تل ابیب (تھرسڈے ٹائمز) — اسرائیلی اخبار ’’یروشلم پوسٹ‘‘ کیمطابق ’’ابراہم ایکورڈز‘‘ کے نتیجہ میں اسرائیل مسلمان عرب ممالک کے ساتھ تعلقات استوار کرنے میں کامیاب رہا تاہم اب اسے پاکستان اور دیگر غیر عرب مسلم ممالک کے ساتھ تعلقات قائم کرنے کی ضرورت ہے جس کیلئے پاکستان کے سابق وزیراعظم عمران خان اہم کردار ادا کر سکتے ہیں۔
یروشلم پوسٹ کے مطابق بطور وزیراعظم پاکستان عمران خان نے بظاہر اسرائیل کی پالیسیز کے خلاف سخت مؤقف اپنایا تاہم انہوں نے یہ اشارہ بھی دیا کہ پاکستان کو اپنی دیرینہ خارجہ پالیسی کو تبدیل کرنے کی ضرورت ہے، عمران خان نے ایسے وقت میں پاکستان کی خارجہ پالیسی کو تبدیل کرنے کی ضرورت پر زور دیا جب عرب مسلم ممالک ابراہم معاہدوں کے تحت اسرائیل کے ساتھ تعلقات استوار کر رہے تھے۔
اسرائیلی اخبار نے 15 ستمبر 2020 کو طے پانے والے ابراہم معاہدوں کو چار برس مکمل ہونے کے موقع پر لکھا ہے کہ اکثر جغرافیائی سیاسی حلقوں میں اسرائیل اور مسلم دنیا کے تعلقات سے متعلق سوالات اٹھتے ہیں، ابراہم معاہدے ان تعلقات کیلئے اہم سنگِ میل ثابت ہوئے جن کے ذریعہ اسرائیل کے متحدہ عرب امارات، بحرین، مراکش اور سوڈان جیسے ممالک کے ساتھ تعلقات قائم ہوئے حالانکہ یکم ستمبر 1967 کو سوڈان کے دارالحکومت خرطوم میں عرب لیگ کے تمام رکن ممالک نے اسرائیل کے ساتھ ’’نہ امن، نہ مذاکرات، نہ تسلیم‘‘ کا عہد کیا تھا جس کو خرطوم قرارداد اور ’’تھری نوز‘‘ کے نام سے جانا جاتا ہے۔
یروشلم پوسٹ کے مطابق اسرائیل نے 1950 اور 1960 کی دہائیوں میں عرب بلاک کے مخالف ممالک کے ساتھ تعلقات قائم کیے جن میں انڈیا اور ایتھوپیا جیسے اہم شراکت دار شامل ہیں، یہ دونوں ممالک مسلم اکثریتی ممالک نہیں تھے تاہم اپنے اپنے خطہ میں اہم حیثیت رکھتے تھے اور دونوں نے سٹریٹجک وجوہات کی بناء پر اسرائیل کے ساتھ تعلقات استوار کیے۔
انڈیا اُس وقت ایک نئی آزاد ریاست کے طور پر سامنے آیا تھا اور اسرائیل کی طرح اسے بھی ایک دشمن پڑوسی ملک کے مقابل اپنا راستہ تلاش کرنا تھا، اگرچہ انڈیا اور اسرائیل کے مابین سفارتی تعلقات 1992 میں قائم ہوئے تاہم دونوں قوموں کے درمیان غیر رسمی تعاون بہت پہلے سے شروع ہو چکا تھا، انڈیا نے اپنے حریف ممالک کے مقابل توازن قائم کرنے کیلئے اسرائیل کو ایک مفید اتحادی کے طور پر دیکھا جبکہ اس نے زراعت اور دفاع سمیت مختلف شعبوں میں اسرائیل کی تکنیکی صلاحیتوں کو بھی تسلیم کیا۔
اسرائیل نے ایتھوپیا کو بھی ہائلی سلاسی کی بادشاہت میں اپنے لیے ایک مضبوط اتحادی کے طور پر پایا، دونوں ممالک نے اپنے اپنے خطہ میں سیکیورٹی صورتحال پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے حریف ریاستوں سے ممکنہ خطرات کو سنجیدگی سے لیا، اسرائیل کیلئے ایتھوپیا کی سٹریٹجک اہمیت اس لیے بھی زیادہ تھی کہ وہ افریقہ اور مشرقِ وسطٰی کے درمیان ایک پُل کی حیثیت رکھتا تھا جبکہ وہ عرب افریقی حصوں سے دور رہتے ہوئے اسرائیل کے ساتھ تعلقات قائم کرنے کی خواہش بھی رکھتا تھا۔
یروشلم میں قائم اہم اسرائیلی اخبار نے لکھا ہے کہ انڈیا اور ایتھوپیا کی مثالیں یہ ظاہر کرتی ہیں کہ اسرائیل کی خارجہ پالیسی اپنے لیے ایسے اتحادیوں کو تلاش کرنے کی ضرورت سے شروع ہوئی جن کے ساتھ اسرائیل مذہب اور ثقافت سے ہٹ کر مشترکہ مفادات رکھتا ہو، ابراہم معاہدوں نے اسرائیل اور اہم عرب ممالک کے درمیان کھڑی بہت سی رکاوٹیں ہٹا دیں اور اب اسرائیل کی توجہ ان غیر عرب مسلم اکثریتی ممالک کی طرف ہے جنہوں نے اب تک اسرائیل کے ساتھ تعلقات قائم نہیں کیے جبکہ ان ممالک میں پاکستان اور انڈونیشیا سب سے زیادہ اہم ہیں۔
یروشلم پوسٹ کے مطابق پاکستان طویل عرصہ سے فلسطینی کاز کے حق میں اپنی پالیسی اور پوزیشن کو برقرار رکھے ہوئے ہے تاہم حالیہ برسوں میں پاکستان کے اندر سے اسرائیل کے ساتھ تعلقات قائم کرنے کے اشارے ملے ہیں، پاکستان کے سابق وزیراعظم عمران خان نے برسرِ اقتدار رہتے ہوئے بظاہر اسرائیل کے خلاف سخت مؤقف اپنایا تاہم انہوں نے اپنے بیانات اور پاکستان کے مفادات میں توازن برقرار رکھتے ہوئے اشارہ دیا تھا کہ پاکستان کو اپنی خارجہ پالیسی کا راستہ تبدیل کرنا چاہیے، عمران خان نے بطور وزیراعظم پاکستان ایسے وقت میں خارجہ پالیسی تبدیل کرنے کی ضرورت پر زور دیا جب عرب مسلم ممالک ابراہم معاہدوں کے تحت اسرائیل کے ساتھ تعلقات کو بہتر بنا رہے تھے۔
اسرائیلی اخبار نے یہ بھی لکھا ہے کہ عمران خان کی پاکستان تحریکِ انصاف (پی ٹی آئی) پارٹی نے حالیہ انتخابات میں قومی اسمبلی کی 93 نشستوں پر کامیابی حاصل کی ہے، عمران خان ایک حقیقت پسند اور مضبوط لیڈر ہیں جو پاکستان اور اسرائیل کے درمیان تعلقات کے مواقع پیدا کر سکتے ہیں، عمران خان پاکستان کے موجودہ سنگین معاشی و اقتصادی بحرانوں کے پیشِ نظر اس بات پر توجہ دلا سکتے ہیں کہ پاکستان کس حد تک اسرائیل کے خلاف اپنی تاریخی دشمنی پر نظرِ ثانی کر سکتا ہے۔
یروشلم میں قائم بین الاقوامی سطح کے اخبار نے لکھا ہے کہ پاکستان کیلئے اسرائیل کے ساتھ تعلقات سے زراعت، سائبر سیکورٹی اور دفاع جیسے شعبوں میں تکنیکی مدد سمیت بڑے معاشی و اقتصادی فوائد حاصل کر سکتا ہے جن میں مالیاتی سرمایہ کاری کے امکانات بھی شامل ہیں، صرف 2022 میں اسرائیل اور متحدہ عرب امارات کے مابین تجارت میں 124 فیصد اضافہ ہوا جو 2 اعشاریہ 59 بلین ڈالرز تک پہنچ گئی جبکہ یہ پاکستان کیلئے بھی ممکنہ فوائد کو ظاہر کرتی ہے۔
اسرائیلی اخبار کے مطابق اسرائیل کے ساتھ تعلقات پاکستان کو اس کی خارجہ پالیسی میں انڈیا اور افغانستان کے ساتھ اپنے پیچیدہ تعلقات کو نیویگیٹ کرنے کیلئے بھی سٹریٹجک فوائد فراہم کر سکتے ہیں تاہم اس کیلئے پاکستان کو اپنی ملٹری اسٹیبلشمنٹ کے اندر سے سخت مزاحمت کو روکنے کی ضرورت ہو گی جس نے طویل عرصے سے پاکستان کو اسرائیل کے ساتھ تعلقات قائم کرنے سے روک رکھا ہے جبکہ اس کیلئے پاکستان میں سیاسی قیادت کو تبدیل کرنا بھی ضروری ہے، پاکستان اور اسرائیل کے تعلقات کیلئے عمران خان عوامی رائے اور فوجی پالیسی میں تبدیلی لا سکتے ہیں۔
یروشلم پوسٹ نے لکھا ہے کہ نومبر میں ڈونلڈ ٹرمپ کی بطور امریکی صدر وائٹ ہاؤس میں واپسی اس عمل کو تیز کر سکتی ہے، ٹرمپ انتظامیہ ابراہم معاہدوں کو زیادہ سے زیادہ ممالک تک بڑھانے کیلئے پُرعزم تھی جس کیلئے اس نے فوجی اور مالی مراعات بھی فراہم کیں، ڈونلڈ ٹرمپ کی زیرِ قیادت امریکی حکومت پاکستان اور انڈونیشیا جیسے ممالک کو سفارتی فوائد یا اقتصادی مراعات کی مدد سے اسرائیل کے ساتھ تعلقات قائم کرنے پر آمادہ کر سکتی ہے۔