لندن (تھرسڈے ٹائمز) — برطانوی اخبار ’’ڈیلی ایکسپریس‘‘ نے لکھا ہے کہ ڈونلڈ ٹرمپ کی وائٹ ہاؤس میں ممکنہ واپسی کے ساتھ پاکستانی اسٹیبلشمنٹ کو سمجھنا ہو گا کہ عمران خان کی رہائی میں تاخیر کے دور رس نتائج ہو سکتے ہیں۔ بہتر ہو گا کہ وہ عمران خان کو رضاکارانہ طور پر رہا کر دے، بجائے اس کے کہ ٹرمپ انتظامیہ کے ہاتھوں مجبور ہو کر ایسا کرے۔ ڈونلڈ ٹرمپ عمران خان کو اپنا دوست سمجھتے ہیں اور ٹرمپ کیلئے عمران خان کی قید ایک ذاتی توہین ہو گی۔
ڈیلی ایکسپریس نے لکھا ہے کہ پاکستان کی ملٹری اسٹیبلشمنٹ نے طویل عرصہ سے ملکی سیاسی بحرانوں میں اپنی راہ بنائے رکھی ہے لیکن اب وہ ممکنہ طور پر ایک غیر مستحکم صورتحال کا سامنا کر رہی ہے جس کے بین الاقوامی سطح پر گہرے اثرات مرتب ہو سکتے ہیں، سابق وزیراعظم عمران خان جیل میں قید ہیں اور ان کی اقتدار سے بےدخلی کو پاکستان کی ’’ڈیپ سٹیٹ‘‘ کی جانب سے ایک مقبول سیاسی شخصیت کو خاموش کرنے کی کوشش کے طور پر دیکھا جا رہا ہے۔
برطانوی اخبار کے مطابق ڈونلڈ ٹرمپ کی وائٹ ہاؤس میں ممکنہ واپسی کے ساتھ پاکستان کی اسٹیبلشمنٹ کو سمجھنا ہو گا کہ عمران خان کی رہائی میں تاخیر کے دور رس نتائج ہو سکتے ہیں، پاکستان کیلئے بڑی طاقتوں کے ساتھ تعلقات کلیدی حیثیت رکھتے ہیں لہذا بہتر ہو گا کہ وہ عمران خان کو رضاکارانہ طور پر رہا کر دے، بجائے اس کے کہ ٹرمپ انتظامیہ کے ہاتھوں مجبور ہو کر ایسا کرے۔
لندن میں قائم اخبار نے لکھا ہے کہ ڈونلڈ ٹرمپ اور عمران خان کے درمیان ذاتی تعلقات ایک اہم عنصر ہیں جو ٹرمپ کی وائٹ ہاؤس میں واپسی کی صورت میں پاکستان کے خارجی تعلقات کو نئی شکل دے سکتے ہیں، ڈونلڈ ٹرمپ نے ماضی میں عمران خان کی قیادت کی تعریف کی اور انہیں افغانستان میں استحکام، طالبان سے مذاکرات اور پاک امریکہ تعلقات میں کشیدگی کے بعد بہتری کیلئے ایک اتحادی کے طور پر دیکھا۔
ڈیلی ایکسپریس کے مطابق ڈونلڈ ٹرمپ عمران خان کو اپنا دوست سمجھتے ہیں اور ٹرمپ کیلئے عمران خان کی قید ایک ذاتی توہین ہو گی، ٹرمپ کا ماضی اس بات کی گواہی دیتا ہے کہ وہ اپنے دوستوں کے خلاف ناانصافی پر سخت ردعمل دیتے ہیں، خاص طور پر جب وہ انہیں ’’اسٹیبلشمنٹ‘‘ کے ہاتھوں مظلوم سمجھتے ہیں۔ اسی وجہ سے ٹرمپ انتظامیہ ممکنہ طور پر عمران خان کی رہائی کیلئے پاکستان پر دباؤ ڈال سکتی ہے اور اگر پاکستان کی اسٹیبلشمنٹ نے مزاحمت کی تو یہ دباؤ مزید بڑھ سکتا ہے۔
برطانوی اخبار نے لکھا ہے کہ پاکستان معاشی بحران کا شکار ہے، افراطِ زر آسمان کو چھو رہا ہے، زرمبادلہ کے ذخائر خطرناک حد تک کم ہیں اور چین بھی مالی امداد فراہم کرنے میں ہچکچاہٹ کا مظاہرہ کر رہا ہے۔ ایسے حالات میں پاکستانی قیادت جانتی ہے کہ وہ امریکہ کے ساتھ تعلقات خراب کرنے کی متحمل نہیں ہو سکتی۔ امریکہ کے ساتھ تعلقات کے بغیر پاکستان کو بین الاقوامی مالیاتی اداروں سے ضروری امداد اور غیر ملکی سرمایہ کاری تک رسائی میں مشکلات پیش آ سکتی ہیں۔
برطانوی اخبار ’’ڈیلی ایکسپریس‘‘ نے دعویٰ کیا ہے وزیراعظم شہباز شریف کی موجودہ حکومت نے ڈونلڈ ٹرمپ کی وائٹ ہاؤس میں ممکنہ واپسی کی تیاری میں ان کے خلاف کیے گئے ماضی کے کچھ ٹویٹس کو حذف کر دیا ہے جو تعلقات بحال کرنے کی ایک علامتی کوشش ہے تاہم ڈونلڈ ٹرمپ کیلئے محض معافی یا ٹویٹس کا حذف ہونا کافی نہیں ہو گا بالخصوص جب ٹرمپ کے دوست عمران خان قید میں ہیں۔
لندن میں قائم اخبار کے مطابق پاکستانی اسٹیبلشمنٹ کی واشنگٹن میں ساکھ پہلے ہی متاثر ہو چکی ہے، ماضی میں ڈونلڈ ٹرمپ پر تنقید کرنے والے اب ڈونلڈ ٹرمپ کی حمایت حاصل کرنے کی کوششیں کر رہے ہیں۔ ان کے پاس ٹرمپ انتظامیہ کے ساتھ تعلقات بہتر کرنے کا بہترین موقع یہی ہے کہ عمران خان کو خود ہی رہا کر کے جمہوریت اور انصاف کے متعلق اپنے عزم کا اظہار کریں۔ پاکستانی اسٹیبلشمنٹ کیلئے عمران خان کو قید میں رکھنے سے ممکنہ طور پر سفارتی محاذ آرائی کا خطرہ پیدا ہو سکتا ہے۔
ڈیلی ایکسپریس نے لکھا ہے کہ اگر پاکستانی اسٹیبلشمنٹ عمران خان کو ڈونلڈ ٹرمپ کے دباؤ میں آ جانے پر رہا کرتی ہے تو اس سے ملکی سیاست پر اس کے کنٹرول کو نقصان پہنچ سکتا ہے۔ ڈونلڈ ٹرمپ کی واپسی سے پہلے عمران خان کو رہا کرنے سے اسٹیبلشمنٹ بیانیہ بدل سکتی ہے، یہ دکھاتے ہوئے کہ وہ جمہوری عمل کا احترام کرتی ہے اور قومی مفاہمت کیلئے تیار ہے۔ اس سے پاکستان کی بین الاقوامی ساکھ میں بھی بہتری آئے گی اور عمران خان کے حامیوں میں پھیلی بےچینی کو بھی کم کیا جا سکتا ہے۔
برطانوی اخبار کے مطابق پاک امریکا تعلقات میں ایک بار پھر گرمجوشی پیدا ہو سکتی ہے۔ جب ڈونلڈ ٹرمپ اور عمران خان نے مل کر افغانستان، تجارت اور کشمیر جیسے معاملات پر بات چیت کی، تو اس سے پاک امریکا تعلقات مضبوط ہوئے۔ اس نوعیت کی شراکت داری دوبارہ قائم کرنے سے پاکستان کو اس مشکل وقت میں مالی اور سفارتی مدد حاصل کرنے میں سہولت مل سکتی ہے، خاص طور پر جب دیگر حلیف ممالک مدد فراہم کرنے میں ہچکچاہٹ کا شکار ہیں۔