لندن/ راولپنڈی (تھرسڈے ٹائمز) — برطانوی اخبار ’’دی اکانومسٹ‘‘ نے کرپشن مقدمات میں قید سابق وزیراعظم عمران خان کی تحریر شائع کی ہے جس میں عمران خان نے ائندہ انتخابات کو ایک مذاق قرار دیتے ہوئے لکھا ہے کہ ان کی پارٹی تحریکِ انصاف کو غیر منصفانہ طور پر الجھا کر انتخابی مہم کے حق سے محروم رکھا جا رہا ہے۔
کرپشن، خفیہ ریاستی معلومات اِفشا کرنے، کارِ سرکار میں مداخلت اور ریاست پر حملوں سمیت متعدد مقدمات میں مرکزی ملزم عمران خان نے ’’دی اکانومسٹ‘‘ میں شائع ہونے والی اپنی تحریر میں لکھا ہے کہ فی الحال پاکستان میں وفاق اور صوبائی سطوح پر نگران حکومتیں چل رہی ہیں اور یہ انتظامیہ آئینی طور پر غیر قانونی ہے کیونکہ پارلیمانی اسمبلیاں تحلیل ہونے کے بعد 90 دنوں میں انتخابات منعقد نہیں کرائے گئے۔
سابق کرکٹر عمران خان نے لکھا ہے کہ عوام 8 فروری کو انتخابات کے انعقاد کی باتیں سن رہے ہیں مگر گزشتہ ایک سال کے دوران دو صوبوں پنجاب اور خیبرپختونخوا میں انتخابات سے انکار کیا جاتا رہا ہے، گزشتہ برس مارچ میں سپریم کورٹ کے حکم کے باوجود تین ماہ کے اندر انتخابات نہیں کرائے گئے لہذا عوام قومی انتخابات کے بارے میں شکوک و شبہات میں مبتلا ہونے میں حق بجانب ہیں۔
دی اکانومسٹ میں شائع ہونے والے آرٹیکل میں عمران خان نے لکھا ہے کہ الیکشن کمیشن آف پاکستان عجیب و غریب اقدامات کے باعث داغدار ہے، اس نے نہ صرف سپریم کورٹ کا حکم ماننے سے انکار کیا ہے بلکہ میری پارٹی “پاکستان تحریکِ انصاف” کی طرف سے فرسٹ چوائس امیدواروں کیلئے نامزدگیوں کو بھی مسترد کر دیا ہے، الیکشن کمیشن نے تحریکِ انصاف کے اندرونی انتخابات میں رکاوٹیں ڈالی ہیں جبکہ محض تنقید کے باعث میرے اور دیگر پارٹی راہنماؤں کے خلاف توہین کے مقدمات بھی چلائے ہیں۔
عمران خان نے لکھا ہے کہ انتخابات ہوں یا نہ ہوں مگر اپریل 2022 میں تحریکِ عدم اعتماد کی مضحکہ خیز ووٹنگ کے بعد جس طرح مجھے اور میری پارٹی کو نشانہ بنایا گیا ہے اس سے ایک بات واضح ہو چکی ہے کہ اسٹیبلشمنٹ یعنی فوج، سیکیورٹی ایجنسیز اور سول بیوروکریسی تحریکِ انصاف کیلئے پلیئنگ فیلڈ فراہم کرنے کو تیار نہیں ہے۔
تحریکِ انصاف کے سابق چیئرمین عمران خان کے مطابق یہ اسٹیبلشمنٹ ہی تھی جس نے امریکہ کی جانب سے دباؤ کے تحت ہمای حکومت کو ختم کیا کیونکہ امریکہ پاکستان کی آزاد خارجہ پالیسی کیلئے میرے دباؤ اور امریکی مسلح افواج کیلئے بی آر ایس فراہم نہ کرنے پر اشتعال میں تھا، میں اس بارے میں واضح تھا کہ ہم سب کیلئے دوست ہوں گے مگر جنگوں کیلئے کسی کے پراکسی نہیں ہوں گے اور اس کی وجہ امریکہ کی دہشتگردی کے خلاف جنگ میں پاکستان کے تعاون میں ہونے والے بھاری نقصانات ہیں جبکہ کم از کم 80 ہزار پاکستانی جانیں ضائع ہوئی ہیں۔
دی اکانومسٹ میں شائع ہونے والے اپنے آرٹیکل میں عمران خان نے یہ مؤقف اختیار کیا ہے کہ مارچ 2022 میں امریکی محکمہ خارجہ کے ایک اہلکار نے واشنگٹن ڈی سی میں پاکستانی سفیر سے ملاقات کی اور اس ملاقات کے بعد سفیر نے میری حکومت کو ایک سائفر بھیجا تھا، بعدازاں میں نے وزیرِ خارجہ شاہ محمود قریشی کے ذریعہ وہ پیغام دیکھا اور کابینہ میں پڑھ کر سنایا۔
عمران خان نے لکھا ہے کہ سائفر میں جو کچھ کہا گیا تھا، میں سمجھتا ہوں کہ وہ امریکی اہلکار کا یہ پیغام تھا کہ تحریکِ عدم اعتماد کے تحت عمران خان کی وزارتِ عظمٰی ختم کر دی جائے اور پھر چند ہفتوں کے اندر ہماری حکومت کا تختہ الٹ دیا گیا اور میں سمجھتا ہوں کہ آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ سیکیورٹی ایجنسیز کے ذریعہ ہمارے اتحادیوں اور پارلیمانی بیک بینچرز کے حوالہ سے کئی مہینوں سے ہمارے خلاف کارروائی میں مصروف تھے۔
سابق وزیراعظم نے لکھا ہے کہ اس حکومتی تبدیلی کے خلاف لوگ سڑکوں پر نکل آئے، اگلے چند ماہ میں تحریکِ انصاف نے 37 میں سے 28 ضمنی انتخابات میں کامیابی حاصل کی اور ملک بھر میں زبردست ریلیاں نکالی گئیں جس سے یہ واضح پیغام گیا کہ عوام کہاں کھڑے ہیں، ان ریلیوں میں خواتین نے بھی شرکت کی جس کی پاکستان کی تاریخ میں مثال نہیں ملتی، اس صورتحال نے ان طاقتوں کو بےچین کر دیا جنہوں نے ہماری حکومت کو ہٹانے کا کام کیا تھا۔
عمران خان کے مطابق ہماری جگہ لینے والی انتظامیہ نے ملکی معیشت کو تباہ کر کے ان طاقتوں کی گھبراہٹ میں اضافہ کر دیا جبکہ 18 ماہ کے اندر غیر معمولی افراطِ زر اور کرنسی کی قدر میں کمی واقع ہوئی، تحریکِ انصاف حکومت نے نہ صرف پاکستان کو دیوالیہ ہونے سے بچایا تھا بلکہ کووڈ 19 سے نمٹنے پر بھی بین الاقوامی سطح پر تعریفیں سمیتی تھیں، اس کے علاوہ اجناس کی قیمتوں میں اضافہ کے باوجود ہم معیشت کو 2021 میں 5 اعشاریہ 8 فیصد اور 2022 میں 6 اعشاریہ 1 فیصد کی حقیقی جی ڈی پی گروتھ کی طرف لائے۔
برطانوی اخبار “دی اکانومسٹ” میں شائع ہونے والے اپنے آرٹیکل میں عمران خان نے لکھا ہے کہ بدقسمتی سے اسٹیبلشمنٹ نے فیصلہ کر لیا تھا کہ مجھے دوبارہ اقتدار میں آنے کی اجازت نہیں دی جائے گی اور اس لیے مجھے سیاسی منظر نامہ سے ہٹانے کیلئے تمام طریقے استعمال کیے گئے، مجھ پر دو قاتلانہ حملے ہوئے جبکہ میری پارٹی کے راہنماؤں، کارکنان، سوشل میڈیا ورکرز اور ہماری حمایت کرنے والے صحافیوں کو اغواء کیا گیا، قید کیا گیا، تشدد کا نشانہ بنایا گیا اور ان پر تحریکِ انصاف چھوڑنے کیلئے دباؤ ڈالا گیا۔
القادر ٹرسٹ کرپشن کیس میں قید عمران خان نے لکھا ہے کہ ان میں سے بہت سارے لوگ اب تک قید میں ہیں اور جب بھی عدالتیں ان کی ضمانت منظور کرتی ہیں یا انہیں رہا کرتی ہیں تو ان پر نئے الزامات لگائے جاتے ہیں جبکہ اس سے بھی بدتر بات یہ ہے کہ موجودہ حکومت اپنے راستہ سے ہٹ کر خواتین کو سیاست میں حصہ لینے سے روکنے کی کوششوں میں تحریکِ انصاف کی خواتین راہنماؤں اور کارکنان کو ڈرانے اور دھمکانے میں مصروف ہے۔
عمران خان نے لکھا ہے کہ مجھے قریباً 200 سے زائد مقدمات کا سامنا ہے اور کھلی عدالتوں میں عام ٹرائل سے انکار کر دیا گیا ہے، 9 مئی 2023 کو ایک جھوٹے فلیگ آپریشن کا الزام تحریکِ انصاف پر لگایا گیا جس میں دیگر کئی چیزوں کے علاوہ فوجی تنصیبات پر آتشزدگی بھی کی گئی اور اس کے نتیجہ میں 48 گھنٹوں کے دوران ہزاروں گرفتاریاں، اغواء اور کرمنل چارجز سامنے آئے جبکہ رفتار نے ظاہر کیا کہ یہ پہلے سے طے شدہ منصوبہ تھا۔
توشہ خانہ کیس میں قید عمران خان نے مؤقف اختیار کیا ہے کہ 9 مئی کے بعد ہمارے بہت سارے راہنماؤں کو تشدد کو نشانہ بنایا گیا، ان کے اہلِ خانہ کو ٹارچر کیا گیا اور انہیں پریس کانفرنسز اور انجینئرڈ ٹیلی ویژن انٹرویوز میں پارٹی چھوڑنے کیلئے دھمکایا گیا، کچھ کو دوسری نئی بننے والی سیاسی جماعتوں میں شامل ہونے پر مجبور کیا گیا جبکہ دیگر کو مجبور کیا گیا کہ وہ میرے خلاف جھوٹی گواہیاں دیں۔
دی اکانومسٹ میں شائع ہونے والے آرٹیکل میں عمران خان نے لکھا ہے کہ اس سب کے باوجود تحریکِ انصاف دسمبر میں ہونے والے پٹن کولیشن 38 کے پول میں 66 فیصد حمایت کے ساتھ مقبول ہے جبکہ میری ذاتی مقبولیت اس سے بھی زیادہ ہے، اب الیکشن کمیشن تحریکِ انصاف کو الیکشن لڑنے کے حق سے محروم رکھنے کیلئے ہر طرح کی غیر قانونی چالوں میں ملوث ہے اور عدالتیں روز بروز اپنا اعتبار کھوتی جا رہی ہیں۔
عمران خان نے لکھا ہے کہ کرپشن کے الزام میں سزا یافتہ سابق وزیراعظم نواز شریف برطانیہ سے واپس آ گئے ہیں جہاں وہ پاکستانی قانون سے مفرور کی حیثیت سے رہ رہے تھے، نومبر میں ایک پاکستانی عدالت نے نواز شریف کی سزا کالعدم قرار دے دی ہے جبکہ مجھے یقین ہے کہ نواز شریف نے اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ ایک ڈیل کر لی ہے جس کے تحت اسٹیبلشمنٹ نواز شریف کی بریت کی حمایت کرے گی اور آئندہ انتخابات میں اپنا وزن نواز شریف کے پلڑے میں ڈالے گی لیکن عوام اب تک تحریکِ انصاف کی حمایت اور اسٹیبلشمنٹ کے انتخاب کو مسترد کرنے میں بےلگام رہے ہیں۔
سابق وزیراعظم عمران خان نے لکھا ہے کہ ان حالات میں 8 فروری کے انتخابات منعقد ہو سکتے ہیں، تحریکِ انصاف کے علاوہ تمام جماعتوں کو آزادانہ انتخابی مہم چلانے کی اجازت ہے، میں غداری سمیت متعدد مضحکہ خیز الزامات کے تحت قیدِ تنہائی میں ہوں، ہماری پارٹی کے وہ راہنما جو آزاد رہتے ہیں اور انڈر گراؤنڈ نہیں ہوتے انہیں تحریکِ انصاف کے ورکر کنونشنز بھی منعقد کرنے کی اجازت نہیں ہے، جہاں کہیں بھی تحریکِ انصاف کے کارکنان اکٹھے ہوتے ہیں انہیں پولیس کی وحشیانہ کارروائیوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔
سابق کرکٹر عمران خان نے مؤقف اختیار کیا ہے کہ اس منظر نامہ میں اگر انتخابات منعقد ہو بھی جائیں تو وہ ایک تباہی اور ایک مذاق ثابت ہوں گے کیونکہ تحریکِ انصاف کو انتخابی مہم چلانے کے بنیادی حق سے محروم رکھا جا رہا ہے، انتخابات کا ایسا مذاق مزید سیاسی عدم استحکام کا باعث بنے گا اور نتیجتاً پہلے سے غیر مستحکم معیشت کو مزید خراب کرے گا۔
عمران خان نے “دی اکانومسٹ” میں لکھا ہے کہ پاکستان کیلئے آگے بڑھنے کا واحد قابلِ عمل راستہ منصفانہ اور آزادانہ انتخابات ہیں جو ملک میں سیاسی استحکام اور قانون کی حکمرانی کو واپس لانے کے ساتھ ساتھ ایک مقبول مینڈیٹ والی جمہوری حکومت کی جانب سے اشد ضروری اصلاحات کا آغاز کریں گے، پاکستان کے پاس درپیش بحرانوں سے نکلنے کے علاوہ کوئی راستہ نہیں ہے لیکن بدقسمتی سے ہم ایک محصور جمہوریت کے ساتھ تمام محاذوں پر مخالف سمت میں جا رہے ہیں۔