دریائے اردن اور بحیرہ روم کے درمیان واقع اس ملک میں فلسطینیوں کے بغیر رہنا ممکن، قابلِ قدر اور مطلوب ہے جبکہ یہاں فلسطینیوں کا وجود ہماری خواہشات اور ہماری خیر خواہی سے مشروط اور منحصر ہے۔
اسرائیلی اخبار نے لکھا ہے کہ ضرورت سے زیادتی یا فضول ہونے کا نظریہ ایک زہر ہے جو بالخصوص اس وقت پھیلتا ہے جب آباد کار استعماریت کا عمل عروج پر ہوتا ہے، آباد کار استعماریت زمین پر قبضہ کرنے، تاریخی سرحدوں کو مسخ کرنے، ان کی تشکیلِ نو اور پھر مقامی لوگوں کو نکالنے کا ایک مسلسل عمل ہے۔
تل ابیب میں قائم نیوز پیپر کے مطابق غزہ میں رہنے والوں کو ضرورت سے زیادہ یا فضول ہونے کے طور پر دیکھنا انہیں بیت حانون کراسنگ کے دوسری جانب موجود ان کے خاندانوں اور لوگوں سے الگ کرنے کیلئے کافی ہے جو غزہ کو باقی زمین (اسرائیل اور مغربی کنارے) سے جدا کرتی ہے لیکن اب ضرورت سے زیادتی یا فضول ہونے کا نظریہ گولہ باری میں جھلکتا ہے اور بمباری کے اندر رضاکارانہ بھیس میں دکھائی دیتا ہے، اس کی عکاسی غزہ کے باشندوں کو ختم کر دینے اور یہودی آباد کاروں کو غزہ میں لانے کے منصوبوں سے ہوتی ہے، ان پر بھی افسوس ہے اور ہم پر بھی افسوس ہے۔