تجزیہ: شیخ مجیب کا جنگِ آزادی سے کوئی تعلق نہ تھا، وہ آزادی نہیں بلکہ اقتدار کے خواہاں تھے۔ بنگلہ دیشی محقق بدر الدین عمر

شیخ مجیب الرحمٰن کو جنگِ آزادی کا عظیم ہیرو قرار دینا جھوٹ ہے۔ شیخ مجیب کا جنگِ آزادی سے کوئی تعلق نہیں، وہ صرف اقتدار و اختیارات کے خواہاں تھے۔ جنگ 1971 کی تاریخ درست نہیں لکھی گئی بلکہ 80 فیصد باتیں من گھڑت ہیں۔

spot_img

ڈھاکہ (تھرسڈے ٹائمز) — معروف مصنف، محقق اور سیاستدان ’’بدر الدین عمر‘‘ نے دعویٰ کیا ہے کہ 1971 کی بنگلہ دیش کی جنگِ آزادی کی حقیقی تاریخ کو صحیح طریقہ سے نہیں لکھا گیا اور جو کچھ لکھا گیا ہے وہ محض سرکاری بیانیہ ہے جس میں 80 سے 90 فیصد من گھڑت باتیں ہیں۔

بنگلہ دیش کے 54ویں ’’یومِ فتح‘‘ کے موقع پر سرکاری نیوز ایجنسی ’’بنگلہ دیش سانگباد سانگستا‘‘ (بی ایس ایس) کو انٹرویو دیتے ہوئے 93 سالہ دانشور ’’بدر الدین عمر‘‘ نے بنگلہ دیش کی جنگِ آزادی کے کئی اہم پہلوؤں پر روشنی ڈالی ہے۔

بدر الدین عمر نے جنگِ آزادی کی تاریخ کے مسخ شدہ ہونے کے بارے میں گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ ابتداء سے ہی تاریخ کو اس طرح پیش کیا گیا جیسے شیخ مجیب الرحمٰن اس جنگ کے عظیم ترین ہیرو ہیں، بعد میں شیخ حسینہ نے اس جنگ کو اس طرح پیش کرنا شروع کیا جیسے یہ ان کے خاندان کا ذاتی معاملہ ہو اور ان کے خاندان نے ہی یہ جنگ لڑی ہو، اب وقت آ گیا ہے کہ تاریخ کے اس کوڑے کو صاف کیا جائے۔

بنگلہ دیش کی جنگِ آزادی کے آغاز کے حوالے سے گفتگو کرتے ہوئے معروف سیاستدان ’’بدر الدین عمر‘‘ نے کہا کہ مارچ 1971 میں اقتدار کی منتقلی کیلئے مذاکرات ناکام ہونے کے بعد جب پاکستانی فوج نے 25 مارچ کی رات بنگالیوں کا قتلِ عام کیا تو آزادی کی جنگ ناگزیر ہو گئی، اس صورتحال کی وجہ سے عوام کسی تیاری کے بغیر ایک غیر متوازن جنگ میں کود پڑے۔

بد الدین عمر کا کہنا تھا کہ شیخ مجیب الرحمٰن کے حوالہ سے کہا جاتا ہے کہ وہ بنگلہ دیش کی آزادی چاہتے تھے حالانکہ یہ مکمل طور پر جھوٹ ہے، اگر ہم حقائق کا جائزہ لیں تو یہ حقیقت عیاں ہوتی ہے کہ شیخ مجیب الرحمٰن بنگلہ دیش کی آزادی نہیں چاہتے تھے بلکہ وہ پاکستان کے ریاستی ڈھانچے کے اندر زیادہ سے زیادہ اختیارات کے خواہاں تھے اور پاکستان کا وزیراعظم بننے کی خواہش رکھتے تھے۔

بدر الدین عمر نے وضاحت بیان کرتے ہوئے کہا کہ شیخ مجیب درحقیقت دو چیزیں قبول نہیں کر سکے؛ ایک یہ کہ وہ پاکستان کے وزیراعظم نہیں بن سکے اور دوسرا یہ کہ بنگلہ دیش ان کی غیر موجودگی میں آزاد ہوا، اسی وجہ سے آزادی کے بعد انہوں نے جنگِ آزادی سے متعلق کچھ بھی جاننے سے انکار کر دیا، تاج الدین اور دیگر راہنماؤں نے 1971 میں مُلک کے اندرونی حالات ان کے سامنے پیش کیے لیکن وہ سننے کو تیار نہیں تھے۔

شیخ مجیب الرحمٰن کی 7 مارچ کی تقریر، جس میں انہوں نے بنگلہ دیش کی آزادی کا اعلان کیا، کے بارے میں گفتگو کرتے ہوئے بدر الدین عمر نے کہا کہ عمومی طور پر کہا جاتا ہے کہ یہ آزادی کا اعلان تھا کیونکہ شیخ مجیب الرحمٰن نے کہا تھا کہ ’’یہ جدوجہد آزادی کی جدوجہد ہے‘‘ لیکن یہ باتیں اُس وقت حالات کے دباؤ میں کہی گئی تھیں۔

معروف مسلم لیگی سیاستدان ’’ابو الہاشم‘‘ کے بیٹے ’’بدر الدین عمر‘‘ نے کہا کہ درحقیقت یکم مارچ سے عوامی بغاوت شروع ہو چکی تھی جب یحییٰ خان نے 3 مارچ کو یہاں منعقد ہونے والا قومی اسمبلی کا اجلاس ملتوی کرنے کا اعلان کیا، کسی قیادت کے بغیر عوامی بغاوت نے شدت اختیار کر لی تھی۔

معروف بنگالی مصنف و محقق ’’بدر الدین عمر‘‘ نے کہا کہ شیخ مجیب الرحمٰن نے یہ تقریر حالات کے دباؤ اور طلباء کی جانب سے آزادی کے اعلان کے دباؤ کے تحت کی، شیخ مجیب الرحمٰن کی اس تقریر میں متضاد باتیں تھیں، وہ کہہ رہے تھے کہ دشمن کے خلاف لڑنا ہے لیکن ساتھ ہی پاکستانی فوج کو بھائی بھی کہہ رہے تھے، بعدازاں 15 مارچ کو یحییٰ خان ڈھاکہ آئے تو شیخ مجیب الرحمٰن اور ان کی ٹیم 23 مارچ تک یحییٰ خان کے ساتھ بات چیت کرتے رہے۔

پاکستانی فوج کی جانب سے حملے کے بعد کے حالات کے بارے میں گفتگو کرتے ہوئے ’’بدر الدین عمر‘‘ نے کہا کہ جب 25 مارچ کی رات پاکستانی فوج نے حملہ کیا تو عوامی لیگ کا پورا ڈھانچہ تباہ ہو گیا، شیخ مجیب الرحمٰن نے سب کو فرار ہونے کی ہدایت کی لیکن خود گھر پر رُکے رہے، اس کا مطلب یہ ہے کہ وہ پاکستانی فوج کے سامنے ہتھیار ڈالنے کیلئے تیار تھے، عوامی لیگ کے راہنما بھاگ کر بھارت چلے گئے جبکہ عوام اور محبِ وطن فوجی جوانوں نے یہاں رہ کر جنگ لڑی۔

بدر الدین عمر نے دعویٰ کیا کہ شیخ مجیب الرحمٰن پاکستانی فوج کے ساتھ آزادی کی بجائے اقتدار میں طاقت و اختیارات کی تقسیم کے بارے میں بات چیت کرتے رہے، ان کی خواہش پاکستان کا وزیراعظم بننا تھی اور اس کیلئے وہ ہمیشہ سے سمجھوتا کرنے پر تیار تھے، عوامی لیگ کہتی ہے کہ شیخ مجیب الرحمٰن کو پاکستانی فورسز نے گرفتار کر لیا تھا لیکن حقیقت یہ ہے کہ شیخ مجیب الرحمٰن نے خود سرینڈر کیا تھا۔

بنگلہ دیش کے معروف سیاستدان بدر الدین عمر نے کہا کہ شیخ مجیب الرحمٰن 9 ماہ تک پاکستانی جیل میں رہے، وہ جنگِ آزادی کے بارے میں کچھ نہیں جانتے تھے، انہیں کوئی اخبار پڑھنے یا ریڈیو سننے کی اجازت نہیں تھی، انہیں تو معلوم ہی نہ تھا کہ جنگِ آزادی لڑی جا رہی تھی، جیل سے رہائی کے بعد وہ لندن چلے گئے اور وہاں جا کر انہیں معلوم ہوا کہ جنگِ آزادی لڑی گئی ہے اور بنگلہ دیش آزاد ہو چکا ہے۔

انہوں نے مزید کہا کہ شیخ مجیب الرحمٰن کا جنگِ آزادی سے کوئی تعلق نہیں تھا، عوامی لیگ کے کسی راہنما نے جنگِ آزادی میں حصہ نہیں لیا بلکہ وہ سب کولکتہ میں آرام سے بیٹھے تھے، پاکستانی فوج کے کمزور ہو جانے کی وجہ یہ تھی کہ یہاں عام آدمی جنگ لڑ رہا تھا، جنگِ آزادی میں سب سے بڑا کردار مُلک کے عوام کا تھا جنہوں نے اپنی جانوں کا نذرانہ پیش کیا۔

آزادی کے بعد کے حالات کے بارے میں بات کرتے ہوئے ’’بدر الدین عمر‘‘ نے کہا کہ آزادی کے بعد بھارتی حکومت اور فوج نے شیخ مجیب کو اقتدار میں بٹھایا، وہ عوامی طاقت کے ذریعہ اقتدار میں نہیں آئے لیکن بنگلہ دیش کے عوام نے شیخ مجیب الرحمٰن سے محبت کی، شیخ مجیب الرحمٰن عوام کے ساتھ مل کر ایک نیا بنگلہ دیش تعمیر کر سکتے تھے مگر اس کی بجائے لوٹ مار کا ایک دور شروع ہوا اور عوامی لیگ کے لوگ غیر بنگالیوں کی جائیدادیں لوٹنے لگے اور ان لوگوں کے گھر تباہ کیے گئے جو عوامی لیگ کے حامی نہیں تھے۔

بدر الدین عمر کا کہنا تھا کہ شیخ مجیب نے کارخانوں کو نیشنلائز کیا اور انہیں عوامی لیگ کے راہنماؤں کے حوالے کر دیا، شیخ مجیب الرحمٰن عوام کے خلاف کھڑے ہوئے اور مُلک بھر میں خوفناک کارروائیاں شروع کی گئیں جبکہ سیاسی مخالفین کو قتل کرنے اور انہیں ٹارچر کرنے کا سلسلہ شروع ہوا۔

رکھی باہنی کے قیام کے حوالے سے بات کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ شیخ مجیب الرحمٰن نے مہینوں تک آزادی کی جنگ لڑنے والی فوج پر اعتماد نہ کرتے ہوئے رکھی باہنی بنائی جس نے عوامی لیگ کی حکومت کو عوامی حمایت سے مزید محروم کر دیا، نتیجتاً شیخ مجیب الرحمٰن تنہا ہو گئے اور باکسال قائم کر کے تمام سیاسی جماعتوں پر پابندی لگا دی، اخبارات کو بند کر دیا گیا، حتیٰ کہ ماہانہ اور ہفتہ وار جریدے بھی بند کیے گئے۔

بنگلہ دیش کے معروف دانشور اور سیاستدان ’’بدر الدین عمر‘‘ نے کہا کہ اگست 2024 میں شیخ حسینہ واجد نے عوامی غصے سے گھبرا کر استعفیٰ دیا اور بھارت فرار ہو گئیں، عوامی لیگ کے 15 سالہ اقتدار کا خاتمہ عوامی جدوجہد کا نتیجہ ہے، بنگلہ دیشی عوام نے 5 اگست 2024 کو عوامی لیگ کی قید سے آزادی حاصل کی ہے۔

Follow Us

The Thursday Times is now on Bluesky—follow us now. You can also follow us on Mastodon.

LEAVE A COMMENT

Please enter your comment!
Please enter your name here
This site is protected by reCAPTCHA and the Google Privacy Policy and Terms of Service apply.

The reCAPTCHA verification period has expired. Please reload the page.

spot_img

خبریں

The latest stories from The Thursday Times, straight to your inbox.

Thursday PULSE™

More from The Thursday Times

error: