اسلام آباد (دی تھرسڈے ٹائمز) — پاکستان میں ’’بلیوسکائی‘‘ غیر متوقع طور پر برق رفتار مقبولیت حاصل کرنے والا سوشل میڈیا پلیٹ فارم بن چکا ہے، بلیوسکائی کی کامیابی ٹیکنالوجی یا فیچرز کی بنیاد پر نہیں بلکہ لوگوں کی وجہ سے ہے، یہ ان پاکستانیوں سے متعلق ہے جو سینسرشپ سے انکار کرتے ہوئے مزاحمت کا اعلان کرتے ہیں اور آزادانہ طور پر اظہارِ رائے کا پلیٹ فارم تلاش کرتے ہیں۔
پاکستان۔۔۔ کرکٹ اور چائے کی سرزمین، سوشل میڈیا پر ختم نہ ہونے والی پابندیوں کی شکار ہے۔ تازہ ترین صورتحال کے مطابق مُلک میں تیزی کے ساتھ مقبولیت حاصل کرنے والا سوشل میڈیا پلیٹ فارم کوئی اور نہیں بلکہ ٹیکنالوجی کی دنیا کا پسندیدہ ’’بلیوسکائی‘‘ ہے۔ اس میں کوئی حیرت نہیں کہ پاکستانی سوشل میڈیا صارفین ’’بلیوسکائی‘‘ کی جانب اس طرح امڈ آئے ہیں جیسے وہ گزرتے موسم کے آخری آم کی طرف لپک رہے ہوں۔ لیکن ایک ایسا پلیٹ فارم جس کے بارے میں گزشتہ برس تک چند ہی لوگ جانتے تھے، اس کیلئے اس قدر لگاؤ کی اصل وجوہات کیا ہیں؟
آئیے۔۔۔ ’’بلیوسکائی‘‘ کی مقبولیت کے پیچھے محرکات کو واضح کرتے ہیں۔ پاکستان کے اندر حال ہی میں ایکس، جس کا اصل نام ’’ٹویٹر‘‘ تھا، پر پابندی عائد کی گئی ہے۔ اگر کوئی چیز واقعی لوگوں کو متحد کرتی ہے تو وہ ان چیزوں کیلئے مشترکہ محبت ہے جن تک ان کی رسائی نہیں ہوتی یا پھر بہت مشکل ہوتی ہے۔ درحقیقت جیسے ہی ایکس (ٹویٹر) ڈیجیٹل منظرِ عام سے غائب ہوا، بلیوسکائی نے حیران کن حد تک صارفین کو اپنی جانب متوجہ کیا کیونکہ لوگوں نے حکومتی پابندیوں کو مدِنظر رکھتے ہوئے اسے متبادل پلیٹ فارم کے طور پر پایا۔
حکومت نے صرف ایکس (ٹویٹر) پر پابندی عائد کرنے پر ہی اکتفا نہیں کیا بلکہ اس سے ایک قدم آگے بڑھاتے ہوئے ایکس (ٹویٹر) تک رسائی کیلئے استعمال ہونے والی “وی پی اینز” کی جانچ پڑتال کا بھی آغاز کر دیا ہے کیونکہ اگر لوگ وی پی این کے ذریعہ ایکس (ٹویٹر) تک رسائی حاصل کر لیں تو پھر پابندی غیر مؤثر ہو جاتی ہے۔ ایکس (ٹویٹر) تک رسائی مشکل ہونے اور پھر “وی پی اینز” پر ممکنہ پابندیوں کے باعث لوگوں کے پاس آپشنز محدود ہو کر رہ گئے۔ ’’فیس بک‘‘ پر بہت ذیادہ بھیڑ ہو چکی ہے جبکہ ’’انسٹاگرام‘‘ کے فیچرز محدود ہیں، اس صورتحال میں ’’بلیوسکائی‘‘ بہترین متبادل اور محفوظ پناہ گاہ کے طور پر نظر آئی جہاں حکومتی پابندیوں کے خوف سے بالاتر ہو کر آزادانہ بات چیت کی جا سکتی ہے۔
اس تمام صورتحال میں دلچسپ بات یہ ہے کہ بلیوسکائی، جو پہلے مرکزی حیثیت نہیں رکھتی تھی، اب آزادانہ طور پر سوشل میڈیا استعمال کرنے کیلئے موزوں پلیٹ فارم کے متلاشیوں کیلئے مرکزی حیثیت اختیار کر چکی ہے۔ لیکن اگر آپ جاننا چاہیں کہ پاکستانیوں کو خاص طور پر ’’بلیوسکائی‘‘ کی ضرورت کیوں ہے تو اس کا جواب یہ ہے کہ جب یہاں حکومت ’’نہیں‘‘ کہتی ہے تو لوگ اسے اپنے لیے چیلنج سمجھ لیتے ہیں اور ایسی ہی ایک صورتحال میں ’’بلیوسکائی‘‘ انہیں ایسا بہترین پلیٹ فارم مہیا کرتی ہے جو اخلاقیات سے متعلق اوپن سورس پالیسیز اور غیر ضروری مداخلت نہ ہونے کا نظام رکھتی ہے۔
بلاشبہ ’’بلیوسکائی‘‘ وقت کے تعین میں داد کی مستحق ہے۔ ایسا لگتا ہے کہ بلیوسکائی بنانے والے کسی بند کمرے میں بیٹھ کر پاکستانی مارکیٹ میں داخل ہونے کی منصوبہ بندی کر رہے تھے کہ آئیں پاکستانی حکومت کی جانب سے دیگر تمام پلیٹ فارمز پر پابندیوں کا انتظار کرتے ہیں اور پھر موقع پر چوکا لگائیں گے۔ بلاشبہ ’’بلیوسکائی‘‘ کی توجہ اظہارِ رائے کی آزادی کو یقینی بنانے پر ہے۔ ایک ایسا ملک جہاں تقریر پولیس کو متوجہ کرتی ہے اور کچھ آراء کو بیان کرنے کی بجائے خاموش رہنا بہتر سمجھا جاتا ہے، بلیوسکائی ایک حتمی اور ان-فلٹرڈ مائیکروفون کے طور پر ابھرا ہے۔
ایک حقیقت یہ بھی ہے کہ ’’بلیوسکائی‘‘ میں بہت زیادہ یا غیر معمولی خصوصیات نہیں ہیں، ایسا نہیں ہے کہ یہ ایکس (ٹویٹر) کے مقابلہ میں بہتر فیچرز مہیا کرتا ہے بلکہ یہ ایک بنیادی سوشل میڈیا پلیٹ فارم کی طرح ہے جس کے پیچھے ایک فینسی کہانی ہے، جب آپ کو صرف اظہارِ رائے کیلئے ایک پلیٹ فارم کی ضرورت ہو تو آپ بالکل بھی جدید ٹیکنالوجی سے متعلق سوالات نہیں پوچھتے۔ بلیوسکائی ایک ڈیجیٹل تھراپی روم بن چکا ہے جہاں پاکستانیوں کو شکایات، سیاسی مباحثے اور خیالات کے اظہار کا ان-فلٹرڈ موقع مل رہا ہے۔
اب سوال ہے کہ یہ ڈیجیٹل یوٹوپیا کب تک چلے گا؟ کیا بلیوسکائی پاکستان میں آزادیِ اظہارِ رائے کا پلیٹ فارم رہے گا یا پھر اس کا بھی ایکس (ٹویٹر) جیسا ہی انجام ہو گا؟ یہ تو وقت ہی بتائے گا مگر فی الحال ’’بلیوسکائی‘‘ کے صارفین سردیوں میں دھوپ کی طرح لطف اندوز ہو رہے ہیں۔ حکومت کی بات کی جائے تو اس کے طرزِ عمل میں ایک ستم ظریفی ہے کہ اس نے حالات پر قابو پانے کیلئے ایکس (ٹویٹر) پر پابندی عائد کر کے صرف ایک خلا پیدا کیا ہے جس کو اب ’’بلیوسکائی‘‘ پُر کر رہا ہے۔ یہ بالکل “ویک-اے-مول” گیم کی طرح ہے جس میں ہر پابندی ایک نئے پلیٹ فارم کو جنم دیتی ہے۔
اس معاملہ میں وی پی این کی شکست کو بھی فراموش نہیں کرنا چاہیے۔ وی پی اینز پر حکومتی کریک ڈاؤن پیٹرول سے آگ بجھانے کی کوشش کے مترادف ہے کیونکہ آن لائن کنٹرول کی ہر کوشش لوگوں کے اندر رسائی کی طلب میں اضافہ کر رہی ہے۔ حکومت کی جانب سے وی پی اینز پر ممکنہ پابندیوں نے ہی لوگوں کو متبادل پلیٹ فارم کی تلاش پر مجبور کیا ہے کیونکہ پاکستان میں آپ جتنی پابندیاں لگائیں گے لوگ اتنی ہی مزاحمت کریں گے۔
پاکستان میں ’’بلیوسکائی‘‘ کی بڑھتی ہوئی مقبولیت اشارہ دیتی ہے کہ لوگ سینسرشپ سے تھک چکے ہیں، وہ ایسے پلیٹ فارمز کی تلاش میں ہیں جہاں انہیں جاسوسی کے خوف کے بغیر آزادانہ طور پر بات چیت کا موقع مل سکے اور فی الحال یہ پلیٹ ’’بلیوسکائی‘‘ ہے جس پر کسی فلٹر یا خوف کے بغیر آزادیِ اظہارِ رائے کو ممکن بنایا گیا ہے۔
لیکن اگر ’’بلیوسکائی‘‘ پر پابندی لگا دی جائے تو کیا ہو گا؟ کیا اس کی جگہ کوئی اور پلیٹ فارم آئے گا؟ شاید ہاں، کیونکہ آزادیِ اظہارِ رائے کی خواہش Whac-A-Mole گیم کی طرح ہے، آپ ایک پلیٹ فارم پر پابندی لگا سکتے ہیں لیکن اس کی جگہ لینے کیلئے کوئی دوسرا ہمیشہ تیار ہوتا ہے۔ اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا کہ حکومت کتنے ہی پلیٹ فارمز پر پابندی عائد کر دے، لوگ ہمیشہ اپنی بات کہنے کیلئے راستہ تلاش کرتے رہیں گے، پھر چاہے وہ ایکس (ٹویٹر) کے بعد ’’بلیوسکائی‘‘ اور پھر اس کے بعد کوئی بھی ہو۔ درحقیقت پاکستانی بلیوسکائی کا انتخاب کر کے یہ پیغام دے رہے ہیں کہ وہ خاموش نہیں بیٹھیں گے۔
بلیوسکائی مقبولیت میں اضافہ تو جاری رکھے ہوئے ہے لیکن اس پلیٹ فارم کیلئے آگے کیا ہو گا؟ کیا یہ کوئی بڑی اور غیر معمولی حیثیت حاصل کر سکے گا یا پھر یہ ڈیجیٹل پلیٹ فارم مایوس لوگوں کیلئے ایک خاص اور محفوظ پناہ گاہ بنا رہے گا؟ یہ تو وقت ہی بتائے گا لیکن اس میں کوئی دو رائے نہیں کہ پاکستان میں ’’بلیوسکائی‘‘ کی ترقی قابلِ دید ہے۔ بلیوسکائی کی کامیابی ٹیکنالوجی یا فیچرز کی بنیاد پر نہیں بلکہ لوگوں کی وجہ سے ہے۔ یہ ان پاکستانیوں سے متعلق ہے جو سینسرشپ سے انکار کرتے ہیں، جو آزادانہ طور پر اظہارِ رائے کا پلیٹ فارم تلاش کرتے ہیں اور جو حکومتی پابندیوں کے باعث باز نہیں آئیں گے جبکہ انھی وجوہات کی بناء پر ’’بلیوسکائی‘‘ بھرپور توجہ حاصل کر رہی ہے۔
پس یہ ہے ’’بلیوسکائی‘‘ ۔۔ پاکستان کے سوشل میڈیا منظر نامہ پر غیر متوقع ہیرو کے طور پر سامنے آنے والا پلیٹ فارم۔ امید ہے یہ ترقی کرتا رہے گا اور پاکستانیوں کی آوازیں بلند ہوتی رہیں گی اور موزوں انداز میں گونجتی رہیں گی چاہے ان کے راستے میں کوئی بھی ڈیجیٹل رکاوٹ کیوں نہ کھڑی کر دی جائے۔ درحقیقت آزادیِ اظہارِ رائے کو کسی پلیٹ فارم کی ضرورت نہیں ہوتی بلکہ اسے تلاش کرنے کیلئے پُرعزم لوگوں کی ضرورت ہوتی ہے۔