لندن (تھرسڈے ٹائمز) — سابق وزیراعظم میاں محمد نواز شریف نے کہا ہے کہ فروری 2024 کے انتخابات سے بہت پہلے یہ بات واضح تھی کہ اگر مجھے اکثریت نہیں ملتی تو میں وزیراعظم کا امیدوار نہیں ہوں گا، نتائج میری توقعات سے کم تھے اور جب نتائج دیکھے تو ’’میں نے سوچا، نہیں‘‘۔
پاکستان مسلم لیگ (ن) کے صدر اور سابق وزیراعظم میاں محمد نواز شریف نے لندن کے پارک لین میں فور سیزنز ہوٹل کے ایک کیفے میں ’’ڈان نیوز‘‘ سے گفتگو کرتے ہوئے کہا ہے کہ پاکستان اور بھارت ہمسائے ہیں اور ہمیشہ رہیں گے، ہمیں آپس میں اچھے تعلقات رکھنے چاہئیں، بھارتی کرکٹ ٹیم کو پاکستان آنا چاہیے، عمران خان پاکستان کے موجودہ حالات کی بنیادی وجہ ہیں، عمران خان نے جمہوریت کو نہیں سمجھا اور نہ ہی اس کیلئے کچھ کیا۔
ڈان نیوز کے مطابق 74 سالہ سابق وزیراعظم نواز شریف اپوزیشن میں ہوتے ہوئے جلاوطنی کے دوران زیادہ پرجوش انداز رکھتے تھے تاہم جمعہ کے روز اپنی گفتگو میں انہوں نے محتاط انداز اختیار کرتے ہوئے کہا کہ میں کوئی ایسی بات نہیں کہنا چاہتا جو کشتی کو ہِلا کر رکھ دے یا عدم استحکام پیدا کرے، یہ وہ آخری چیز ہے جو میں پاکستان کیلئے چاہتا ہوں۔
پاک بھارت تعلقات
پاکستان اور بھارت کے تعلقات سے متعلق سوال کے جواب میں میاں نواز شریف نے کہا کہ ’’پاک بھارت تعلقات ایک بالکل الگ نوعیت کا موضوع ہے، سچائی پر مبنی کوئی بھی جواب ایک فریق یا دوسرے فریق کو نقصان دہ محسوس ہو سکتا ہے، مجھے سمجھداری کا مظاہرہ کرنا ہے اور اشتعال انگیز بیانات سے گریز کرنا ہے، خطہ کے سینئر ترین سٹیٹس مین کی حیثیت سے میں نہیں چاہتا کہ کوئی غلط فہمیاں پیدا ہوں‘‘۔
میاں نواز شریف نے نریندر مودی کو ایک بار پھر بھارتی وزیراعظم منتخب ہونے پر مبارکباد کے پیغام اور بھارت کی جانب سے گرم جوش ردعمل کے بارے میں بات کرتے ہوئے کہا کہ ’’ہم دونوں ہمسائے ہیں اور ہمیشہ رہیں گے، ہمیں آپس میں اچھے تعلقات رکھنے چاہئیں‘‘۔
نواز شریف کا کہنا تھا کہ ’’جب مسائل پیدا ہوں تو ہمیں ایک دوسرے کے ساتھ بیٹھ کر دوستانہ طریقے سے بات چیت اور معاملات پر تبادلہِ خیال کرنا چاہیے، اگر آپ کے کسی ملک کے ساتھ اچھے تعلقات ہوں تو پھر مسائل پر بات کرنا آسان ہو جاتا ہے لیکن اگر آپ ایک دوسرے سے دور ہیں تو آپ مسائل پر بات نہیں کر سکتے‘‘۔
پاک بھارت تعلقات اور کرکٹ
قائدِ مسلم لیگ ( ن) میاں نواز شریف نے کہا کہ ’’مجھے یقین ہے ایک وقت آئے گا جب ہندوستان اور پاکستان مشکل ترین معاملات پر بھی بات کریں گے، اس کیلئے پہلا قدم باہمی اعتماد پیدا کرنے کیلئے اقدامات ہیں، کرکٹ ایک ایسا شعبہ ہے جس کے ذریعہ برف پگھل سکتی ہے، اسی لیے میں نے کہا کہ بھارتی کرکٹ ٹیم کو پاکستان آنا چاہیے اور اس سے تعلقات میں بہتری آئے گی، اگر ایسی صورتحال ہوتی کہ ہمیں انڈیا میں کھیلنا ہوتا تو میں چاہتا کہ پاکستان پہلی ٹیم ہوتی جو وہاں جاتی‘‘۔
میاں محمد نواز شریف سے جب پاکستان کے خلاف انڈیا کے سنگین الزامات، جن میں سرحد پار دہشتگردی کو فروغ دینے جیسے الزامات بھی شامل ہیں، کے بارے میں سوال کیا گیا تو انہوں نے مختصر جواب دیا کہ ’’ہم خود دہشتگردی کا شکار ہیں‘‘۔
پاکستان میں جمہوریت
حالیہ برسوں میں جمہوری اصولوں کی نفی بالخصوص سیاسی گرفتاریوں، مظاہرین کے خلاف ہراسانی اور پریس و انٹرنیٹ کی آزادی پر پابندیوں کے حوالے سے سوال کے جواب میں میاں محمد نواز شریف نے اپنے سب سے بڑے حریف پر سنگین الزامات عائد کر دیئے۔
نواز شریف نے کہا کہ ’’چاہے آپ اس سوال میں عمران خان کو شامل کریں یا نہ کریں مگر وہ ان حالات کی بنیادی وجہ ہیں، جب میں وزیراعظم تھا اور وہ اپوزیشن میں تھے تو ان کے پاس جمہوریت کو فروغ دینے اور اسے مضبوط کرنے کا سب سے بڑا موقع تھا لیکن عمران خان نے جمہوریت کو نہیں سمجھا اور نہ ہی اس کیلئے کچھ کیا‘‘۔
میاں نواز شریف کا کہنا تھا کہ ’’مجھے یاد نہیں کہ انہیں اسمبلی میں ایک یا دو مرتبہ سے زیادہ دیکھا ہو، انہوں نے اپنا وقت پارلیمنٹ کے باہر دھرنوں میں گزارا، ان کی پارٹی کے اراکین نے استعفے دیئے، انہوں نے ہمارے خلاف 35 پنکچر کیس سے مہم چلائی جو کہ [سابق چیف جسٹس] ناصر الملک نے خارج کر دیا تھا، انہوں نے طاہر القادری کے ساتھ اتحاد کیا، کیا یہ جمہوریت ہے؟‘‘۔
عمران خان کا دورِ حکومت بدترین تھا
جب موجودہ حکومت میں جمہوری آزادیوں کے خاتمہ کے بارے میں سوال کیا گیا تو میاں نواز شریف نے کہا کہ ’’عمران خان کے دورِ حکومت میں اس سے بھی بدتر ہوا‘‘۔
نواز شریف نے کہا ’’میں نے اپنا وقت جمہوریت کو مضبوط بنانے میں گزارا، جب ہم نے انتخابات جیتے تو میں عمران خان کے گھر گیا اور کہا کہ آئیے مل کر بیٹھیں اور پاکستان کے عوام کی خدمت کریں، انہوں نے مجھے بتایا کہ وہ اس کیلئے جو بھی ضروری ہو گا کریں گے، لیکن کچھ دنوں بعد انہوں نے اپنے دھرنے کا اعلان کر دیا‘‘۔
نواز شریف نے افسوس کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ ’’یہ عمران خان کا قصور ہے، ہم آج ایک ساتھ کام کر رہے ہوتے اگر انہوں نے تب میری بات سنی ہوتی جب میں ان کے گھر گیا تھا‘‘۔
یہ یاد کرتے ہوئے کہ ان کی پارٹی پاکستان مسلم لیگ ن کو 2013 کے انتخابات کے بعد عمران کی حمایت کی بالکل بھی کوئی ضرورت نہیں تھی، نواز شریف نے کہا کہ انہوں نے ’’مُلک اور جمہوریت کیلئے‘‘ پی ٹی آئی کے راہنما کی جانب ہاتھ بڑھایا تھا۔
نواز شریف کا کہنا تھا کہ ’’اگر عمران خان نے الیکشن شفاف طریقے سے جیتا ہوتا اور ان اصولوں پر کام کیا ہوتا تو ہم آج ایک ساتھ پاکستان کی خدمت کر رہے ہوتے، لیکن انہوں نے نہیں سمجھا اور ہم نے نقصان اٹھایا‘‘
وزیراعظم کیوں نہ بنے؟
جب میاں محمد نواز شریف سے پوچھا گیا کہ وہ فروری کے انتخابات کے بعد وزیراعظم کیوں نہیں بنے تو انہوں نے بتایا کہ ان کی منظق الیکشن سے بہت پہلے واضح تھی کہ ’’اگر مجھے اکثریت نہیں ملتی تو میں وزیراعظم کا امیدوار نہیں ہوں گا، یہ کوئی راز نہیں تھا‘‘ ۔۔ یہ بتاتے ہوئے کہ جب انہوں نے انتخابات کے نتائج دیکھے تو ’’میں نے سوچا، نہیں‘‘۔
جب ان سے سوال کیا گیا کہ کیا یہ سچ ہے کہ انہیں یہ عہدہ (وزارتِ عظمیٰ) نہ لینے کیلئے کہا گیا تھا تو نواز شریف ہنسے اور کہا ’’کیا آپ واقعی اس پر یقین رکھتے ہیں؟ یہ بالکل بھی سچ نہیں ہے‘‘۔
انتخابات کے نتائج کے بارے میں ان کے خیالات کیا ہیں؟ کیا الیکشن کا نتیجہ ان کیلئے ایک بڑا دھچکا تھا؟ نواز شریف نے ذاتی جذبات میں جانے سے گریز کیا اور صرف اتنا کہا ’’نتائج میری توقعات سے کم تھے‘‘۔
مسلم لیگ (ن) کی صدارت
جب میاں محمد نواز شریف سے ان کے سیاسی مستقبل کے بارے میں سوال کیا گیا تو انہوں نے کہا کہ ’’میں نہیں کہہ سکتا کہ مستقبل کیا ہے۔ اب میری توجہ اپنی جماعت کو منظم کرنے اور چیزوں کو ٹھیک کرنے پر ہے، میں مختلف جگہوں کا دورہ کروں گا تاکہ جماعت کو مضبوط کر سکوں، میں امید کرتا ہوں کہ چیزیں بہتر ہوں اور لوگ دیکھیں کہ ہم کیا کر سکتے ہیں اور ہم نے کیا دیا ہے‘‘۔