لندن (تھرسڈے ٹائمز) — برطانوی اخبار ’’دی ٹائمز‘‘ نے لکھا ہے کہ عمران خان پاکستان کے اندر انتشار کی علامت ہیں، عمران خان خود کو گاندھی اور نیلسن منڈیلا کی طرح سیاسی شہید ظاہر کرتے ہیں حالانکہ وہ سیاسی شہید نہیں ہیں، عمران خان فوج کی حمایت سے اقتدار میں آئے اور جب فوج پشت پناہی سے پیچھے ہٹ گئی تو عمران خان کا اقتدار ختم ہو گیا، عمران خان کسی کے بھی حقوق اور آزادی کے محافظ نہیں ہیں۔
دی ٹائمز کے مطابق عمران خان کو آکسفورڈ یونیورسٹی کی چانسلرشپ کیلئے نااہل قرار دینا بالکل درست فیصلہ ہے، عمران خان درحقیقت کبھی بھی آکسفورڈ یونیورسٹی کی چانسلرشپ کیلئے امیدوار نہیں ریے بلکہ انہوں نے محض ایک تشہیری حربہ کے طور پر خود کو اس عہدہ کیلئے پیش کیا، آکسفورڈ یونیورسٹی میں چانسلر کا مقابلہ عمران خان کیلئے مغرب کو اپنی مشکلات اور سیاسی شکایات کی جانب توجہ دلانے کا ایک طریقہ تھا۔
آکسفورڈ یونیورسٹی کی جانب سے چانسلرشپ کیلئے انفرادی درخواستوں پر تبصرے سے گریز کیا گیا لیکن جب اس مقابلہ میں حصہ لینے کیلئے اہل امیدواروں کی فہرست جاری کی گئی تو اس میں عمران خان کا نام شامل نہیں تھا۔ عمران خان نے 1970 میں آکسفورڈ یونیورسٹی کے کیبل کالج میں اعزازی سٹوڈنٹ کی حیثیت سے فلسفہ، سیاست اور اقتصادیات کی تعلیم حاصل کی تاہم وہ کئی وجوہات کی بناء پر آکسفورڈ یونیورسٹی کا چانسلر بننے کیلئے موزوں نہیں تھے۔
برطانوی اخبار نے لکھا ہے کہ عمران خان نے تین برس قبل پاکستان میں ریپ کیسز (جنسی زیادتی کے واقعات) کا ذمہ دار خواتین کے لباس کو ٹھہرایا، عمران خان کے یہ خیالات نہ صرف قابلِ اعتراض تھے بلکہ منافقت میں ڈوبے ہوئے بھی تھے کیونکہ اپنی جوانی کے دنوں میں عمران خان خود برطانیہ میں مختصر لباس والی خواتین کے ساتھ محافل میں وقت گزارتے رہے ہیں۔
عمران خان کسی کے بھی حقوق اور آزادی کے محافظ نہیں ہیں۔ عمران خان کی جانب سے آکسفورڈ یونیورسٹی کی چانسلرشپ کیلئے انتخابی پیشکش، کہ وہ یونیورسٹی میں علمی آزادیوں اور اظہارِ رائے کی آزادی کا تحفظ کریں گے، پاکستان میں برسرِ اقتدار رہتے ہوئے ان کے طرزِ عمل اور ریکارڈ سے یکسر متضاد اور ناقابلِ یقین تھی کیونکہ عمران خان کے دورِ حکومت میں پاکستان کے اندر میڈیا کو پابندیوں کو سامنا تھا، صحافیوں کو باقاعدگی کے ساتھ ہراساں کیا جاتا تھا اور انہیں ڈرایا دھمکایا جاتا تھا جبکہ حکومت پر کسی بھی قسم کی تنقید کو غداری قرار دیا جاتا تھا۔
دی ٹائمز کے مطابق عمران خان 2018 میں’’تبدیلی‘‘ کا نعرہ لگاتے ہوئے فوج کی حمایت سے اقتدار میں آئے، انہوں نے پاکستان کو کرپشن سے نکالنے کا وعدہ کیا جبکہ ان کی پارٹی ’’پاکستان تحریکِ انصاف‘‘ نے ووٹرز کو ’’نئے پاکستان‘‘ کا خواب دکھایا جس میں دولت کے اشتراک کا دعویٰ کیا گیا لیکن اس کی بجائے پاکستان میں مہنگائی بڑھ گئی، بےروزگاری میں اضافہ ہوا جبکہ پاکستانی روپے کی قدر میں کمی واقع ہوئی، یہاں تک کہ پاکستان کو انٹرنیشنل مانیٹری فنڈ (آئی ایم ایف) سے 4 اعشاریہ 75 بلین ڈالرز کا قرض لینا پڑا۔
عمران خان نے برسرِ اقتدار رہتے ہوئے مذموم انداز میں اسلامی اقدار اور مغرب مخالف جذبات کو اپنی سیاست کیلئے استعمال کیا، انہوں نے اسامہ بن لادن کو ’’شہید‘‘ قرار دیا اور مذہبی انتہا پسند عناصر کے ساتھ تعلقات استوار کیے، ان کے مخالفین نے انہیں ’’طالبان خان‘‘ کا لقب دیا اور بالآخر فوج کی حمایت ختم ہوتے ہی عمران خان اقتدار سے ہاتھ دھو بیٹھے، عمران خان کو 2022 میں تحریکِ عدم اعتماد کے ووٹ میں شکست کا سامنا کرنا پڑا۔
لندن میں قائم بین الاقوامی سطح کے اخبار ’’دی ٹائمز‘‘ نے لکھا ہے کہ برسرِ اقتدار رہتے ہوئے عمران خان کی آمرانہ جبلتیں عروج پر تھیں، عمران خان نے تحریکِ عدم اعتماد پر ووٹنگ کے دوران پارلیمنٹ کو تحلیل کرنے کی کوشش کی جس کو عدالتوں نے روک دیا، عمران خان نے اپنی شکست کا الزام ایک ایسی امریکی سازش پر عائد کیا جس کیلئے وہ کوئی ٹھوس ثبوت پیش نہ کر سکے جبکہ واشنگٹن کی جانب سے بھی ان الزامات کو رد کر دیا گیا۔
برطانوی اخبار کے مطابق عمران خان پاکستان میں مقبول ہیں لیکن اب مغرب نے بڑی حد تک انہیں فراموش کر دیا ہے، عمران خان کرپشن کے الزامات میں ایک سال سے زائد عرصہ سے جیل میں قید ہیں، عمران خان خود کو ایک ایسے ’’سیاسی شہید‘‘ کے طور پر پیش کرتے ہیں جس نے موہن داس کرم چند گاندھی اور نیلسن منڈیلا کی طرح اپنے نظریات اور اصولوں کیلئے سب کچھ قربان کر دیا لیکن عمران خان کا یہ بیانیہ حقیقت سے برعکس ہے۔
پاکستان میں کوئی بھی وزیراعظم اپنے عہدہ کی آئینی مدت مکمل نہیں کر سکا، وزرائے اعظم کو قتل یا قید جبکہ بعض اوقات دونوں کا سامنا کرنا پڑا، جو بھی سیاستدان اقتدار کے عروج تک پہنچا اسے خطرات کا سامنا کرنا پڑا۔ ایک سابق وزیراعظم ذوالفقار بھٹو کو 1979 میں پھانسی دے دی گئی، ان کی بیٹی اور سابق وزیراعظم بےنظیر بھٹو 2007 میں ایک قاتلانہ حملے میں ماری گئیں جبکہ ایک اور سیاسی راہنما محمد نواز شریف کو 1999 اور پھر 2017 میں اقتدار سے محرومی اور جیلوں میں قید کا سامنا کرنا پڑا۔
دی ٹائمز نے لکھا ہے کہ پاکستان میں سیاستدان آتے جاتے رہتے ہیں لیکن کچھ چیزیں ایسی ہیں جو کبھی نہیں بدلتیں، فوج ملک کے اندر ہر جگہ موجود ایک طاقت ہے جبکہ فوجی جرنیلوں نے 34 سالوں تک ملک پر حکمرانی کی ہے۔ عموماً سیاستدان فوج کی رضامندی سے ہی اقتدار میں آتے ہیں، عمران خان پاکستانی فوج کی حمایت سے ہی اقتدار تک پہنچے اور جس لمحہ فوج کی حمایت ختم ہوئی عمران خان کا اقتدار بھی ختم ہو گیا۔
پاکستان میں معاشی و اقتصادی بحران بھی ایک مستقل چیز ہے، گزشتہ ماہ آئی ایم ایف نے پاکستان کیلئے 5 اعشاریہ 25 بلین ڈالرز کا نیا قرض پروگرام منظور کیا ہے جو گزشتہ کئی سالوں سے جاری بیل آؤٹ سلسلہ کی تازہ ترین مثال ہے، پاکستان کا کُل غیر ملکی قرض تقریباً 90 بلین ڈالرز ہے۔ گزشتہ برس موسم گرما میں افراطِ زر کی شرح 38 فیصد تک پہنچ گئی تھی تاہم حالیہ مہینوں کے دوران اس میں کمی واقع ہوئی ہے، عام پاکستانیوں کو حالات کی سنگینی کا احساس ہے جبکہ رواں سال 7 لاکھ افراد بہتر زندگی کی تلاش میں پاکستان سے باہر گئے ہیں۔
برطانوی اخبار ’’دی ٹائمز‘‘ کے مطابق عمران خان نے کبھی پاکستان کے دیرینہ مسائل اور تقسیم کا کوئی حقیقی حل پیش نہیں کیا مگر اس کے باوجود عمران خان کی قید پاکستانی جمہوریت پر ایک بدنما داغ ہے، اقوامِ متحدہ کے غیر قانونی حراست سے متعلق ورکنگ گروپ نے عمران خان کی قید کو بین الاقوامی قانون کی خلاف ورزی قرار دیتے ہوئے ان کی فوری رہائی کا مطالبہ کیا ہے۔
عمران خان کی سابقہ بیوی جمائما گولڈ سمتھ نے دعویٰ کیا ہے کہ ان کے برطانوی بیٹوں سے عمران خان کی ہفتہ وار فون کالز بند کر دی گئی ہیں اور اب عمران خان بجلی کے بغیر جیل میں تنہائی کا شکار ہیں۔ برطانیہ کے پاکستان کے ساتھ تاریخی تعلقات ہیں اور وہ اوورسیز پاکستانیوں کی صورت میں سب سے بڑا ڈونر بھی ہے۔ عمران خان جمہوری اقدار کے علمبردار نہیں ہیں لیکن اس کے باوجود برطانیہ کو اپنا اثر و رسوخ استعمال کرتے ہوئے ان کی قید کے حوالہ سے مذمت کرنی چاہیے۔