لندن (تھرسڈے ٹائمز) — برطانوی نیوز ایجنسی “رائٹرز” نے لکھا ہے کہ پاکستان کے سابق وزیراعظم نواز شریف کی پارٹی مسلم لیگ (ن) فروری میں ہونے والے عام انتخابات جیتنے کی دوڑ میں سب سے آگے ہے جبکہ نواز شریف کیلئے سب سے بڑا چیلنج ملکی معیشت کو سنبھالنا ہو گا۔
رائٹرز کے مطابق نواز شریف چار سالہ جلاوطنی کے بعد گزشتہ برس اکتوبر میں پاکستان واپس آئے ہیں جبکہ انہیں انتخابات میں حصہ لینے سے تاحیات پابندی کا سامنا تھا تاہم سوموار کو سپریم کورٹ آف پاکستان نے سزا یافتہ سیاستدانوں کیلئے تاحیات انتخابی پابندی کو ختم کر دیا ہے جس کے بعد نواز شریف کیلئے انتخابات میں حصہ لینے کا راستہ صاف ہو چکا ہے۔
رائٹرز نے لکھا ہے کہ نواز شریف کیلئے سب سے بڑا چیلنج 350 بلین ڈالرز کی معیشت کو دوبارہ تعمیر کرنا ہو گا جو کہ گزشتہ برس جولائی میں آئی ایم ایف کے بیل آؤٹ پیکج کے باعث ڈیفالٹ سے بچنے میں کامیاب ہو گئی تاہم پاکستان ابھی تک مہنگائی، غیر مستحکم کرنسی اور زرمبادلہ کے کم ذخائر سے نبرد آزما ہے۔
برطانوی اخبار کے مطابق پاکستان میں نواز شریف کے سب سے بڑے حریف عمران خان کے جیل جانے اور الیکشن میں حصہ لینے کیلئے نااہل ہونے کے بعد ایک غیر یقینی سیاسی ماحول میں 8 فروری کے انتخابات کی تیاریاں جاری ہیں جبکہ نواز شریف کی جماعت 15 جنوری کو اپنی عوامی مہم کا آغاز کرنے والی ہے۔
رائٹرز نے لکھا ہے کہ پاکستان کی طاقتور فوج 71 سالہ سابق کرکٹر عمران خان کے ساتھ حالات کشیدہ ہونے کے بعد اب 74 سالہ نواز شریف کی پشت پناہی کر رہی ہے اور یہ صورتحال نواز شریف کیلئے ایک برتری کی طرح ہے کیونکہ پاکستان میں زیادہ تر فوجی جرنیل ہی حکومتیں بنانے اور توڑنے کا کام کرتے ہیں۔
لندن میں قائم اخبار نے لکھا ہے کہ سابق وزیراعظم بینظیر بھٹو کی جماعت پاکستان پیپلز پارٹی پہلے ہی انتخابی مہم کا آغاز کر چکی ہے تاہم ماضی کے مقابلے میں اس کی آواز پست ہو چکی ہے جبکہ پیپلز پارٹی کی جانب سے وزارتِ عظمٰی کے امیدوار بلاول بھٹو زرداری نے سابق وزیراعظم نواز شریف کی انتخابی مہم میں تاخیر کو انتخابات کے انعقاد پر سوالیہ نشان کے طور پر بیان کیا ہے۔
رائٹرز کے مطابق نواز شریف 1990 میں پہلی بار اور 1997 میں دوسری بار وزیراعظم منتخب ہوئے جبکہ 2013 میں نواز شریف تیسری بار پاکستان کے وزیراعظم منتخب ہوئے، انہوں نے 2017 میں اپنی معزولی اور پھر عدالت کی جانب سے سزا سنائے جانے پر فوج کو موردِ الزام ٹھہرایا جبکہ فوج کی جانب سے ان الزامات کی تردید کی گئی تھی۔
رائٹرز کے مطابق نواز شریف کی 2017 میں معزولی کی وجوہات روایتی حریف اور پڑوسی ملک بھارت کے ساتھ تعلقات کو سنبھالنا اور سابق آرمی چیف جنرل (ر) پرویز مشرف کے خلاف غداری کا مقدمہ دائر کرنا تھیں مگر اس کے باوجود پاکستانی فوج کو فی الوقت نواز شریف ہی واحد قابلِ عمل آپشن کے طور پر دکھائی دیتے ہیں۔