تجزیہ: شام میں اجتماعی قبروں و عقوبت خانوں میں ہزاروں لاشیں اور بشار الاسد حکومت کے مظالم کی داستانیں، ایسوسی ایٹڈ پریس

شام میں عقوبت خانوں اور اجتماعی قبروں سے بشار الاسد حکومت کے وحشیانہ مظالم کی داستانیں سناتی ہزاروں تشدد زدہ لاشیں برآمد، شامی و فلسطینی لوگ گرفتار یا لاپتہ ہونے والے اپنوں کی تلاش میں مردہ خانوں کی طرف امڈ آئے ہیں۔

spot_img

دمشق، شام (تھرسڈے ٹائمز) — دی ایسوسی ایٹڈ پریس (اے پی) نے شام میں بشار الاسد حکومت میں گرفتار یا لاپتہ ہونے والے افراد کی بشار حکومت کے خاتمہ کے بعد ملنے والی لاشوں اور مردہ خانوں کی صورتحال سے متعلق ایک رپورٹ شائع کی ہے جس کے مطابق 2011 کے بعد سے شام میں کم و بیش 1 لاکھ 50 ہزار افراد کو گرفتار کیا گیا یا لاپتہ قرار دیا گیا جبکہ ان گرفتار یا لاپتہ افراد کی لاشیں اب صیدنایا جیل اور دیگر عقوبت خانوں سے برآمد ہو رہی ہیں۔

محمد شعیب نے دھیمی آواز میں اپنے فون پر بات کرتے ہوئے ایک رشتہ دار کو افسوسناک خبر دی کہ ’’میں نے اپنے بھائی کو مردہ خانے میں پایا ہے، میں نے اسے دیکھا اور الوداع کہہ دیا، اس کی حالت معمولی نہیں ہے، اس کی تو آنکھیں بھی نہیں ہیں‘‘۔

محمد شعیب کی نگاہیں سمیع شعیب کی جھلسی ہوئی لاش پر تھیں جس کے دانت باہر نکلے ہوئے اور آنکھوں کے حلقے خالی تھے۔ ایسا لگ رہا تھا جیسے وہ چیختے ہوئے جان دے گیا ہو۔

یہ لاش پانچ ماہ قبل گرفتار کیے گئے ایک شخص کی تھی جو صدر بشار الاسد کے زیرِ حکومت تاریک عقوبت خانوں کے نظام میں غائب ہو گیا تھا۔ یہ لاش ان کئی افراد میں سے ایک ہے جنہیں شامی حراستی مراکز اور جیلوں میں پایا گیا ہے۔ گزشتہ ہفتے کے اختتام پر بشار الاسد کی 24 سالہ جبکہ الاسد خاندان کی 50 برس سے زائد عرصہ تک قائم رہنے والی حکومت ختم ہو گئی تھی۔

سمیع شعیب، جس کی عمر 34 برس تھی، بشار الاسد کی سیکیورٹی فورسز کی حراست میں تھا اور اس کی لاش المجتہد ہاسپٹل سے وصول کی گئی ہے۔ مردہ خانے میں دیوار کے سامنے شامیوں کی بھیڑ لگی ہوئی تھی، لوگوں کی نگاہیں مردہ خانے پر مرکوز تھیں کہ شاید انہیں ان کے پیاروں کی لاشیں مل جائیں جنہیں بشار الاسد حکومت میں قید کیا گیا تھا۔

کچھ قیدی چند ہفتوں قبل اور کچھ کئی ماہ پہلے جان کی بازی ہار گئے تھے، شام کے عوام دنیا بھر میں مردہ افراد کی تصاویر پھیلا رہے ہیں تاکہ لوگ اپنے ان پیاروں کی لاشیں پہچان سکیں جن کی گمشدگی ایک معمہ بن گئی تھی۔ لوگ ہاسپٹلز کے مردہ خانوں کے باہر لگی تصاویر کی جانب دوڑتے ہیں تاکہ اپنے پیاروں کی شناخت کر سکیں۔

محمد شعیب کبھی نہیں جان سکے کہ ان کے بھائی کو کیوں گرفتار کیا گیا تھا۔ انہوں نے کہا کہ ’’ہم نے مختلف کہانیاں سنیں۔ چرس، اعضاء کی سمگلنگ، منشیات اور اسلحہ کی تجارت۔۔ لیکن اس (سمیع شعیب) کا ان میں سے کسی سے کوئی تعلق نہیں تھا‘‘۔

انہوں نے مردہ خانے کا رخ اُس وقت کیا جب ترکی میں رہنے والے ان کے ایک بھائی نے انہیں ایک تصویر بھیجی جس میں لاش جانی پہچانی لگ رہی تھی۔ وہ اپنے بھائی کو کان کے نیچے ایک تِل اور ایک آدھی کٹی انگلی سے پہچان سکے جو کہ 12 سال کی عمر میں ایک حادثے کے باعث کٹ گئی تھی۔

لاش کے پاس کھڑے ہو کر محمد شعیب نے چادر اٹھائی اور دھیرے سے اپنے بھائی کا بایاں ہاتھ نکالا، اسے قریب سے دیکھا اور اشارہ کرتے ہوئے کہا ’’یہاں‘‘۔

فارنزک ورکرز تیزی سے لاشوں کی شناخت اور انہیں خاندانوں کے حوالے کرنے میں مصروف تھے۔ مردہ خانے میں ایک فارنزک اسسٹنٹ یاسر قصر نے بتایا کہ اس صبح ہاسپٹل سے 40 لاشیں آئیں جن کے فنگر پرنٹس اور ڈی این اے سیمپلز لیے جا رہے تھے۔ عملہ پہلے ہی تقریباً آٹھ افراد کی شناخت کر چکا ہے لیکن خاندانوں کی تعداد زیادہ ہے اور تعداد میچ نہیں کر رہی۔

یاسر نے بتایا کہ کچھ لاشیں بدنامِ زمانہ صیدنایا جیل سے آئیں جو اب بھی قیدیوں کے یونیفارم میں ملبوس تھیں۔ یاسر کے ساتھی ڈاکٹر عبداللّٰہ یوسف نے کہا کہ ان تمام لاشوں کی شناخت میں وقت لگے گا۔

انہوں نے کہا کہ ’’ہم خاندانوں کے دکھ کو سمجھتے ہیں لیکن ہم شدید دباؤ میں کام کر رہے ہیں، یہ لاشیں سالٹ رومز میں پائی گئیں جو کہ شدید سردی کے زیرِ اثر تھیں، مردہ خانہ کے اہلکاروں نے جن لاشوں کا معائنہ کیا ان پر گولیوں کے زخم اور تشدد کے نشانات دیکھے گئے ہیں‘‘۔

ایک اندازے کے مطابق 2011 کے بعد سے شام میں 1 لاکھ 50 ہزار افراد کو گرفتار کیا گیا یا لاپتہ قرار دیا گیا۔ بشار الاسد کے دورِ حکومت میں معمولی سا اختلاف بھی کسی کو فوری طور پر جیل بھیج سکتا تھا جبکہ یہ سزا موت کے مترادف سمجھی جاتی تھی کیونکہ بہت کم لوگ ہی اس نظام سے زندہ واپس آتے تھے۔

ایمنیسٹی انٹرنیشنل کی رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ آزاد ہونے والے قیدیوں اور جیل کے اہلکاروں کی گواہیوں کے مطابق شام میں ہزاروں افراد کو اکثر اجتماعی پھانسیوں میں قتل کیا گیا۔ قیدیوں کو مسلسل مار پیٹ، بہیمانہ تشدد اور جنسی زیادتی کا سامنا کرنا پڑا۔ اکثر قیدی زخموں، بیماری یا بھوک کے باعث مر جاتے تھے۔ کچھ ذہنی بیماری میں مبتلا ہو کر خود کو فاقہ کشی میں دھکیل دیتے تھے۔

مردہ خانے میں پائی جانے والی لاشوں میں سے ایک مازن الحمادة کی تھی جو کہ ایک شامی کارکن تھا۔ اسے پہلے صيدنايا میں بہیمانہ تشدد کا نشانہ بنایا گیا، وہ 2012 میں رِہا ہوا تو شام سے باہر چلا گیا اور پھر 2020 میں یورپ سے شام واپس آیا اور گرفتار کر لیا گیا۔ اس کی زخمی لاش صیدنایا کے عقوبت خانے میں ایک خونی چادر میں لپٹی ہوئی ملی۔

کچھ خاندان لاشوں کے درمیان چلتے ہوئے، دھیمی آواز میں روتے ہوئے شناخت کیلئے رُک رُک کر دیکھتے رہے۔ لاشیں سفید کفن میں لپٹی تھیں، ہر ایک پر ایک نمبر لکھا ہوا تھا جبکہ کچھ لاشوں پر ’’نامعلوم‘‘ کا لیبل لگا ہوا تھا۔

ہلالہ مریاح، جو کہ 64 سالہ فلسطینی ماں ہیں، لاشوں کی شناخت کیلئے کمرے میں موجود تھیں جبکہ ان کے اردگرد لاشوں کے تھیلے تھے۔ وہ ابھی اپنے بیٹوں میں سے ایک کو تلاش کر چکی تھیں اور دیگر کو تلاش کر رہی تھیں، انہوں نے ایک لمحے کیلئے آنکھیں بند کیں اور آسمان کی طرف منہ کرتے ہوئے ایک دعا کی ’’مجھے نہیں معلوم وہ کہاں ہیں، میرے بچوں کو واپس دو، میرے بچوں کو تلاش کرو‘‘۔

انہوں نے چیخ کر کہا ’’اس نے اپنی قوم کے ساتھ ایسا کیوں کیا؟ انہیں قید کر لیتے، ہم اعتراض نہ کرتے۔ ان پر مقدمہ چلاتے، لیکن انہیں ذبح کر دیا‘‘۔

ایک شامی شہری ’’عماد حبال‘‘ مردہ خانے میں اپنے نقصان کی حقیقت اور ناانصافی کی گرفت میں ساکِت کھڑے تھے۔ انہوں نے اپنے بھائی ’’دیا حبال‘‘ کی لاش کو دیکھا اور بتایا کہ ’’ہم کل آئے تھے اور ہم نے اسے مردہ پایا، انہوں نے اسے مار ڈالا۔ کیوں؟ اس کا جرم کیا تھا؟ اس نے کبھی ان کے ساتھ کیا کیا؟ صرف اس لیے کہ وہ اپنے ملک واپس آیا؟‘‘

دیا حبال، ایک شامی جو 2003 سے سعودی عرب میں رہ رہا تھا اور 2024 کے وسط میں اپنے خاندان سے ملنے کیلئے دمشق واپس آیا، اسے شام کی ملٹری پولیس نے چھ ماہ قبل ملٹری سروس سے بچنے کے الزام میں گرفتار کیا تھا۔

عماد حبال نے کانپتے ہوئے ہاتھوں کے ساتھ چادر اٹھائی، روتے ہوئے اس کی آواز ٹوٹ گئی اور اس نے اپنے بھائی سے بات کی ’’میں نے تم سے کہا تھا کہ نہ آنا، کاش تم نہ آتے‘‘۔

Follow Us

The Thursday Times is now on Bluesky—follow us now. You can also follow us on Mastodon.

LEAVE A COMMENT

Please enter your comment!
Please enter your name here
This site is protected by reCAPTCHA and the Google Privacy Policy and Terms of Service apply.

The reCAPTCHA verification period has expired. Please reload the page.

spot_img

خبریں

The latest stories from The Thursday Times, straight to your inbox.

Thursday PULSE™

More from The Thursday Times

error: